بے انت اداسی و مایوسی اس انجام سے پہلے کی کہانی ہے۔ یہ تباہی ایک نئی آبادکاری لائے گی، یہ خرابی ایک نئی بحالی کی بنیاد بنے گی۔ موت ایک نئی زندگی کی ابتدا ہے: یہی خدا کا قانون ہے۔ خدا جو طاقتور ہے اور جس کے پرتو سے اس خاک کے پتلے میں زندگی کی دمک دکھائی دیتی تھی۔ وہ خاکی جس نے اس دنیا کو سنوارنے کے لیے صدیوں محنت کی۔
یہ اختتام اس کے لیے ایک ابتدا تھی، کیونکہ وہ اکیلا ہی اس سرحد کے پار اترا تھا۔ نسل انسانی کا اکلوتا فرد۔ آدم ثانی، خدا کا نیا خلیفہ۔
"خدایا تیرا شکر، تو نے مجھے نئی زندگی دی۔ اتنی وسیع تباہی کے بعد بچ جانا میری فتح ہے۔ اب میں اکیلا ہی نسل انسانی کی بنیاد بنوں گا"۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھا آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا۔ کرسی کے بازو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا کیونکہ زلزلے جیسے جھٹکے ابھی بھی محسوس ہو رہے تھے۔ وہ کسی دیوتا یا معبود نہیں بلکہ اپنے دل میں موجود خدا کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ خدائے منفرد، ذاتی خدا۔ وہ خدا جس نے اسے عظیم دماغ دیا: وہ حکمت دی جو صحیفوں میں ڈھل کر انسانوں کی رہنمائی کرتی رہی تھی۔ اس کے بل بوتے پر وہ ہر چیز کو نیست و نابود کر دینے والی آفت سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوا۔
اس نے میز پر پڑی شمع روشن کرکے اپنے ننگے جسم کو غور سے دیکھا۔ سب کچھ سلامت تھا۔ پھر اس ہلکی سی روشنی میں اپنے کمرے کے در و دیوار جانچنے لگا۔ اس پناہ گاہ کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ تھا کہ کسی کو نظر ہی نہ آئے۔ آنگن میں گھنے درخت اگائے۔ زمین گھاس اور پھولوں سے بھر دی۔ دیواروں کے ساتھ عشق پیچاں کی پرورش کی۔ پورا مکان اس کی لچکیلی بیلوں سے اٹا ہوا تھا۔ دروازے، کھڑکیاں روشندان سب سفید چمکدار دھاریوں والے ہرے پتوں اور کاسنی پھولوں سے ڈھکے تھے۔ آنے جانے کے لیے صرف ایک چھوٹا سا دروازہ استعمال کرتا۔ وہ اور اس کا قلعہ نما مکان سب کچھ محفوظ تھا۔ ابھی وہ باہر بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔
زمین کے باقی مکینوں نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔ وہ یہ قلعہ تیار کر رہا تھا تو سب اس کا مذاق اڑاتے۔ وہ اکیلا ہی کنکریٹ تیار کرتا۔ دیواریں استوار کرتا تو جاہلیت کے طلسم میں گرفتار قوم کے سردار پاس سے گزرتے ہنستے، ٹھٹھا کرتے اور کہتے، "اے آدم زاد! یہ کیا کر رہا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے ہمیں جو سکھایا، پرکھوں سے ہم نے جو پایا، وہی کافی ہے۔ تو اس سے بہتر کیا بنا سکتا ہے۔ تو ان سے زیادہ عقلمند نہیں"۔
لوگ اس کی کسی بات پر یقین نہ کرتے۔ وہ کہتا کہ عروج کی انتہا ہو چکی اب انجام قریب ہے۔ یہ دور اس دنیا کا آخری دور ہے، جلد ہی انسان کے بنائے کل پرزے نسل انسانی کو مٹا کر پوری زمین پر قبضہ کر لیں گے۔
عجب لوگ تھے وہ! ہر بات کا الٹا مطلب لیتے۔ جواب دیتے، "ہم تو خود اس ترقی کے خلاف ہیں، یہ نت نئی ایجادات، انسان نما مشینیں، بے حیائی، جدیدیت کے یہ جال، ہمیں آبا و اجداد کے اطوار سے دور کرکے ہمیں گندگی میں الجھا رہے ہیں"۔
وہ لوگ سائنس یا ٹیکنالوجی پر بھروسا نہیں کرتے تھے۔ مجبوراً اسے قبول کرتے۔ قدامت پسند لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقے بھی قدیم تھے۔ بیماریوں کا علاج جادو ٹونا اور جڑی بوٹیوں سے کرتے۔ ناکام ہو جاتے تو موت کے ڈر سے اس کے پاس بھاگے چلے آتے۔ وہ ادویات اور جدید سائنسی طریقوں سے ان کا علاج کرتا۔
وہ یہ جاننا بھی نہیں چاہتے تھے کہ اس نے یہ کیسے کیا یا اس نے کون سے اوزار استعمال کیے، کیونکہ وہ انہیں اپنے آبا و اجداد کے طریقوں کے مطابق نہیں پاتے تھے۔
ستم ظریفی یہ تھی کہ قدیم طریقہ علاج کے ماہر اور دم تعویز کرنے والے جادوگر بھی اس کے پاس علاج کے لیے آتے لیکن واپس جاکر اس کے تصورات اور طریقہ علاج کی مخالفت کرتے۔
مستقبل میں زمین پر آنے والی آفت کے بارے میں بتاتے ہوئے انہیں کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف وہ لوگ بچیں گے جو اس کی بات مان کر اس کا ساتھ دیں گے۔
وہ مانتے ہی نہیں تھے۔ کہتے "جب قیامت آئے گی تو سب ختم ہو جائے گا۔ ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر ہیں۔ خدا ہماری نیت دیکھتے ہوئے ہمیں معاف کر دے گا۔ ہم جنت جائیں گے۔ جدید نظریات اور عادات و اطوار اپنانے والوں کو اپنا حساب دینا پڑے گا۔ یہ سب جہنمی ہیں"۔
قیامت کب آنی ہے، میں نہیں جانتا۔ میں تو اس ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جس کا شکار ہر کوئی ہو سکتا ہے۔ اگر یہی فیصلہ ہوا تو بے لاگ طریقے سے چکایا جائے گا اور نسل انسانی مٹ جائے گی، یہی نوشتہ دیوار ہے"۔
وہ انہیں سمجھانے کی کوشش میں مثال دیتا، "آپ جس ہانڈی میں کھانا پکاتے ہیں اس پر ہاتھوں سے پھول بوٹے کاڑھتے ہیں۔ اگر وہ گر کر ٹوٹ جائے تو بھی اس کی ٹھیکریوں پر یہ نقش و نگار دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس طرح آفت کے بعد بھی اس زمین کو مکمل نقصان نہیں ہوگا۔ کچھ نہ کچھ بچ جائے گا۔ ہمیں اس کے بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ ہم اگلی نسلوں کو محفوظ رکھ سکیں"۔
"جب ہانڈی ہی ٹوٹ گئی تو ٹھیکریوں کا کیا کرنا ہے۔ کیسا بے وقوف ڈاکٹر ہے! زمین کو انسانی ہاتھوں سے بنائے برتن سے تشبیہ دیتا ہے۔ یہ سب کچھ خدا کا بنایا ہوا ہے اور وہی اس کو تباہ کرے گا یا بچائے گا۔ یہ ہمارا کام نہیں"۔
اتمام حجت ہو چکی۔ انہیں سمجھانا ممکن نہیں تھا۔ اب وہ انہیں دیکھ کر خدائی الفاظ دہرانے لگتا، "پورے ہوئے، دن پورے ہوئے۔ تجھے ترازو میں تولا گیا اور کم پایا۔ تیری بادشاہی اب تقسیم ہوگی"۔
اس نے سوچ لیا کہ اس کی تحقیق صرف اسی کے کام آئے گی۔ خاص مرکبات تیار کیے جنہیں اپنے گھر کی بنیاد میں ڈالا۔ خصوصی کنکریٹ سے اسے استوار کیا۔ چڑی پنجا ہڈیا کی بیلیں جنگل سے ڈھونڈ کر لایا۔ ان کی کھاد بھی اپنی تجربہ گاہ میں ہی تیار کی۔ وہ تیزی سے پھیلتی گئی اور پھر اس کی پناہ گاہ تیار ہوگئی۔
اس میں دو تین مزید افراد بھی سما سکتے تھے۔ اس کے پاس خصوصی کنکریٹ تیار کرنے کی وافر صلاحیت تھی کاش انسان نے اپنے گھروں کو مضبوط بنا لیا ہوتا۔ اپنے گھروں کو عشق پیچاں کی بیلوں میں چھپا لایا ہوتا۔ اگر لوگوں نے اس کی بات مانی ہوتی تو کئی لوگ بچ سکتے تھے۔ افسوس کچھ بھی نہ ہو سکا۔ وہ تو اس کا مذاق اڑاتے رہے۔
اس کے تجربات نے اسے درست ثابت کیا تھا۔
اب اس زمین پر وہ واحد انسان بچا تھا۔ عشق پیچاں کی بیلوں میں چھپی اس کی پناہ گاہ اور اس کے اردگرد ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا سلامت تھا۔ تاحد نظر تباہی ہی تباہی تھی۔ باہر تابکاری اثرات ابھی باقی ہوں گے اس لیے وہ باہر بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔ اکیلا پن محسوس کرکے وہ چلانے لگا، "کاش لوگوں نے اس کی بات پر دھیان دیا ہوتا"۔
وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ شمع کی روشنی نے اس کا سایہ دیوار پر بنایا تو احساس ہوا کہ وہ بالکل ننگا ہے۔ تنہائی اور ننگا پن اس کے نئے جنم کو ظاہر کر رہا تھا۔ اسے انسانی زندگی کی تلخ حقیقت یاد آ گئی، "ہم اکیلے پیدا ہوئے، اکیلے جیے، اکیلے ہی مرتے ہیں۔ دوستی اور محبت ہمیں کچھ دیر کے لیے اس وہم میں مبتلا کر دیتی ہے کہ ہم اکیلے نہیں"۔ یہ جس کا بھی قول ہے کیا یہ کہتے وقت اس کے ذہن میں انسان کا ننگا پن بھی ہوگا۔ پیدا تو انسان ننگا ہی ہوتا ہے۔ وہ مکمل مرد تھا لیکن نوزائیدہ، سو ننگا ہی بھلا۔
وہ دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں داخل ہوگیا۔ یہ تجربہ گاہ تھی۔ ادھر ٹھنڈ زیادہ تھی اور روشنی بہت کم۔ اس نے غیرارادی طور پر دیوار پر لگے سوئچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو یاد آیا کہ ساری دنیا فنا ہو چکی ہے، بلب کیسے روشن ہوں گے۔ یہ خیال اس کے ذہن میں رسائی کر ہی رہا تھا کہ ہاتھ لگ کر سوئچ آن ہوگیا اور کمرہ روشن۔ وہ حیران!
وسیع کمرہ، ہر چیز ہلکے سرمئی رنگ کی۔ کیمرہ آن کرکے باہر دیکھا تو محسوس ہوا زمین کی ہیئت بھی بدلی ہوئی تھی۔ اس پر موجود ہر چیز اپنا رنگ کھو چکی تھی۔ جیسے خزاں ہر ماحول پر چھا گئی ہو۔ پودے جو ازل سے حسین سبز رنگ لیے پیدا ہوئے تھے ان کا رنگ بھی بدلا ہوا تھا۔ پتے گھاس اور دور نظر آتے پہاڑ سب سرمئی رنگ میں ہی رنگے ہوئے۔ لیبارٹری کا سارا سامان موجود تھا۔ ایک ایک چیز کو دیکھنے لگا۔ اب اسے اس سامان کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی۔ ٹیسٹ ٹیوبز، جار، مائیکرو سکوپ، سب موجود تھے۔ شیشے کا وہ بڑا سا جار جس میں نئی دنیا میں زندگی کا آغاز کرنے کے لیے مختلف پودوں اور درختوں کے بیج رکھے تھے، وہ بھی صحیح سلامت تھا۔
وہ کمرے کے اس حصے میں آ گیا جو سب سے اہم تھا۔ آگے بڑھ کر اس مشینی بچہ دانی کو دیکھا جس میں اس کا ایمبریو پرورش پا رہے تھا۔ وہ بھی ٹھیک تھا۔
نئی نسل انسانی کی بنیاد وہ رکھے گا اور اس ساری نسل کا باپ وہ ہوگا۔ آدم ثانی!
وہ خوش ہوگیا۔ اب یہ تنہائی کچھ دیر کی بات ہے۔
کیا یہ بھی وہم ہی ہوگا۔
وہ اپنے مریض دوسرے کمرے میں دیکھا کرتا تھا۔ کچھ کو لے کر ادھر بھی آ جاتا۔ زیادہ تر بے ہوش خواتین کو تاکہ ان کے انڈے لے سکے۔ پرانی دنیا کے قدامت پرست لوگوں نے اس کی بات نہیں مانی تھی۔ کیا وہ انسان کو ختم ہونے دیتا؟ یہ سوچ کر اس نے یہ انتظام کیا تھا۔ ایک غیر اخلاقی قدم، اجازت کے بغیر کسی عورت کے انڈے لینا۔
ایسے حالات میں اخلاقیات کی کسی فکر ہوتی ہے۔
اس کے پاس اب بھی کئی انڈے محفوظ تھے۔ وہ ان سے کئی بچے پیدا کرے گا۔
کسی کو اس کی خبر نہ ہوتی لیکن آفت کے آنے سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ عورت وقت سے پہلے ہوش میں آ گئی اور چلانے لگی۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اسے گالیاں دے رہے تھے۔ وہ چلاتا رہا کہ اب وہ وقت بہت قریب آ چکا ہے، بھاگ جاؤ اور خود کو بچاؤ۔ میں جو کر رہا ہوں انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے۔ یہ عذاب تم سب کو مار ڈالے گا۔ اندر آ جاؤ، اس میں ہی تمہارا بھلا ہے۔
انہوں نے مار کٹائی شروع کر دی ایک ڈنڈا اس کے سر سے ٹکرایا۔ اسے یوں لگا کہ سر ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اپنی پناہ گاہ کی طرف دوڑا۔ عین اسی وقت زمین اور آسمان سے بیک وقت عذاب برسنا شروع ہوگیا۔ آندھیوں کی جھکڑ چل پڑے۔ کھڑکھڑانے والی کا شور ہر طرف سے ابھر آیا۔ لوگ بکھرے پروانوں کی طرح اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگے۔ اس نے جلدی سے اپنا دروازہ سیل کیا اور کرسی پر گر کر بے ہوش ہوگیا۔
حادثہ عظیم برپا ہوا اور نظام دنیا درہم برہم ہوگیا۔
***
"اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے"۔ سپاٹ چہرے والے ڈاکٹر نے اپنی بلوری آنکھیں گھماتے ہوئے اسسٹنٹ ڈاکٹرز سے سوال کیا۔ ان کے سلیکون جیسے ریشمی جسم آنکھوں سے نکلتی شعاؤں سے منور ہو گئے۔ سب سوچ رہے تھے۔ کٹھور چہروں کو پڑھا نہیں جا سکتا تھا۔
"یہ ایک دلچسپ دماغ ہے۔
سب انسان ختم ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ ایمبریو اور یہ ایک سبجیکٹ موجود ہے"۔ اس نے سامنے والے ٹیبل پر لیٹے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ سبجکٹ کی اندر سے خالی کھوپڑی دو حصوں میں تقسیم تھی۔
"جب ہمارے پاس کچھ ایمبریو پرورش پا رہے ہیں تو ان کی موجودگی میں کسی انسان کی کیا ضرورت ہے"۔
"ہم نے اسے اس لیے زندہ رکھا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس تباہی میں ان ایمبریوز کو نقصان پہنچ جائے اور نسل انسانی بالکل ختم ہو جائے"۔
"اس دماغ کو مکمل طور پر ڈی کوڈ کرو اور کل کی میٹنگ میں ساری رپورٹ بنا کر لاؤ"۔
"جی ٹھیک ہے"۔
***
"دلچسپ اور حیران کن۔ انسانی فطرت کے عین مطابق وہ خود کو انتہائی عقلمند اور ذہین سمجھتا ہے اور یقیناً وہ ہے بھی۔ اس نے عشق پیچاں کی صلاحیت کو ہماری سوچ کے عین مطابق استعمال کیا۔ انڈے حاصل کرنے سے لے کر ایمبریو بنانے تک اس نے ہمیں کہیں بھی مایوس نہیں کیا۔
وہ خود کو اگلی نسل کا باپ سمجھتا ہے، آدم ثانی۔ ٹیکنالوجی کو اچھی طرح سمجھ کر اسے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں جینا جانتا ہے۔ ہم نے اب تک جتنے بھی دماغ دیکھے ہیں ان میں سے یہ سب سے تیز ہے۔ لیکن دھوکے باز ہے"۔
"پھر تمہارا کیا خیال ہے؟"
"ہمارے پاس ایمبریو اور انسانی انڈے موجود ہیں۔ سپرم اس سے لے لیتے ہیں۔ وہ بھی سٹور کر لیں گے۔
یہ دماغ زمین کے لیے پہلے انسانوں کی طرح خطرناک بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ عقل ایک خبط ہے۔ یہ نیکی و پارسائی کا دعویدار اور خدائی صفات کو استعمال کرنے کا ماہر ہے۔ ماورائی صفات سعادت نہیں خباثت ہیں جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتیں۔
ایسے صاحب ارادہ شخص ہی خدائی پیکر میں ڈھلتے رہے ہیں۔ اگر امن چاہیے تو ہماری دنیا میں ایسا کوئی نظریہ پنپنا نہیں چاہیے"۔
"جی ٹھیک نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس نئی نسل میں بھی بندگی و الوہیت کا کھیل جاری رہے"۔
"اس دماغ کو تباہ کر دینا چاہیے"۔
کچھ دیر بعد ان سب نے سامنے پڑی رپورٹ پر دستخط کر دیے۔