1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. چغد

چغد

میرا وکیل مسلسل ایک ہی بات کہہ رہا تھا، "میں جھوٹا کیس نہیں لیتا اور کبھی کوئی کیس ہارا بھی نہیں۔ مجھے مخالف فریق کے حیلے بہانوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی جھوٹی شہادتوں کی۔ اس آسان سے کیس کو ہارنا میری بدنامی کا باعث ہوگا"۔

وکیل نے تاکیداً فرمایا تھا کہ عدالت نے آخری وارننگ دی ہے اس بار سیمپل ضرور دینا ہے۔

میں نے سربمہر سمن میز کی دراز میں رکھ کر تالا لگا دیا۔

***

آج بیٹی کی شادی تھی۔ مجھے شادی ہال جانا تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر نکٹائی کی گرہ درست کی اور تیزی سے چلتے ہوئے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔

میں کسی سے اس شادی کے بارے میں لا علمی کا اظہار کر سکتا تھا اور نہ ہی استفسار۔ ایسے معاملات میں عورتیں مردوں کی مداخلت پسند نہیں کرتیں اور مرد اپنے آپ کو ذی شعور بنانا بھی نہیں چاہتے اور یہاں تو معاملہ ہی مختلف تھا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ مجھ سے کوئی مشورہ بھی نہیں کیا گیا۔ شادی کس کے ساتھ ہو رہی ہے؟ یا لڑکا کیا کرتا ہے؟

میں شادی ہال پہنچا تو پارکنگ تقریباً فل ہو چکی تھی۔ ہال کے ملازم نے کہا کہ گاڑی اندر لے چلیں۔ ریسپشن کے سامنے گاڑی روکی تو ایک اور ملازم بھاگا چلا آیا، دروازہ کھولا، جھک کر سلام کیا۔

سامنے ہی وہ کھڑی تھی، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ۔

آج بھی اتنی ہی حسین تھی، چھیل چھبیلی سندرتا جس کی نینوں کے اندر چھا جائے۔ ویسے بھی شادی والے دن دلہن کی ماں پر روپ دلہن سے زیادہ چڑھتا ہے۔

مجھے دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ تھوڑی جھک گئی جیسے سلام کرنا چاہتی ہو: میں جانتا تھا کہ یہ وہ خراج ہے جو میرا نہیں، رشتے اور اعزاز کا حق ہے۔ میں بھی اس کی تعظیم کرنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا اور آنکھیں جھکا کر یہی خراج لوٹا دیا کیونکہ وہ آج کی دلہن کی ماں تھی۔

اس سے بات کرنا مشکل کتنا تھا یہ تو کہا نہیں جاسکتا لیکن اس کے سامنے کھڑا ہونے سے مجھے اپنی ہیٹی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نظریں جھکائے ہال میں داخل ہوگیا۔ بارات کی آمد کا شور بلند ہوا تو استقبال کے لیے مجھے بلایا گیا۔ میں نے ادھر ادھر نظر گھما کر دیکھا ہر طرف اس کے رشتہ دار اور دوست احباب موجود تھے۔

نکاح کے وقت بھی مجھے ہی آگے کیا گیا۔ عجیب مولوی تھا۔ عقل کی دم میں نمدا۔ سر پر کشتی نما چھوٹی سی ٹوپی، گردن تک لمبے بال اور اس سے بھی لمبی سینے پر بکھری داڑھی جیسے قلب پر سیاہی چھائی ہو، کہنے لگا، "میں نامحرم کے سامنے نہیں جاتا۔ لڑکی کا ولی ہی دستخط کروا لائے"۔ پھر وہ مولوی مجھ سے مخاطب ہو کر ہی نکاح پڑھانے لگا۔ آنکھیں بند، ہل ہل کے میاں مٹھو کی طرح رٹا رٹایا سبق پڑھتا جا رہا تھا۔ میں حیران تھا۔ خاموش بیٹھا رہا۔ سرمہ بھری موٹی آنکھیں کھولیں، خشمناک نگاہ مجھ پر ڈال کر حرف ایجاب ادا کرنے کا حکم دیا۔ میں نے سوچے سمجھے بغیر ہاں کہہ دی۔

یوں محسوس ہو رہا تھا اس شادی میں سب نگاہوں کا مرکز میں ہی تھا۔ لوگ بظاہر ایک دوسرے میں مگن دکھائی دیتے لیکن میرا دل کہتا تھا کہ انگشت نمائی کا نشانہ میں ہوں۔ یہ خبیث النفسی آپ ہر شادی میں دیکھیں گے۔ خاندان نے باوقار سمجھتے ہوئے مہمانوں کو بلایا کہ ان کی موجودگی نئے رشتہ داروں کے سامنے عزت افزائی کا باعث ہوگی، وہ ان کو اجتماعی غیبتوں کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر مہمان میزبان خاندان کی نسلوں کو کھنگال رہا ہوتا ہے۔

اور اگر معاملات پہلے ہی بگڑے ہوں تو باوقار معزز مہمان بالکل حیوانوں کی طرح جگالی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قریب جاؤ تو ایسے چپ جیسے گالی چبائے بیٹھے ہوں۔

***

مجھے شادی ہال میں سٹیج پر دلہا دلہن کے ساتھ بٹھایا گیا تو جلد ہی اکتاہٹ محسوس ہونے لگی۔ ایک دو مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی لیکن دلہن میرا ہاتھ پکڑ لیتی۔ سسرالی رشتہ داروں کا جمگھٹا ہوا تو مجھے موقع مل گیا اور میں ہال کی ایک نکڑ میں جا بیٹھا۔ بعد میں احساس ہوا کے وہ ساتھ والے صوفے پر بیٹھی تھی۔

چشم پُر آب سے اس کی طرف دیکھا۔

آج بھی مردوں میں گھری تھی۔

اس عورت میں کون سا جادو ہے؟ جادوئے حسن؟ ہاں اس کی صورت ضرور لبھانے والی ہے۔

اس نے زندگی بھر عیش کی تھی۔ صرف اپنے حسن کو سنوارنے سجانے کا کام کیا، اس لیے اس کے بدن کی نزاکت نکھری نکھری نظر آتی۔ میں اس دور کے بارے میں سوچ رہا تھا جب وہ میرے ساتھ رہتی تھی۔ وہ گھر کی دیوی بننے کی بجائے شمع محفل بننا پسند کرتی تھی۔

اس کا حسن جس پر بھنورے منڈلاتے تھے میرے لیے ایک شعلہ سرخ تھا جس نے مجھے جلا کر رکھ دیا۔ بیوی کا حسن اس کی عصمت ہے اس کے بغیر وہ وہی آگ ہوتی ہے جسے" نَاراً و َّ قُوْدُھَا النَّاسُ" کہا گیا۔ اس نے میرے گھر کو دوزخ بنا دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ "زن بد در سرائے مرد نیکو ہم دریں عالم است دوزخ او"

اسی طرح مرد "بد در سرائے نیک زنے، بھی ہم درین عالم است دوزخ او"۔

سب صحیح لیکن یہ بڑا مشکل کام ہے کہ زن نیک برائے مرد نیک اور زن بد برائے مرد بد، تلاش کرکے جوڑا ملایا جائے۔ انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے، جانے انجانے میں غلطی کر بیٹھتا ہے اور جوڑا ٹھیک نہیں بنتا۔

میری سوچ بھٹک رہی تھی۔ ماضی یاد کرکے بہت برا محسوس ہو رہا تھا۔ ویٹرز ٹپ لینے میرے پاس آئے میں نے روایتی ادائیگی کی تو کہنے لگے، "آپ دلہن کے باپ ہیں انعام زیادہ دیں"۔

***

آخری امتحان تھا، رخصتی: دلہن کے ساتھ چلتے گاڑی تک جانا۔

اسے پیار دے کر دلہے کو سونپا تو وہ واپس مڑ کر میرے ساتھ لپٹ گئی۔ بہت ضبط و برداشت کے باوجود آنسوؤں کو نہ روک سکا۔

وداعی کے بعد واپس چل پڑا۔ گاڑی ریورس کر رہا تھا تو ایک ملازم بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ مجھے دفتر میں بلایا گیا تھا۔ منیجر نے مبارک دیتے ہوئے بل میرے سامنے رکھ دیا۔

یہ کیا؟ میں ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ شیشے کے دروازے کے باہر دیکھا تو وہ لوگوں کے درمیان کھڑی ہنس رہی تھی۔ اس نے شرم و حیا گھول کر پی لی تھی اور اب سامنے کھڑی ٹھٹھا کر رہی تھی۔

میرے پاس تو اتنی رقم نہیں تھی۔ سر جھکائے کافی دیر سوچتا رہا۔ میں انکار کرنا چاہتا تھا لیکن پھر کچھ رقم اپنے اکاؤنٹ سے اون لائن شفٹ کی اور زیادہ تر ایک مخلص دوست سے ادھار مانگ کر منتقل کروائی۔ ساتھ ساتھ سوچتا جا رہا تھا کہ یہ ادھار گردہ بیچ کر ہی ادا کر سکوں گا۔

دفتر سے باہر نکلا، گیٹ کیپر نے سلام کرکے مبارک دی تو جیب میں جو کچھ تھا سب نکال کر اسے دے دیا۔

***

رات کافی بھیگ چکی تھی، سڑکیں سنسان راستہ ویران۔ بھٹکا ہوا انسان سب سے پہلے اپنے گھر کا راستہ ہی بھولتا ہے۔ گھر جا کر کرنا بھی کیا تھا؟ کہاں کہاں گھومتا رہا؟ کچھ پتا نہیں۔ گھر چلانے کے لیے شوہر میں عقل اور بیوی میں شرافت بہت ضروری عناصر ہیں۔ ہم دونوں میں یہ خصوصیات نہیں تھیں۔ کون سا ایسا پیڑ ہے جسے کبھی ہوا نہ لگی ہو لیکن اس کا مقابلہ کرتے ہیں جڑ سے اکھڑ نہیں جاتے۔ انسان فرشتہ نہیں لیکن گناہ پر فخر کرنا اور اڑے رہنا شیطانی صفت ہے۔

سو گھر اجڑ گیا۔

اس نے مجھے ہمیشہ مٹی کا مادھو ہی سمجھا تھا۔ مجھے چغد کہتی اور میرے بجھکڑ پن کو ضرب المثل کا درجہ دیتی تھی۔ آج مجھے سب کچھ سچ لگا۔

یہی سوچتے سڑکوں پر بھٹکتا رہا۔

رات ڈھلتی اور ہمت برف کی طرح پگھلتی جا رہی تھی۔

صبح کی اذان ہو رہی تھی جب کشتی لنگر شکستہ کی طرح ڈولتا اپنے گھر کے دروازے تک پہنچا۔

نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔ آتش دان روشن کیا اور آرام کرسی پر بیٹھ کر اپنی قسمت کی طرح اسے ہلارے دینے لگا۔ میں اول درجے کا بے وقوف تھا یا پرلے درجے کا چغد، مٹی کا لوندا تھا یا پھکسے کا ڈھیم؟ کیا ہر جگہ پر میں نے ہی استعمال ہونا تھا۔ وہ مجھے حظ نفس کا آلہ سمجھ کر استعمال کرتی رہی جب دل بھر گیا تو بھاگ نکلی۔ اب اسی چغد کو لوٹنا شروع کیا ہوا ہے۔ مجھ سے بچی کا زر کفالت لیتی رہی اور شادی کے سارے اخراجات بھی مجھ سے ہی ادا کروائے۔

میں اٹھا میز کا دراز کھول کر سمن باہر نکال لیا۔ سربمہر خط تھا۔ مجھے پتا تھا عدالت کیا چاہتی ہے؟

اب یہ کہانی ختم ہو جانی چاہیے۔ مجھے ڈی این اے کا سیمپل دے کر مستقلاً اپنی جان چھڑا لینی چاہیے۔

وکیل صحیح کہتا تھا، ایک سچا کیس ہار کر وہ اپنی بدنامی کیوں کروائے؟

نامعقول ماں۔ بدتمیز بیٹی! دلہا کے ساتھ جانے سے پہلے ماں کی بجائے میرے سینے سے لگ کر رو رہی تھی۔ میں سربمہر لفافہ پکڑ کر کمرے میں گھومنے لگا۔ آتش دان کی آگ جلتے جلتے بجھ گئی تھی۔ کمرے میں دھواں بھرنا شروع ہوگیا، اسی لفافے سے ہوا دینے لگا۔ جلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ لفافے کو کچھ دیر غور سے دیکھا پھر لکڑیوں کے اوپر پھینک دیا۔ پھونک ماری تو بھانبڑ مچ گیا۔

آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی گنجی کھوپڑی کھجلانے لگا۔ خود کو غور سے دیکھا تو محسوس ہوا اس نے صحیح جانچا تھا۔

لال بجھکڑ، چغد کہیں کا! ۔