ہر انسان کے کچھ ایسے سپنے ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر پل آنکھوں میں سجائے رکھتا ہے۔ چاہ کر بھی ان سپنوں کو اپنی آنکھوں سے دور نہیں کر پاتا۔ سوتے میں تو حسین سپنے آتے ہی ہیں اکثر اوقات یہ سپنے دن میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ دورِ زندگی بھی نہ جانے کیسا لا اُوبالی دور ہوتا ہے جب فکر ہوتی ہے تو بس یہ کہ کیسے اچھا اور خوبصورت دکھا جائے۔ اگر خدا نہ خواستہ کوئی خاتون یہ کہہ دے کہ آج تو بڑے اچھے لگ رہے ہو تو پاوں کا زمین پہ ٹکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہم بھی یقینا ایسے دور سے گزرے مگر ہمارے پاوں ابا جی کی کڑی نگرانی کی بدولت زمین سے چپکے رہے اور حسرت رہی کہ کبھی یہ بھی ہوا میں اُڑیں۔ پر کہاں ہم اور کہاں ہماری قسمت۔ اس دور میں بندے کے پلّے کچھ نہیں ہوتا مگر خیالی محل ایسا تعمیر کرتا ہے جیسے دنیا کا واحد رئیس اعظم تو بس یہ ہی ہیں۔ افسوس ہم یہ محل بھی تعمیر کر نہ پائے، محل تو کیا تعمیر کرتے کوئی خیالی کچہ کمرہ بھی نصیب میں نہ آیا۔
جب زندگی کی 27 بہاریں دیکھ چکے، تو ایک دن امّی اور ابو دونوں کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ سنسناتا سوال داغا گیا، تمہیں اپنے ماموں کی بیٹی کیسی لگتی ہے؟ میں ہکّا بکّا، یہ آج امی ابو کو کیا ہو گیا ہے۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ابھی یہ سوچیں دماغ میں چل رہی تھیں اور فیصلہ کرنے کی کوشش ہو رہے تھی کہ امّی، ابو کی جواب طلب نظریں ہمارے چہرے کا طواف کرتے ہوئے بے چین تھیں۔ خدا جانے کیسے ہمارے منہ سے یہ الفاظ برآمد ہوئے، ابو جی اگر یہ جان قربان کردوں اور آپ کی رضا حاصل کر سکوں تو یہ سودا مہنگا نہ ہوگا۔
جواب تو دے بیٹھا، بعد میں خیال آیا، جواب شادی کے متعلق تھا، میں کیا شوخی مار آیا ہوں۔ اس طرح تو ہوتا ہے پھر اس طرح کے کاموں میں۔ قدرت کی کرنی ایسی ہوئی کہ 14 فروری کو ہماری تقریب نکاح رکھی گئی۔ تب ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھیا اس دن دنیا ویلنٹائن ڈے مناتی ہے، اور ہمیں اپنی شادی کی سالگرہ منانی پڑے گی۔ نہ صرف کیک خریدنا پڑے گا بلکہ ساتھ میں گلاب کا پھول بھی دینا پڑے گا، وہ بھی اپنی زوجہ کو۔۔۔۔
14 فروری آئی، ہم رشتہ ازدواج میں بندھ گئے، آج زندگی کے اس اہم موڑ کو گزرے ہوئے سات سال گزر گئے۔ جی سات سال، سات سال کیسے گزر گئے کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس دوران زندگی اپنے نشیب و فراز لئے گزرتی رہی، مگر بہ حیثیت مجموعی ہم نے یہ سات سال نہایت شاندار گزارے ہیں۔ اس دوران اللہ کریم نے ہمیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی عطاء کی۔ الحمد للہ۔
اکثر لوگ لوو میرج کرتے ہیں یعنی شادی سے پہلے انڈرسٹینڈنگ، اور باقی کی مخلوق ارینج میرج۔ ارینج میرج والے بس 'ہوکے' ہی بھرتے رہتے ہیں کہ یہ ہوتا، وہ ہوتا، تو کیا ہوتا۔ جبکہ لوو میرج کرنے والے ساری زندگی لڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے کیس میں الٹا ہوا، کہ ہم نے ارینج میرج کی مگر اسکے بعد کا دور لوو میرج والا گزرا۔ اگر آپ کی زوجہ آپ کو سمجھنے والی ہے اور آپ اپنی بیوی کو، تو زندگی یہیں جنت سے کم نہ ہوگی، اور اگر صورتحال مختلف ہے تو پھر آپ بہتر جانتے ہیں۔ پہلی صورت میں آپ اللہ کریم کا شکر ادا کریں اور دوسری صورت میں صبر کریں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اب تو ہماری ایک ہی نعرہ ہے، 14 فروری کو اپنی شادی کی سالگرہ منا کر جیو۔