گڈ مارننگ!
اس نئی کلاس میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرے پڑھانے کا طریقہ روایتی ہے اور نہ ہی آپ سکول کے بچے کہ آپ کو قلم پکڑنا سکھایا جائے یا رٹے لگوائے جائیں۔ یونیورسٹی کی تعلیم سکول سے مختلف ہوتی ہے۔ ماشا اللہ آپ جوان اور سمجھدار ہیں۔ آج ہم صرف ایک دوسرے کا تعارف حاصل کریں گے۔ کچھ فلسفے کے مضمون پر بات ہوگی اور کل آپ کا پہلا امتحان لیا جائے گا۔ امتحان میں بیٹھنے کی شرائط یہ ہوں گی۔ تمام طالب علم صرف کاغذ اور پنسل لے کر آئیں گے۔ امتحان کا دورانیہ نوے منٹ ہوگا اور صرف ایک سوال پوچھا جائے گا۔ جو طالب علم کسی بھی وجہ سے کل کا امتحان نہیں دے گا وہ دو سال کی بہترین کارکردگی کے باوجود زیادہ سے زیادہ سی گریڈ کا حق دار ہوگا۔ تعارف کے بعد پروفیسر صاحب نے کلاس برخواست کر دی۔
ہر طالب علم کچھ نہ کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ پروفیسر صاحب مسکراتے ہوئے سب کو سن رہے تھے۔ خاموشی ہوئی تو سب سوالات کو تشنہ چھوڑ کر باہر چلے گئے۔
***
امتحان کے آغاز پر ہی پروفیسر صاحب نے حکم دیا۔
"جس کے پاس کوئی بھی مددگار میٹیریل ہے وہ کلاس سے باہر چلا جائے"۔
سب خاموش بیٹھے رہے۔ پروفیسر صاحب ہر طالب علم کے پاس گئے۔ ایک کے ہاتھ پر رسٹ واچ تھی۔ دو کے پاس سگریٹ اور کچھ کے پاس ہائی لائٹر اور لائنیں لگانے کے لیے سٹین لیس سٹیل کے سکیل۔ سب کو باہر کا راستہ دیکھا دیا گیا۔
ہم حیران پریشان چُپ بیٹھے رہے۔ یہ فلسفے کی کلاس تھی یا کوئی سسپنس بھری فلم!
پروفیسر صاحب سٹیج پر واپس چلے گئے۔ اپنی کرسی اٹھائی اور سامنے لا کر رکھ دی۔ اس کے گرد دو چکر لگائے۔ کسی جادوگر کی طرح دونوں ہاتھ اس کے گرد گھماتے رہے۔ ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ ابھی کوئی کبوتر اس میں سے پھڑپھڑاتا ہوا نکل کر کسی طالب علم کے سر پر بیٹھ جائے گا یا پھر کرسی ہماری نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔
وائٹ بورڈ کی طرف مڑے اور اس پر سوال لکھا۔
"اس کے وجود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟"
"کوئی طالب علم جوابی کاپی پر اپنا نام، رولنمبر یا کسی قسم کی کوئی شناخت نہیں لکھے گا۔ اوور رائٹنگ اور کاٹ چھانٹ والا پیپر کینسل کر دیا جائے گا۔ آپ کے پاس نوے منٹ ہیں۔ ایک دوسرے سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ جوابی مضمون کی کاپی کسی بھی ٹیبل پر رکھ کر آپ چلے جائیں، میں اٹھا لوں گا"۔
پروفیسر صاحب نظریں جھکائے کمرے سے باہر چلے گئے۔
***
ساری کلاس ہونق ہو کر ایک دوسرے کو گھور رہی تھی۔ کوئی کسی سے کیا پوچھتا؟ میں قلم ہاتھ میں پکڑے جانے کب تک سوچتا رہا۔ سگریٹ کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ فیض صاحب اور صوفی تبسم یاد آ گئے۔ کاش پطرس بخاری ادھر ہوتے اور کہتے، "پینے دو" اور میں دھوئیں دار کش لگاتا ہوا لکھتا چلا جاتا۔
وقت پورا ہونے والا تھا اور سارا پیپر بلینک۔
میں نے صرف ایک جملہ لکھا، "وجود؟ سب وہم ہے"۔
اور پیپر وہیں چھوڑ کر چلا آیا۔
***
سال ہا سال گزر گئے ہیں۔ شاید اب بھی پروفیسر صاحب کو میرا جواب یاد ہو۔ کبھی ان کے سامنے چلا جاؤں تو شاید پہچان بھی لیں۔ ممکن ہے کہ وہ خود ہی موجود نہ رہے ہوں۔ اگلے دن صرف میرا پیپر لہرا کر کہا تھا، "اس طالب علم کو اے گریڈ دے رہا ہوں۔ کون ہے یہ؟"
***
دو سال میں بہت کچھ سیکھا۔ یونیورسٹی سے نکل کر عملی زندگی اور دنیا داری۔ کامیابیاں ناکامیوں پر حاوی رہیں۔ دولت ہی دولت اکٹھی کی۔ اس دن سے ایک عادت پکی ہوگئی: ہمیشہ ایک قلم اپنی جیب میں رکھا۔ دوات اور قلم کا رواج ختم ہوا تو اس کی جگہ کوپک مارکرنے لے لی۔
دنیا میں گھومتے ہوئے جہاں بھی کوئی اہم چیز دیکھتا وہیں بیٹھ کر سوچنا شروع کر دیتا اور مارکر نکال کر ایک دو جملے لکھ دیتا۔ پتھروں اور دیواروں پر لکھنا شروع کر دیا۔ داخلی کیف تکنیکی ہَیئَت اور صورت پکڑ لیتا تو کوئی چھوٹا سا کارٹون بنا دیتا یا کبھی تصویر لکیر دیتا۔
ہوٹل میں بیٹھا چائے آنے کا انتظار کرتے ہوئے میز پر سامنے بیٹھی لڑکی کا سکیچ بنا دیا۔ ویٹر نے مینو کی کاپی پکڑائی تو اس کے کارنر پر سامنے پڑے گلدستے کی کی تصویر بنا دی۔ ریلوے سٹیشن کے بنچ پر کارٹون بنا کر جملہ لکھ دیا۔ کوئی بلی اچھی لگی، اس کی تصویر بنا دی، کوئی کتا بھلا لگا تو اس کو بھی کاغذ پر منتقل کر دیا۔
ہر تصویر کے نیچے ہمیشہ اپنا نام لکھتا۔
سوشل میڈیا پر بھی ان سب کو ڈال دیتا۔ بہت سے کمنٹس آتے۔ سب کو فالو کرتا۔ حوصلہ بڑھتا گیا۔ لائبریری میں جاکر کسی کتاب کو پڑھتا تو اس پر ایک دو سطر کا تبصرہ ضرور لکھتا۔ کوشش کرتا کہ اپنے خیال کو کسی تصویر میں ڈھال کر اسی کتاب کے اندر رکھ دوں۔ ایک ایسی تصویر جو ساز دل کو چھیڑ کر نغمہ سرا کر دے۔ عجائب گھروں میں تو نئے سے نئے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا۔ وہاں بہت سی مورتیں ایسی دکھائی دیتیں جو رباب دل پر ضرب لگا کر تخیل کو آگ لگا دیتیں۔ لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بدھا کے سامنے بیٹھ کر اس کی تصویر بنائی، نیچے لکھا۔۔
شعور کیا ہے؟ اک التزامِ وجود ہے اور وجود کا التزام دکھ ہے۔
اہرام مصر کے سامنے بیٹھ کر ان کی تصویر بنائی، نیچے لکھا، "کیا عجب دعویٰ ہے! ساٹھ برس میں بنی عمارت کو کھودنا چاہو تو چھ سو سال بھی کم ہوں گے"۔
اسی وقت ریت کا ایک طوفان اٹھا اور سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
پوری دنیا گھوما۔ ہر جگہ، ہر شے حواس و حسیات و اعصاب میں کوئی نہ کوئی ردعمل ابھار دیتی جو کاغذ قلم کے سہارے عیاں ہو جاتا۔ اسے ادھر ہی چھوڑ آتا کہ دیکھ کر کوئی نہ کوئی مجھ سے رابطہ کرے گا۔ سوشل میڈیا پر میری بنائی ہوئی تصویر لگا کر میرے بارے میں پوچھے گا کہ اتنا اچھا فنکار دنیا کی کس نکڑ پر بستا ہے؟ میں چاہتا تھا دنیا مجھے جانے۔ اس دنیا میں میری بھی پہچان ہو۔
یہ ارمان، حسرت و آرزو عالم خیال کا وہ خواب ہے جو نہ جانے کب مراد کو پہنچے؟
میں واپس اپنے ملک چلا آیا۔ اپنے گھر بوڑھے والدین کے پاس۔ چودہ گھنٹے لمبی فلائٹ تھی۔ جہاز میں بیٹھا ان کے بارے میں سوچتا رہا۔ اپنی زنبیل سے سفید کارڈ پیپر اور کو پک مارکر نکال کر اپنی ماں کی تصویر بنانا شروع کردی۔ کئی سال بیت گئے تھے، اسے دیکھے۔ تقدس کے پھول بستر پر بیٹھی ماں کیسی ہوگی؟ اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر کتنی خوش ہوگی؟ مجھے بچپن یاد آ رہا تھا جب سانپ نے ڈس لیا اور میرا وجود جگہ جگہ سے گل سڑ گیا۔ ماں مجھے گود میں اٹھا کر شہر تک چلی آتی تھی۔ میرے زخموں سے اس کا بازو، بغل اور پہلو بھی گل گیا۔ میں ٹھیک ہوگیا تو بھی پیدل نہیں چلنے دیتی تھی۔ ایک بار میں نے ضد کی کہ آپ بیمار ہیں اور میرا وزن بھی زیادہ ہوگیا ہے اتنا بوجھ کیسے اٹھائیں گی؟ تو کہنے لگی، "بیٹے کا وجود بوجھ نہیں ہوتا"۔
میں اس کی تصویر لکیر رہا تھا، ایک ایسی تصویر جس میں جوانی اور بڑھاپا، پیار اور جدائی، خوشی اور غم سب شامل ہوں۔ کالے مارکر سے ماں کے سفید بال کیسے بنا سکتا تھا؟ اس کاغذ پر اس کی بھیگی آنکھوں کا نور کیسے بکھیر سکتا تھا؟ ہاں! اس کے ماتھے پر، آنکھوں کے کناروں پر، رخساروں پر، ہونٹوں پر پڑنے والے باریک خطوط سے اس کی مسکراہٹ دیکھا سکتا تھا۔ اپنی ماں کا چہرہ، اس پر بکھرتی خوشی، اس کی آنکھوں کی چمک، اس کا پیار سب خود دیکھ سکتا تھا، بنا سکتا تھا کیونکہ یہ سب کچھ میرے ہونے سے تھا اور مجھے دیکھ کر اور بھی فروزاں ہو جاتا تھا۔
والد صاحب ائرپورٹ پر موجود تھے میرے ہاتھ کا کارڈ پکڑ کر دیکھا، "بالکل ایسی ہی ہے۔
مجھے بہت افسوس ہے کہ وہ دکھائی تو بالکل ایسی ہی دیتی ہے، لیکن"۔
"کیا وہ خوش ہیں؟"
"ہاں! تم خود جا کر دیکھ لینا۔ ان کی حالت کچھ اچھی نہیں"۔
یہ کہہ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
گھر آتے ہی میں تیزی سے چلتا ہوا ان کے کمرے میں پہنچ گیا۔
ماں کارٹون مووی دیکھ رہی تھی۔ میں نے تصویر سامنے کردی۔ ابو میرے ساتھ چپ چاپ کھڑے تھے۔ ماں نے ایک اچٹتی نگاہ سے مجھے دیکھا پھر اپنی تصویر پہچاننے لگی۔
"یہ تو بالکل میں ہی ہوں۔
یہ تصویر تم نے بنائی ہے؟"
"جی! "
"تو تم ایک مصور ہو؟ پھر میرے بیٹے کو بھی جانتے ہو گے۔ وہ بھی ایک مصور ہے۔ ساری دنیا اسے جانتی ہے۔ کیا تم نے اس کا بنایا ہوا کوئی شاہکار دیکھا ہے؟"
ماں پھر تصویر کو گھورنے لگی۔
"بہت اچھی بنائی ہے۔ جب وہ آئے تو تم ادھر آ کر اسے ملنا۔ یہ تصویر دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔ وہ مزاحیہ طبیعت کا مالک ہے، ہمیشہ مذاق کرتا رہتا ہے"۔
"میں آپ کے بیٹے کو جانتا ہوں وہ واقعی ہی ایک اچھا آرٹسٹ ہے"۔
"ہاں! وہ میری تصویر بنائے تو اس سے بہتر بنائے گا"۔
میں کمرے سے باہر آ گیا۔
رات بیڈ پر لیٹے سوچ رہا تھا۔
"میری ماں مجھے بھول گئی۔ وہ ماں جس نے مجھے جنم دیا، عدم کو وجود میں لائی، نیست کو ہیست بنایا، پالا پوسا، جس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے، جس کے دودھ نے میری ہڈیوں کو مضبوط کیا، وہ مجھے نہیں جانتی تو کیا میں اس دنیا میں موجود بھی ہوں یا نہیں؟
کیا عدم وجود بنا بھی تھا یا سب وہم ہے؟