سردیوں کی لمبی اور اداس رت میں دھڑکنیں بھی برف ہو جاتی ہیں۔ اپریل کے مہینے میں سورج نے منہ دکھایا تو برف پگھلنا شروع ہوئی۔ درختوں سے جھانکتا سورج بمشکل اتنا گرم تھا کہ دیودار اور صنوبر کے درختوں پر جمی برف کی دھول کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر سکے۔ ان ٹکڑوں سے لدی سرنگوں شاخوں سے جب ہلکی سی ہوا ٹکراتی ہے تو برف زمین پر گر کر یوں بکھر جاتی ہے جیسے جوانی کے خواب۔
سورج کی ہلکی گرمی سے چمن میں بہار کا موسم سلگ رہا ہے۔ کوک روبن کا جوڑا چہچہا کر زمین سے کیڑے مکوڑے اکٹھے کر رہا ہے۔ اس یخ بستگی میں بھی نیلے اور سرخ پروں کی تمازت انہیں گرم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اچھل اچھل کر ایک دوسرے سے چونچیں لڑاتے ہیں۔
نیلی اور بھوری تتلیاں، جن کے پر سردی کی شدت سے کمزور ہو چکے ہیں، آسمانی رنگ کے پھولوں میں کسی ایسے پتے کی تلاش میں ہیں جس پر وہ انڈے دے سکیں۔ ایک مضبوط پتہ دیکھ کر اس پر بیٹھی ہی تھیں کہ وہ ٹوٹ کر پرانے پیلے پتوں کے ساتھ زمین بوس ہوگیا۔
گیلی مٹی میں رچے بسے یہ بوسیدہ پتے جو ساری سردیاں برف سے ڈھکے رہے، دھوپ پڑتے ہی بھینی بھینی خوشبو بکھیرنے لگے ہیں۔ جن کی مہک پا کر چیچک ووہٹی، پنبہ دوز اور رنگ برنگے حشرات ان کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب پچھلے سال کی باقیات کو زرخیز مٹی میں بدل دیں گے۔
برف کی ٹکڑیوں کے درمیان منہ بند کلیوں سے لدی ٹہنیاں سورج کی طرف جھانک رہی ہیں۔ سورج کی شہ پر تنکے بھی بے باک ہو گئے ہیں، اب پھول کھلنے کو تیار ہیں۔ دوپہر کو جب دھوپ تھوڑی گرم ہوگی تو یہ کلیاں اپنا عبایہ کھول دیں گیں۔ برف کی بوند جیسی سفید چمکدار گل چاندنی سب سے پہلے ابھرے گی۔ اس کے بعد زعفران اور گل بکاؤلی کے نیلے اور ارغوانی پھول، پھر سوسن اور بابونہ کے پیلے پھول کھلیں گے۔ زمین پر بچھی دوب کا رنگ پہلے ہی گہرا سبز ہو چکا ہے۔ رنگ برنگے پھولوں سے سجی اس مخملیں دوب کو دیکھ کر دلوں میں حب وطنی کے چراغ روشن ہونے لگتے ہیں۔
زمینی پھولوں کے ساتھ دیودار، صنوبر اور شاہ بلوط کے پودوں کی کونپلیں بھی نکلنا شروع ہوگئی ہیں۔ چیری و بادام کی ڈالیاں اور سیب، آڑو، آلو بخارا کی ننگی ٹہنیاں پھولوں سے بھر گئی ہیں۔ جنگلی بیری کے زردانے اور صنوبر کے سفید روئیں کے بادل اس دلکشا وادی پر چھا کر پوری فضا کو خمار آلودہ کر رہے ہیں۔ پھولوں کا یہ عرق مدھو مکھیوں کو امرت جمع کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
شہد کی مکھیوں کی ایک کنواری ملکہ اپنا محل چھوڑ کر باہر نکل آئی ہے۔ یہ آزاد فضاؤں میں اس کی پہلی اڑان ہے۔ درجنوں محافظ مکھیاں اور مشتاق ڈرونز اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔ ملاپ کی چاہت میں کئی ڈرونز جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کارکن مکھیوں کے جلو میں وہ چھتے تک پہنچ گئی ہے۔ اب ملاپ کا ثمر ملے گا اور وہ انڈے دے گی۔ کارکن مکھیاں پھولوں سے شہد اکٹھا کرکے لائیں گیں اور پھر امرت رس اس دھرتی کے جانداروں کو صحت بخشے گا۔
نرم و شفیف پروں والے جھینگر زمین کھود کر باہر نکل آئے ہیں۔ وہ بھی اڑان بھرنے کو تیار ہیں۔ اب وہ درختوں میں اپنے نئے گھر بنائیں گے۔ نر جھینگر ملن کے ایسے گیت گائیں گے کہ پوری وادی گونج اٹھے گی۔
بلبل ہزار داستان کی جوڑی درختوں کی ٹہنیوں پر پھدک رہی ہے۔ بلبل انڈے دینے کے لیے تنکوں اور گھاس کی ٹہنیوں کی مدد سے اپنے پیار کا گھونسلا بناتی ہے تو نر ہاتھ بٹاتے ہوئے خوشنما آواز میں گیت گا کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ سرخ اور بھوری رنگت کی چڑیوں کا جوڑا بھی صنوبر کی ٹہنیوں پر اچھل کود رہا ہے۔ وہ بھی اپنے محبت کا آشیانہ اسی بوستان میں بنانے کی فکر میں ہیں۔ فاختہ کی کو کو تعشق کا اظہار کرتے ہوئے گلستان کا باب پنجم سنا رہی ہے۔
شدید سردی سے پناہ لینے کے لیے چترال کی گھاٹیوں کا رخ کرنے والی سائبیرین قمریوں کے چہچہوں میں اپنے ساتھی کو سندیسہ ہے کہ اب واپسی کا خیال چھوڑ کر اسی دیش میں اپنا گھر بنانا ہے۔
مرغان چمن کی نوا سنجی اور موسم بہار کی شگفتگی و رنگ آمیزی میں لامحدود حسن فطرت کی تھوڑی سی جھلک ہے۔ حسن کی یہ جھلک تناسل کی تکان مٹا دیتی ہے۔ جہدالبقا کی گراں باری کے احساس کو ختم کرکے انہیں دل آویز بنا دیتی ہیں۔
تیز دھار کالی آنکھوں اور بھورے سفید بالوں والا شکرا اپنے لمبے پر سمیٹتا ہوا پتھر کی سرمئی سل پر آ بیٹھا ہے۔ وہ سل جس پر Inter. services Intlligence کا نشان کھدا ہوا ہے۔ وہ اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے کھدے نشان میں اپنا ساتھی ڈھونڈ رہا ہے۔
اس سل کے اوپر پڑی برف آج کی ٹھنڈی دھوپ میں کچھ زیادہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ یہ برفاب ساتھ ہی جڑی دوسری سل پر گر رہا ہے۔ دونوں کے سرہانے لگے پودے سے چیری کے پھول گر کر ان پر لکھے الفاظ کو ڈھانپ چکے ہیں۔
یہ وادی کہانیوں کا ایک کنواں ہے۔ یہ پھول کچھ راز چھپائے بیٹھے ہیں۔ کچھ دن بعد یہ سارے بھول سوکھ کر ہوا میں اڑ جائیں گے پھر جو بارش ہوگی اس سے یہ الفاظ ایک امر کہانی سنائیں گے۔ ایک ایسی کہانی جس کے ساتھ پوری زندگی بتائی جا سکتی ہے۔
***
وہ کالج کے سامنے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ہاتھ میں پھول لیے وہ بھاگتی چلی آئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی بولی کہیں دور لے چلو۔
راستہ ویران اور وہ دونوں اکیلے، شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں کے اس پار، روپہلی ندیاں، پہاڑ، وادیاں اور چمن۔ جام بکف پھول ان کا استقبال کر رہے تھے۔ پھر وہ گاڑی ادھر ہی چھوڑ کر پہاڑی کی بلندی کی طرف چل پڑے۔ بادلوں پر سوار، اونچائی کو نیچے دھکیلتے تاکہ محبت کے ٹھنڈے جھونکے محسوس کر سکیں۔ ڈیزی فلاورز کو سونگھتی ایک تتلی آ کر لڑکی پر منڈلانے لگی۔ اس نے پکڑنا چاہا تو وہ اس کی کلائی کے ساتھ لپٹ گئی۔
اس نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوم لیا۔
وہ نظریں جھکائے اس کے اور قریب آ گئی۔
اس نے اسے باہوں کے گھیرے میں سمیٹ لیا۔
جھکی جھکی نگاہوں میں خلوت کی امنگ اور سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ ملتی ہے۔ وہ بدن کی گنگناتی لے کو محسوس کرتا ہے۔ اس میں اپنے سانسوں کا زیرو بم شامل کر دیتا ہے۔ دھیمے سر راگنی بن کر سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔
"تم تو جنونی پاگل ہو"۔
خوبصورت نشیلا مدھ بھرا بدن اس کے ساتھ جڑا تھا۔
"جنون ہی ہمیں یہاں تک لایا ہے"۔
اس کی آنکھیں مخمور تھیں۔ وہ بے خودی کے عالم میں بول رہا تھا۔
"تمہیں بانہوں میں سمیٹ کر ہی میرے نامکمل وجود کو تکمیل کی منزل ملی ہے"۔
اسے خود سے جدا کرکے ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ لڑکی نے مخملیں دوب پر زانو ٹکا کر اس کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا۔
"مجھے بلاوا آیا ہے۔ کل چلا جاؤں گا"۔
"میرا اندازہ تھا کہ وہ تمہیں بلا لیں گے"۔
"میرا انتظار کرنا۔ میں لوٹ آؤں گا۔ پہلی برف باری کے ساتھ ہی میدان بھی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور دھواں اگلتی"۔
وہ پلکیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی، بھاری اور لمبی پلکیں، امید کے کرنوں کی طرح تیز و نوکیلی۔
وعدہ ہونٹوں پر تھر تھرا رہا تھا۔
وعدے سے بھاری ہونٹ خواہش و امید کے رنگ میں رنگے چیری بلاسم ہونٹوں میں ضم ہو گئے۔
جسموں کی حرارت سے برف پگھلنے لگی۔
پھولدار پودوں کی بسمل کونپلیں برف کی پتلی تہوں کو یوں توڑ رہی ہیں جیسے دنیا میں آنے کو بے تاب چوزہ انڈے کے خول کو اپنی چونچ سے توڑتا ہے۔
ان کے اندر سے بھی نئی زندگی ابھرنے کو بیتاب تھی۔
***
شام ڈھلنے لگی تو تیز ہوا چل پڑی جو پتھر کی سل پر پڑے پتے اور چیری کے سوکھے پھول اڑا کر لے گئی۔
پتھر کی دونوں سرمئی سلیں ننگی ہوئیں تو کہانی پوری ہوگئی۔
کیپٹن ظہیر شہید
چترال
11 نومبر 1987-17 مئی 2011
***
مس نائلہ تنویر
04 فروری 1989-21 اپریل 2024