پاکستان کبھی تیسری دنیا کے ایک لیڈر کے طور پر آگے چل رہا تھا۔ مسلم دنیا اسے ایک لیڈر کے روپ میں دیکھتی تھی۔ جنوبی ایشیا کے ممالک اسے بھارتی بالادستی کے سامنے ایک محافظ کے روپ میں دیکھتے تھے۔ لیکن وہ وقت بیت چکا۔ آج تو یہ حالت ہے کہ بھارت ہمیں اہنے برابر بٹھانے ہر تیار نہیں۔ امریکہ، برطانیہ اس قابل نہیں سمجھتے کہ آپ کے وزیرِ اعظم کو ملاقات کا وقت دیں۔ ۔ افغانستان جیسی ریاست جو کبھی ہماری طفیلی ریاست تھی آج ہمیں دھمکیاں دیتی ہے۔ ۔ ۔ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم آپ کے ہاں ہونے والی کسی بھی کانفرنس میں آنے سے انکار کر دیتی ہے، جب چین تک آپ کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کے حق مین ووٹ دیتا ہے، جب سفارتی تنہائی میں گھرے ہوئے آپکے ملک کو دور دور کوئی دوست دکھائی نہیں دیتا۔ ۔
تو مجھے بھٹو یاد آتا ہے۔ ۔ ۔
کون بھٹو، وہ بھٹو جسے اس ملک سے عشق تھا۔ ۔ جو دن رات اس کیلیے سوچتا اور کام کرتا۔ ۔ ۔ وہ بھٹو جس نے اسے دنیا کا لوہا بنانا چاہا۔ ۔ وہ بھٹو جس نے اسے ایٹمی طاقت بنایا۔ ۔ وہ بھٹو جس نے اسے اسلامی و تیسری دنیا کا لیڈر بنایا۔ ۔ وہ بھٹو کہ دنیا کے رہنما اس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار رہتے تھے۔ ۔ ۔
اسی بھٹو کے ساتھ اس قوم نے کیا کیا؟
بے گناہ پھانسی پر چڑھا دیا
بیگم کو بیوگی میں چار جوان لاشیں دیکر ذہنی مفلوج بنا دیا۔ ۔
بیٹی تو سرِ عام باپ کا نام لینے کے جرم میں گولی سے مار دی گئی
ایک بیٹا تو زہر دیکر مار دیا گیا۔ ۔ ۔
دوسرا بیٹا تو گھر کے سامنے دن دیھاڑے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے قتل کر دیا گیا وہ بھی اس عالم میں کہ اس کی اپنی مظلوم و بے اختیار بہن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور تھی۔ ۔ ۔ ایک ہی سازش سے بھائی کو مار ڈالا گیا اور قصور وار بہن کو ٹھرا دیا گیا۔ ۔
فیض صاحب کہ گئے ناں۔ ۔
وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ۔
اور آج خاندانِ شہیداں کے اسی چشم و چراغ بھٹو کے اسی پگدار بیٹے میر مرتضٰی بھٹو کی برسی ہے۔ ۔ ۔ میر جسے باپ نے علی المرتضٰی ع شیرِ خدا کے نام پر مرتضٰی نام دیا اور وہ بھی اپنے نام کا اثر لیتے ہوئے قابل بھی خوب بنا اور شجاع بھی۔ ۔ ۔ جس نے نیوکلر انرجی میں ڈاکٹریٹ کی تو دوسری طرف یزیدِ عصر ضیاء الیک کے خلاف کلمہِ حق پوری قوت کے ساتھ بلند کیا۔ ۔ ۔ جس کے نہ جانے کیا کیا خواب تھے اپنے باپ کے مشن کو آگے لے جانے کیلیے لیکن اس زبان کو ہی خاموش کر دیا گیا جس کی حقانیت کے سامنے یزیدت تھتڑائی تھی۔ ۔
آج جب اسی میر مرتضٰی کے گوشہِ گمنامی میں جیتے بیٹے کو دیکھو یا اس کی جوان بیٹی جس کے سر میں وقت کی آزمائشوں نے چاندی اتار دی۔ ۔ ۔ یا اس کی بیوہ کو دیکھو۔ ۔ جو ارمانوں کیساتھ بیاہ کر پاکستان آئی تھی آج بیوگی کا داغ لیے زندگی کے باقی ایّام بسر کر رہی ہے تو دل دکھتا ہے، کڑھتا ہے اور دل سے یہی آواز نکلتی ہے کہ اس مٹی کی محبت میں بھٹو تیرے گھرانے نے وہ وہ قرض اتارے جو واجب بھی نہیں تھے۔ ۔ ۔
اس مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
بھٹو خاندان سیاست چھوڑ چکا۔ ۔ ۔ ۔ شاید اب بھٹؤوں میں مزید جوان لاشے اٹھانے کی ہمت نہیں رہی۔ ۔ ۔
شاید ظلمت کامیاب ہو گئی۔ ۔ ۔ لیکن اسی اثناء میں ملک ہار گیا۔ ۔ ۔ اس کے عوام ہار گئے۔ ۔ ۔ ان کی امید ہار گئی۔ ۔ ۔
لیکن کیا ضیاء الیک بھٹو کی، میر کی محبت دل سے نکال سکا؟ جواب ہے نہیں یہ وہ محبت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ محبت ہے جو بھٹو اور اسکے مظلوم خاندان کے چاہنے والوں کے جسم میں لہو بن کر دوڑتی ہے۔ ۔ ۔ بھلا لہو بھی کوئی جسم سے نکال سکتا ہے؟
بھٹو آج بھی یاد آتا ہے۔ ۔ بھٹو کا پگدار مرتضٰی آج بھی یاد آتا ہے۔ ۔
آج میر مرتضٰی بھٹو کو شہد ہوئے اکیس برس بیت گئے!
موجودہ سیاسی منظر نامے میں مرتضٰی بھٹو کی کمی شدّت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اس وقت کہ جب یا تو مذہبی شدّت ہسند گروہ ہیں اور یا کرپٹ سیاسی قیادت اور یا غیروں کے دو ٹکے کی نوکری پر بکنے والی فوجی قیادت موجود ہے، ان حالات میں شہد رانی کے بعد ایک جینئین عوام دوست دلیر رہنما کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے
اور وہ کمی بھٹو کا پگدار، اس کا وارٹ میر مرتضٰی ہی سہی طرح پوری کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔
افسوس کہ اس ملک نے ہر دہائی میں ایک بھٹو کا خون لیا۔ 70 کی دہائی میں بھٹو کا، 80 میں شاہ کا، 90 میں میر کا۔ ۔ ۔ 2000 میں شہد رانی کا اور 2010 میں بیگم صاحبہ کا۔
اے ارضِ وطن تجھ پہ اور کیا نثار کروں اپنا پورا گھرانہ تیرے ہر نثار کر دیا۔ ۔ ۔
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے