1. ہوم
  2. افسانہ
  3. سید محمد زاہد
  4. شیر خوار

شیر خوار

وہ سات برس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد میرے تین بچے پیدا ہوئے۔ جب بھی بچہ میری کوکھ میں اپنی ٹانگیں پسارنے کی کوشش کرتا تو اس کی محبت کی قندیل اور روشن ہو جاتی۔ بہت پیارا بچہ تھا، گھنگریالے بال، گول چہرہ، دودھ ملائی سا رنگ، موتی جیسے دانت اور پھر جب وہ مسکراتا تو گالوں میں ایسا گڑھا پڑتا کہ دو بوند پانی آ کر ٹھہر جائے۔ ہم تو اسے باقی بچوں سے زیادہ چاہتے تھے۔ اس سے کبھی ذکر بھی نہیں کیا لیکن پتا نہیں کب کسی نے اسے بتا دیا کہ وہ ہمارا لے پالک ہے۔ اس دن سے وہ بجھا بجھا سا رہتا تھا۔

میں نے بیٹی کا دودھ نہ چھڑوایا اور بیٹا پیدا ہوگیا۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے میں نے اس بچے کی پیدائش پر ٹیوبل لائگیشن کروا لی۔ مجھے اپنے بچوں سے بہت محبت ہے۔ میں ان کو اپنے سینے سے دور نہیں کرنا چاہتی۔ دودھ پلاتے وقت جب چھاتیوں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے ساری محبت بچوں کے پیٹ میں منتقل ہوگئی ہے۔ خدا کی رحمت ہے کہ کچھ دیر بعد یہ متلاطم محبت پھر سینہ بھاری کر دیتی ہے۔ دودھ پوت خدا کی مَہر ہوتی ہے۔ افزونی شیر بچوں کے ساتھ ماں کے لیے بھی ایک نعمت ہے۔ اب اور بچہ تو جننا نہیں، قدرت نے نسل انسانی کی بقا کا جو فرض مجھ ہر عائد کیا وہ میں نے بدرجہ احسن نبھا دیا۔ اب نہ حمل ہوگا، نہ دودھ کی دھاریں بہیں گی، نہ شیر خوارگی ہوگی۔ جب بھی یہ ایام سعید یاد آئیں گے تو میں مکمل عورت ہوتے ہوئے ادھورا پن محسوس کروں گی۔ ممتا کا یہ دریا اب کے خشک ہوا تو پھر کبھی رواں نہیں ہوگا۔ میں اس سے زیادہ عرصہ تک لطف اندوز ہونے کے لیے بچوں کا دودھ نہیں چھڑوانا چاہتی۔ بچی کو سینے سے لگایا ہوتا تو بچہ دوڑتا ہوا آتا اور قمیض اوپر اٹھا کر شروع ہو جاتا۔ دونوں کو دودھ پیتا دیکھ کر وہ بھی بھاگا چلا آتا اور گود میں بیٹھنے کی ضد کرتا۔ میں اسے اپنی گود میں سمیٹ لیتی۔

بچوں کے سوال بہت خطرناک ہوتے ہیں اور ہر سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ کچھ سوال ماں باپ کو لاجواب کر دیتے ہیں۔ خصوصی طور پر جب بچے اپنا حق مانگتے ہیں، اپنے بہن بھائیوں کو دیکھ کر کوئی فرمائش کرتے ہیں تو انہیں مطمئن کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

"ماما میں آپ کے پیٹ سے کیوں پیدا نہیں ہوا؟"

"بیٹے تم ہمیں مل ہی نہیں رہے تھے۔ ہم در بدر بھٹکے۔ کبھی ایک ڈاکٹر کے پاس اور کبھی دوسرے کے پاس۔ تم اپنا گھر بھول کر کسی دوسرے گھر چلے گئے۔ لیکن ہم نے تمہیں ڈھونڈ لیا۔ اس کے بعد تمہارے بہن بھائی سیدھے ہمارے پاس ہی آئے"۔

"آپ کس سے زیادہ پیار کرتی ہیں؟"

"تم سے۔ جتنا سب بچوں سے کرتی ہوں وہ جمع کرلو تو اس سے کئی ہزار گنا زیادہ"۔

"ایک اور سوال ہے؟"

مجھے دکھ تھا کہ وہ میری کوکھ میں کیوں نہیں ڈھلا۔ اب یہ سوال اس دکھ میں اضافہ کر رہے تھے۔ میں ڈر گئی کہ اب نہ جانے وہ کیا پوچھے؟ ہمت جمع کرکے بولی۔

"جی، میرے بیٹے"۔

"آپ ان دونوں کو گود میں لے کر بیٹھی ہیں اور مجھے آئس کریم کھلانے کیوں نہیں لے جا رہیں؟"

مجھے اس کی معصومیت پر بہت پیار آیا۔ فوراً دونوں کو گود سے اتارا اور اس کی انگلی پکڑ کر سپر سٹور کی طرف چل پڑی۔

اگلے دن پھر وہی بات۔ میں بچے کو گود میں لے کر دودھ پلا رہی تھی تو بھاگتا ہوا آیا اور میرے ساتھ چمٹ گیا۔

"ماما! مجھے بھی اپنے اندر سمیٹ کر دوبارہ پیدا کریں"۔

"بیٹے، یہ ناممکن ہے"۔

وہ اپنا منہ میرے سینے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔

"باقی سب کو دودھ پلایا ہے تو مجھے کیوں نہیں؟"

میرے سینے سے ہوک اٹھی۔ رگ رگ میں سمائی اس کی محبت جھریاں لینے لگی۔ جسم سرد پڑ گیا۔ پیٹ پر ہاتھ پھیرا، سونی کوکھ تڑپ رہی تھی۔ ٹھنڈا ہاتھ سینے تک لے گئی ممتا کا دریا تھمنے والا نہیں تھا۔ حیات پرور دھارا پورے شباب پر تھا۔ قرن ہا قرن کی روایت ہے کہ دودھ ٹھاٹھیں مارتا ہوا ماں بچے کے رشتے کو سینچتا ہے۔ میں نے اسے دوسری طرف ساتھ لگا لیا۔