پاکستان کو بنے 10 سال ہو چکے تھے، یعنی یہ سن 1957 کی بات ہے۔ سیالکوٹ کے مضافات میں ایک گاوں، جسے رتّووال سیداں کے نام سے موسوم کی گیا تھا۔ رتّووال سیداں سادات کا ایک گاوں جس کے ایک محلّے میں سید مشتاق حسین رہتے تھے۔ 14 اپریل کو کچھ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ حالانکہ فجر سے قبل بندے بے سدھ سوئے ہوتے ہیں مگر تفکّر کے آثار نمایاں تھے۔
اس پریشانی کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایک ڈیڑھ سال پیشتر ان کے نومولود بیٹے جانبر نہ ہوسکے تھے، اب کی بار بھی وہی پریشانی لاحق تھی کہ اس بار بھی وہی کچھ نہ ہو، ابھی یہ سوچوں کا سلسلہ جاری تھا کہ خوشخبری ملی کہ اللہ نے بیٹا عطا کیا۔ وہ تفکر آمیز خوشی دیدنی تھی۔ نومولود کو ہاتھوں پہ اٹھایا، ماتھے پہ پیار کیا۔ کچھ وقت گزرا، لیکن خوشی پہ تفکّر غالب آئی، نومولود کو اپنے بھائی کو دے دیا کہ شاید یہ آپ کے پاس بچ جائے۔
ماں، باپ جتنے مرضی حوصلے والے ہوں اولاد کی جدائی برداشت نہیں کر پاتے، خدا کا کرنا ایسا کہ اللہ نے اس بچے کو زندگی عطا کرنی تھی، جب دیکھا کہ بچہ بچ گیا ہے تو واپس لے آئے۔ مشتاق حسین پیشے کے لحاظ سے پٹواری تھے، دولت کی فراوانی تھی، یہ بچہ شہزادوں کی طرح پلنے لگا۔ بچہ پانچ سال کا ہوا، بلا کا حساس بچہ جو چھوٹی چھوٹی چیزوں کو محسوس کرتا۔ مشتاق حسین چونکہ کنبہ پرور تھے، سو بھائیوں کی اولاد کا دسترخوان اکثر یہیں ہوتا۔ بھائیوں کی اولاد کی شادی مشتاق حسین ہی کرتے۔ اکثر کے رشتے بھی یہی طے کرتے جبکہ انکے ماں باپ کو خبر بھی نہ ہوتی۔
وقت ایک جیسا نہیں رہتا، جیسے ہی زندگی کے کچھ سال گزرے، وقت نے پلٹا کھایا اور امارت، غربت میں بدلی۔ جب اس بچے کے کھانے اور کھیلنے کے دن تھے وہ ان سے محروم ہو گیا۔ بچے کو بڑی شدت سے وہ دن یاد آتے جب اس کے کزن اس کے گھر میں اپنا گھر سمجھ کے کھاتے، مگر اب وہی کزن مدتوں یہاں نہ آتے، نہ حال احوال پوچھتے۔ سکول کے ابتدائی ایام تو شاہانہ گزرے، مگر جیسے ہی دن پھرے سکول کے یونیفارم اور فیس بہ مشکل میسر آپاتے۔ چھٹی سے دسویں کے یہ چار سال یوں گزرے جیسے چار صدیاں ہوں۔ اس دوران ماں اور دادی کا ساتھ نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا۔
اس بچے نے گھر کا بوجھ اپنے ننھے کندھوں پہ اٹھانے کا عزم کیا، آٹھویں جماعت کا بچہ کھیل کے میدان کی بجائے دھان کی فصل کے کھیت میں جا پہنچتا، قمیض اتار کر چلچلاتی دھوپ میں دھان کی فصل لگانا دل جگرے کا کام ہے کجا کہ ایک آٹھویں کا طالب علم۔ شام گئے گھر پہنچتا، ماں کمر میں سورج کی تپش اور گرمی کی وجہ سے بنے چھالوں پہ مرہم لگاتی اور روتی۔ بچے کو یہ آنسو ہمیشہ یاد رہے۔ مگر ہمت نہ ہاری۔ اور وہ وقت کیسے بھول سکتا تھا جب اپنی محسنہ، اپنی دادی کو جب کسی نے طعنہ مارا تھا کہ مائی آپ سانپ کے بچے پال رہی ہو، اور دادی کا بے ساختہ جواب کہ سانپ کے بچے ہوں گے تمہارے یہ تو میرے لعل ہیں۔
ابھی میٹرک کا رزلٹ نہ آیا کہ بہتر روزگار کی خاطر اپنے آبائی گھر کو چھوڑ کر پردیس جا بسا۔ دو، دو، تین، تین نوکریاں کر کے گھر بھجواتے کہ احساس محرومی ہی بڑی سخت سزا ہوا کرتی ہے۔ یوں تو وہ اپنے گھر سے 8 گھنٹے کی مسافت جتنا دور تھا مگر اپنا گھر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا۔ ایک مرتبہ پتہ چلا کہ گھر قُرقی ہونے والا ہے، اس نے وعدہ کیا کہ اس دن میں آجاوں گا، لیکن اس دن آندھی اور بارش بہت زور کی ہوئی، محلے دار کہنے لگے کہ آج نہیں آئے گا، لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ برستی بارش میں اپنے وعدے کے مطابق پہنچا۔ ماں نے کہا کہ بیٹا پہلے بہنوں کی شادی کرو پھر اپنی بات کرنا۔ ماں کی خاطر وہ یہ بھی کر گزرا، بہنوں کو ایسا جہیز دیا کہ دنیا کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔
جب اپنی شادی کی بات آئی محسنہ دادی نے اگر کہا کہ اپنے سے بڑی لڑکی سے شادی کر لو تو انکار نہیں کیا کہ دنیا والوں کا طعنہ یاد تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 1981 میں شادی ہو گئی دادی کی تمنّا کے مطابق ایک اور جگہ پہ۔ خدا نے بیٹا عطا کیا۔ گو کہ زندگی کے اور غم بہت تھے مگر اتنے غموں میں یہ خوشی بہت تھی۔ وقت پر لگا کہ گزرتا رہا، اور یہ بچہ پردیسی رہا۔ میٹرک کے بعد ایف اے اور بے اے ایسے پاس کیا جیسے بندہ ناول پڑھتا ہے۔ نوکری بھی اور پڑھائی بھی ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہوتا ہے۔ زندگی کے 45 سال پردیس کی نظر ہو گئے۔ واپسی کے لئے کسی نے نہیں کہا۔ لیکن اس بچے نے ماں، باپ، دادی، بہن، بھائیوں کا حق ادا کر دیا۔
بچوں کی بہتر تعلیم کی خاطر ایک اور ہجرت کر ڈالی ایک اور پردس اختیار کیا۔ اکیلا بندہ، اتنے اخراجات، پورا کرنا اسی بچے کا خاصہ تھا۔ اپنے بڑے بیٹے کو بہترین تعلیم کی خاطر بہترین ادارے میں داخل کروایا، گو اس ادارے کی فیس کہیں ذیادہ تھی مگر ہمت مرداں، مدد خدا۔ اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر دفتر کے ہر افسر سے چپڑاسی تک قرضہ لیا، ذہن میں ایک ہی سوچ کہ میں تو اس طرح تعلیم حاصل نہیں کر سکا لیکن میرے بچے اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کریں۔ لیکن یہ ہمت اس وقت جواب دے گئی جب بیٹے نے بی ایس آنرز مکمل کر لیا۔
پردیس میں ہی اس بچے نے اپنے بچوں کی شادی کی۔ خدا نے 6 بچوں سے نوازا۔ 4 بچوں کی شادیاں ہو چکی اور 2 کی رہتی ہیں۔ یوں 4 نسلوں کی خدمت کرتے وقت گزارا۔ لیکن افسوس کہ بہن بھائیوں نے ویسا ساتھ نہ دیا کہ جس کا یہ بچہ مستحق تھا۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنے پردیسی بھائی کو ایک مرتبہ کہ دیتا کہ بھائی اب تو واپس آجاو۔
قارئین محترم، یہ بچہ کوئی اور نہیں ہمارے والد محترم سید اشفاق حسین بخاری ہیں۔ یہ داستان صرف ایک داستان نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ اللہ کریم نے ہمیں ایسا والد عطا کیا۔ اپنے اللہ کریم سے دعا ہے کہ اے میرے مالکِ ارض و سما، میرے والد محترم کو صحت والی طولانی زندگی عطا فرما۔