1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. 10 دسمبر 1976

10 دسمبر 1976

"میرا دل اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ وہ کتابوں میں کھویا تھا اور میں اس کے کتابی چہرے میں۔ گھبرو جوان پنجابی مرد، دراز قد، مضبوط ہاتھ پاؤں اور بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں۔ ماتھے پر گری گھنگریالی کالی زلفوں کی شمیم مچل رہی تھی۔ اس نے ایک تاریخی ناول اٹھایا اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ایسے خوبصورت جوان کو جنگ اور مار دھاڑ سے کیا لینا ہے۔ میں اس کے قریب پہنچ گئی۔ کیا آپ نے پروین شاکر کو پڑھا ہے؟ میں نے خوشبو، پکڑ کر اس کے سامنے کر دی۔ اس نے کتاب کھولی اور پڑھنے لگا۔

میں اس کی دسترس میں ہوں، مگر وہ

مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

غزل پڑھتے پڑھتے وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں مسکرایا کہ برف سے اٹے پہاڑی دروں کی صبح طالع ہوگئی۔ سورج چمکا، برف پگھلنے لگی اور راستے پانی پانی ہو گئے۔

میں اس کے ساتھ چپک گئی۔

ایک ہاتھ میں خوشبو، دوسرے میں مجھے تھامے وہ بک سٹال سے باہر آ گیا۔ ہم سڑکوں گلیوں میں بھٹکتے رہے، جانے کب تک! پارک میں گھاس پر بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کیں۔

شام ڈھلنے لگی، سائے بھاری اور ملجگے ہو گئے۔ درختوں، عمارتوں پر سانولا پن دوڑ گیا۔ سٹریٹ لائٹس کی روشنی ہمکنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا کی نوکیں ہڈیوں میں چبھنے لگیں۔

تمہیں گھر چھوڑ آؤں؟

میں نے اس کی گردن کو اپنی انگلیوں سے چھوا اور سر اس کے شانے پر رکھ دیا۔ اس نے مجھے کمر سے تھام لیا اور ہم چل پڑے۔ چلتے رہے، چلتے رہے۔ رات گہری ہوگئی چاند بار بار بادلوں کے کناروں کو چوم رہا تھا۔ اس نے جھک کر میرے ماتھے کو چوما۔ آسمان میں بجلی چمک اٹھی۔ وہ میری کمر پر پڑے بالوں سے کھیلنے لگا۔ ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے کرکے بولا، گہرے سیاہ بادلوں کا گھنا جنگل مجھے بھٹکا کر ویران راستوں پر لے آیا ہے۔۔

ٹھنڈی ہواؤں کے لطیف جھونکے ملن کے گیت گانے لگے۔

میرے گھر کے سامنے رخصت ہوتے وقت اس نے میری ٹھوڑی اٹھا کر ہونٹوں پر پیار کرنا چاہا، چاند تارے بادلوں میں چھپ گئے۔ کل پھر ملنے کا وعدہ لیا اور الٹا چلتے ہوئے واپسی کا راستہ ناپنے لگا"۔

رات بلقیس زہرہ نے بستر پر لیٹ کر اپنی آنکھیں بند کیں اور اس کے خواب دیکھنے لگی۔ سرمئی نرگسی آنکھوں کے سپنے، جام دونوں اور دونوں ہی دو آتشہ۔ اس کے کاندھے کا تل جو قمیض کے گریبان سے جھانک رہا تھا، جو اس کے رخساروں کو چھو کر شرما گیا تھا، جیسے موچھوں کا کنارہ اس کے ہونٹوں کو چھو کر۔ بلقیس زہرہ کے دل میں پوری زندگی اس کے قدموں پر نچھاور کرنے کی خواہش پنپنے لگی، اس کی دلہن بن کر۔

***

"زہرہ! تمہارے لیے سونف الائچی ملا کر چائے بنائی ہے۔ اس میں شہد بھی گھول دیا ہے۔ میری پیاری! تھوڑی سی لے لو۔ ایسی چائے تو تمہیں بہت پسند ہے"۔

سر سے گنجے احسان نے گڈ مارننگ کہتے ہوئے چائے اس کے سامنے رکھی۔ بلقیس زہرہ نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر اس کی طرف دیکھا پھر کانپتے ہاتھوں سے کپ اٹھا کر چائے پینے لگی۔

"باہر دیکھو کتنی پیاری دھوپ کھلی ہے۔ سردی کی شدت کچھ کم ہے۔ آج ہمارے دوست اکرم سعید کی کتاب کی رونمائی ہے، ایک مضمون پڑھ کر جلد واپس آ جاؤں گا۔ شام کو ہم واک کرنے پارک جائیں گے"۔ یہ کہہ کر احسان اپنی خشخشی داڑھی کو کھجاتے دروازے کی طرف چل پڑا۔ بلقیس زہرہ آہستہ سے بولی، "میں نہیں جاؤں گی۔ آج مجھے مارکیٹ جانا ہے"۔ احسان نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ مایوسی اور اداسی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی، "ٹھیک ہے میری جان، جو تمہاری مرضی"۔

اس رات بلقیس زہرہ نے اپنی ڈائری کھولی، صفحہ الٹا اور اس کی دائیں اوپری کنارے پر تاریخ لکھی۔

7 اکتوبر 1975

"آج شام بک شاپ پر میں نے ایک نوجوان دیکھا۔ وہ کوئی ناول ڈھونڈ رہا تھا۔ پتا نہیں کون سا؟ میں کتابوں کی طرف نہ دیکھ سکی کیونکہ اس کے حسن نے مجھے موہ لیا۔ مردانگی ایسی غضب کی جیسے درجن بھر یونانی دیوتاؤں کا ست نچوڑ کر بھر دیا ہو۔ ماتھے پر لہراتے گھنگریالی کالی زلفوں کے پھندوں نے مجھے قید کر لیا۔ سامنے پڑی کتابوں پر گیسوؤں سے گری افشاں کے ذرے دمک رہے تھے۔ میرے گلابی جوڑے نے اس کو بھی مسحور کر دیا تھا۔ قریب آ کر کہنے لگا، اس جوڑے نے تمہارے بدن کی رنگت چرا لی ہے۔۔

اس نے ساتھ چلنے کا کہا۔

دونوں ہاتھ میری کمر میں ڈال کر مجھے لے آیا، پارک میں، اس جھیل کے پاس جس میں سینکڑوں پرندے تیر رہے تھے۔ جھیل کنارے کچھ پرندے دھوپ سینک رہے تھے۔ اس نے میری آنکھیں چومیں، پرندے پھڑپھڑاتے جھیل میں کود گئے۔ پروں سے ہوا کو چیرنے کی آواز تھی یا جلترنگ۔ سارا پارک گیت گانے لگا۔ میرے لب کے پرندے اس کے جھیل بدن پر تیرنے کے لیے بیتاب تھے۔ اس کا بازو پکڑ کر پھول جیسی ہتھیلی چومنے لگی۔ جھیل کی سطح پر ہزاروں کنول کھل گئے۔ وہ میری گردن کے پیچ و خم ماپنے لگا، الجھ گیا، بھٹک گیا پھر انگلیوں سے راستے تلاش کرنے لگا۔ جھیل کا پانی کناروں پر سر پٹک رہا تھا۔ اس کی بے بسی نے وصال کی تشنگی کو بڑھا دیا۔

تھک کر بیٹھنا چاہتی تھی تو کہنے لگا، زمیں ٹھنڈی ہوگی اور ہلکی ہلکی گیلی بھی۔ جیکٹ اتار کر زمین پر بچھا دی۔ اب بیٹھ جائیں۔۔

میں سامنے بیٹھی اسے تک رہی تھی۔ چھاتی کے کالے سیاہ بال سفید شرٹ سے جھانک کر مجھے اپنی طرف بلا رہے تھے۔ خود پر قابو رکھنا مشکل تھا۔

ہم واپس چل پڑے۔ چلتے رہے، چلتے رہے۔ سورج تھک کر افق کی گود میں سو گیا، چاند ستارے جگمگا کر ہمارے راستوں کو منور کرنے لگے۔

گھر کے دروازے پر مجھے چھوڑا۔ میری ٹھوڑی اٹھا کر ہونٹوں پر پیار کیا، چاند مسکرا اٹھا، ستاروں کی جگمگاہٹ بڑھ گئی۔

کل پھر ملیں گے۔۔

وہ واپس چل پڑا لیکن جب تک میں گھر میں داخل نہ ہوگئی اس کی نظریں مجھ پر ہی جمی رہیں"۔

ڈائری لکھ کر وہ سو گئی۔ اس رات، خواب میں، وہ اس کے بیڈ پر ہی موجود تھا۔ شادی کی پہلی رات۔ کئی راتیں اور دن۔ گھر گرہستی، بچے اور بچوں کے بچے۔ ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ"۔

***

آج رات بلقیس زہرہ بہت گہری نیند سوئی۔ صبح ہوگئی لیکن اٹھنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ پیار کا خمار گلابی آنکھوں کو سرخ کر گیا۔ عجب نشہ تھا! غیب و شہود کا ملاپ، برہا و وصل کا الاپ۔ جام در جام، ساقی کا کرم، سجدہ شوق سے آباد رندوں کا حرم۔

وہ نہانے کے لیے گئی تو شاور کے نیچے بیٹھی رہی، دیر تلک۔ کمرے میں واپس آ کر ادھر ادھر بھٹکتی رہی، سوچتی رہی کہ اسے یہاں کون لایا ہے؟ باہر صحن میں ایک لڑکی کپڑے پریس کرتے ہوئے فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ لڑکی واپس مڑی تو استری کی تار اس کے پاؤں میں الجھ گئی۔

تار سے پاؤں نکالتے ہوئے اس نے زہرہ کی طرف دیکھا، زہرہ نے نظریں پھیر لیں۔

صبح بخیر، میری زہرہ جمال! وہ بوڑھا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ "آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ چاند سا چہرہ، غضب کی چتون! یہ تازگی دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے کہ تم پر ایک گیت لکھوں"۔

بلقیس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات بکھرتے دیکھ کر اس نے موضوع بدلا۔

"آج کیا پروگرام ہے؟ کیا میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جانا پسند کرو گی؟ ایک مشاعرہ بھی ہے کچھ دیر ادھر چلے جائیں تو دل خوش ہو جائے گا"۔

صُمٌّ بُکُمٌ: اردگرد سے بے خبر وہ خلا میں گھور رہی تھی۔

لڑکی بھی پاس آ کر کھڑی ہوگئی، اس کی بات سن کر بولی، "آج ممکن نہیں، ڈاکٹر سے اپوائنٹمنٹ لی ہوئی ہے"۔

"مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا"۔ بلقیس زہرہ نے ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔

"چیک آپ کروانا ہے۔ کیا آپ میرے ساتھ بھی نہیں جائیں گے؟" یہ کہتے ہوئے لڑکی نے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

"مت چھوو مجھے"۔ زہرہ نے کرخت لہجے میں دھتکار دیا۔ "آج شام میں نے مارکیٹ جانا ہے"۔

"ڈاکٹر کے پاس چند منٹ ہی لگیں گے اس کے بعد ہم مارکیٹ چلے جائیں گے"۔

بلقیس زہرہ نے بددلی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

اس شام مارکیٹ میں لڑکی نے پھل سبزیاں اور بہت کچھ خریدنا تھا۔ بلقیس زہرہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلتی رہی۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر ایک بک سٹال پر پڑی تو وہ اس میں گھس گئی۔ پروین شاکر کی انکار، ڈھونڈ لائی اور گاڑی میں بیٹھ کر پڑھنے لگی

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

زندگی میری تھی لیکن اب تو

تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

جب وہ گھر پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ سورج کی شعائیں کھڑکی سے جھانک کر کمرے کی دیوار کو روشن کر رہی تھیں۔ ڈھلتے سورج کے ساتھ اس کا دل تڑپنے لگا۔

لڑکی اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور مارکیٹ کی طرف چل پڑی۔

اس رات بلقیس زہرہ نے اپنی ڈائری کھولی، صفحہ الٹا اور اس کی دائیں اوپری کنارے پر تاریخ لکھی۔

10 نومبر 1977

آج بک سٹور پر میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو کہ شیلف پر موجود کتابوں میں سے کوئی کتاب تلاش کر رہا تھا۔ ایک کتاب کھول کر دیکھی، پسند نہیں آئی واپس شیلف میں رکھنے لگا تو ساتھ والی زمین پر گر پڑیں۔ میں نے آگے بڑھ کر انہیں سمیٹنے میں مدد کی۔ وہ بہت مشکور ہوا۔ اس نے میرے سرخ لباس پر سنہری کڑھائی کی بہت تعریف کی۔ کہنے لگا، "میں نے دیوان غالب خریدا ہے آؤ، کسی باغ میں جا کر پڑھتے ہیں"۔

وہ سرو قامت، صبیح طلعت نوجوان سونے کے ورق کی سی چہرے کی باریک جلد! چوتھی کا دلہا، چودھویں کا چاند۔

وہ ایسے کھٹکے سے بولا کہ اس کا لہجہ میرے سینے میں چبھ کر ٹوٹ گیا۔

ہم چل پڑے۔

ہائے یہ رنگین شام، آنکھوں آنکھوں میں کلام، لڑکھڑاتے گام، ایک دوسرے کے ساتھ جڑے، اٹھلاتے، یوں جیسے ٹکراتے ہوئے جام، میں اور میرا محبوب میرا گل فام۔ آسمان کی وسعتوں میں تیرتے بادل، ان کی لہروں میں ڈوبتے سورج کا سونا، نشیلی آنکھوں کا جادو ٹونا۔ اس نے مجھے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔ باہوں میں ہرکولیس کی سی سختی اور طبیعت میں یسوع مسیح کی سی نرمی تھی۔

وہ میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، جھک کر دیکھتا تو اس کی سانس کی برچھی میرے سینے میں اتر جاتی۔ اس کی آنکھیں ہیں یا دور گھنے جنگل میں کسی لکڑہارے کی کٹیا جس میں دو ایسے چراغ روشن ہیں جنہوں نے جنگل کے گھپ اندھیرے کو مات دے دی تھی۔

بادل گہرے ہو گئے، ہم چلتے رہے۔ بارش برسنے لگے۔

کاتک کی ہلکی ہلکی بارش اور ٹھنڈی ہوائیں۔ ماتھے پر پڑے بال ہواؤں کے ساتھ لہرا رہے تھے۔ اس نے میرے ماتھے پر پڑی بارش کی بوندوں کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔

"سردی شروع ہوگئی ہے اور آپ نے کچھ اوڑھا بھی نہیں"۔ اپنا کوٹ اتار کر میرے کندھوں پر ڈال دیا۔ ہائے میرے پیارے، کہہ کر میں اس کی باہوں میں جھول گئی۔ اس کے عشق کے بغیر میں عورت نہیں بن سکتی۔

بارش کی ٹپ ٹپ تھی یا مندروں کی گھنٹیاں، رات کا سکوت نغمہ سحر گاہی میں ڈھل گیا تو اس نے مجھے میرے گھر کے دروازے پر چھوڑا۔ کل شام پھر ملنے کا وعدہ لیا، واپس جاتے ہوئے وہ مڑ مر کر دیکھ رہا تھا"۔

بستر پر گرتے ہی بلقیس زہرہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ بک سٹال میں ملنے والے شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کے خیالات خوابوں میں ڈھل گئے۔ اس کی مسکراہٹ، اس کی قہقہے۔ اس کی گرم ہتھیلیوں کا رس جس سے زہرہ کا خون کھد بدانے لگا تھا۔ اس کا انگلیوں سے بارش کی بوندیں صاف کرنا۔ وہ خواب تھا کہ حقیقت، انگلیوں کی پوریں جسم کے خد و خال کو جانچ رہی تھیں۔ یہی خواب ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اکٹھا دیکھنا چاہتا تھا۔

***

بلقیس زہرہ احسان کے گانے کی آواز سن کر جاگی۔ ٹوسٹ تلنے کی سوندھی سوندھی خوشبو گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ زہرہ نے دروازہ کھول کر جھانکا۔ گنجے سر پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔ اسے سفید خشخشی داڑھی ذرا نہیں بھاتی تھی۔ یہ سارے لوگ ہی خطرناک لگتے تھے۔ وہ یہاں کیسے آ گئی؟ یہ بڈھا کون ہے؟ یہ کس کا گھر ہے؟

اس نوجوان کے بارے میں سوچنے لگی جو اسے بک سٹال پر ملا تھا۔ اس کے ساتھ بھاگ جائے تو ان ظالموں سے جان چھوٹ سکتی تھی۔ اس خستہ حال زندگی سے چھٹکارا پانے کا یہی مناسب طریقہ تھا۔

اس نے آہستگی سے دروازہ اندر سے لاک کر لیا۔ ایک بیگ لے کر اس میں کپڑے پیک کرنے لگی۔ کانپتے کمزور ہاتھ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ سانس بھی اکھڑ رہا تھا لیکن وہ کوشش کر رہی تھی کہ کام جلد از جلد اور خاموشی سے مکمل ہو جائے۔ الماری کھولی ریک میں کپڑے ڈھونڈنے لگی۔ ایک ایک کو دیکھتی جا رہی تھی۔ کوئی کھلا کوئی بڑا، اوٹ آف فیشن بھی۔ پتہ نہیں کس دور کے تھے؟ پھر بھی اس نے کچھ سوٹ پیک کر لیے۔ بیگ کو کندھے پر اٹھانا چاہا تو وہ اس کے لیے بھاری تھا۔

سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے کے تالے میں چابی گھومنے کی آواز آئی۔ اس نے بیگ وہیں پھینک دیا۔ کپڑوں کا کیا ہے اس کا محبوب نئے لا دے گا۔ کھڑکی کھول کر باہر چھلانگ لگانا چاہتی تھی کہ احسان نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔

"میری زہرہ یہ کیا کر رہی ہو؟"

"تم نے مجھے ہاتھ کیوں لگایا؟ بڈھے، تمہیں غیر عورت کو چھوتے شرم نہیں آتی۔ چھوڑ دو مجھے"۔ وہ چلانے لگی۔

شور سن کر وہ لڑکی اور کچھ بچے بھاگے چلے آئے۔ لڑکی نے پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا۔ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر بکھرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگی۔

"یہ آپ کا گھر ہے۔ آپ یہاں سے کیوں جانا چاہتی ہیں؟"

"یہ میرا گھر نہیں۔ یہ بڈھا میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟"

"آپ کا گھر ہی ہے۔ میں آپ کی بیٹی، نصرت۔ ہم سال ہا سال سے اسی گھر میں رہ رہے ہیں۔ انہیں دیکھو" لڑکی نے بوڑھے مرد کی طرف اشارہ کیا۔ "کئی دہائیاں پہلے آپ انہیں ایک بک سٹال پر ملی تھیں۔ ماما، احسان الحق آپ کے شوہر ہیں، میرے پاپا"۔

"نہیں نہیں یہ وہ نہیں جو مجھے بک سٹال پر ملا تھا۔ یہ تو بڈھا کھوسٹ ہے اور میں جوان"۔

"ماما خود کو دیکھو، ہاتھوں کی جھریاں، سفید بال، آپ بھی بوڑھی ہو چکی ہیں"۔

احسان سر جھکائے بیڈ پر بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں ٹپ ٹپ آنسو بہا رہی تھیں۔ وہ اسے پکڑ کر آئینے کے سامنے لے آئی۔ "ماما دیکھیں میری شکل آپ دونوں سے کتنی ملتی ہے اور میری بیٹی تو ساری کی ساری آپ پر ہے"۔

بلقیس زہرہ نے لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا۔ کالی سیاہ آنکھیں، بالکل اس جوان جیسی جو اسے بک سٹال پر ملا تھا، جن میں دو ایسے دیپ جل رہے تھے جو گھنے جنگل کے اندھیروں کو مات دے سکتے تھے۔

"بڑے دھوکے باز لوگ ہیں یہ سب۔ رنگ بدل بدل کر مجھے الجھا رہے ہیں"۔ بلقیس زہرہ سوچتے سوچتے بیڈ پر لیٹ گئی۔

***

شام ڈھلے وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ لڑکی اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے مارکیٹ کی طرف چل پڑی۔

اس رات بلقیس زہرہ نے اپنی ڈائری کھولی، صفحہ الٹا اور اس کی دائیں اوپری کنارے پر تاریخ لکھی۔

20 مئی 1975

وہ لڑکا بک شیلف سے کتاب اٹھا کر میرے پاس آیا۔ اکہرے بدن کا سجیلا جوان، بھرا بھرا چہرہ، چوڑا سینہ جس پر کالے سیاہ بالوں کی بہار اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ کہنے لگا، "میرا نام احسان الحق ہے"۔