اردو میں والد، فارسی میں پدر، ترکی میں بابا، عربی میں الآب، پشتو میں پلار، ہندی میں پتا جی، ہندکو میں پیو اور انگلش میں فادر کہتے ہیں۔ مگر میں نے ہمیشہ اپنے والد محترم کو ابو جی ہی کہا ہے۔ میں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کا ذیادہ حصہ اپنے ابو کے ساتھ گزارا۔ آج جب میں اپنے ابو کو ماضی اور حال کے جھروکے میں دیکھتا ہوں تومجھے انکا روپ وقت کے ساتھ بدلتا محسوس ہوتا ہے۔ اپنے بچپن میں ہم نے انھیں سخت گیر پایا اور وقت کے ساتھ ساتھ انہیں نرمی کی طرف مائل دیکھا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ یہ بدلاو کیونکر ہے؟ کیا یہ بدلاو انسان خود اختیار کرتا ہے یا پھر یہ عطیہ قدرت خداوندی ہے۔
بچپن میں ابو جی جب کبھی ہماری حجامت کروانے اپنے ساتھ لے جاتے تو حجام کو خصوصی ہدایات جاری کرتے کہ اس کے بال بالکل چھوٹے چھوٹے کر دو۔ دل ہی دل میں ہم بہت کسمساتے مگر لب پہ کچھ نہ آسکتا۔ وہ حجام بھی اللہ کا ایسا سخی دل بندہ ہوتا کہ جتنے بال چھوٹے کرنے کی نشاندہی کی جاتی وہ اس سے بھی ذیادہ بال چھوٹے کر دیا کرتا۔ اور بال اس انداز میں چھوٹے کرتا جیسے کوئی غریب آدمی ادھار حجامت کروانے آیا ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابو ہمیں ہٹلر لگتے تھے۔ گھر پہنچ کرہم ساری روداد امی جی کو سنا دیتے اور شکوہ کرتے کہ دیکھیں ابو نے بال اتنے چھوٹے کروا دیئے ہیں کہ اب کنگھی کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اس پر امی ہمیں دلاسے دیا کرتی، کوئی بات نہیں یہ بال پھر بڑے ہو جائیں گے۔
ابھی ہم آٹھویں جماعت میں ہی تھے کہ بال تھوڑے تھوڑے بڑھنے لگے اور ہمیں کچھ کچھ "ہوش" آنے لگی۔ دنیا ایک نئے زاویے سے نظر آنے لگی۔ سکول جاتے ہوئے راستے بھر حوریں محو رقصاں نظر آتی۔ ان کو دیکھتے دیکھتے ہم نے اپنی الگ ہی دنیا تخلیق کر لی۔ لیکن افسوس یہ افسانوی دنیا پانی کے بلبلے کی طرح وقت سے پہلے ہی پھٹ گئی۔ ایک دن ابو جی نے ہمارے تیور دیکھتے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیا اور ایک نصیحت آموز لیکچر دے ڈالا۔ یہ لیکچر نہ صرف لمبا بلکہ کافی لمبا تھا۔ اس تاریخی لیکچر کا ایک جملہ دماغ میں ایسا اڑا کہ ساری زندگی جب بھی یاد آتا حوروں کو دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی۔ آج بھی جب کبھی یہ جملہ یاد آتا ہے تو تاریخی وقت یاد آجاتا ہے۔
ہمارے گھر میں ہر ہفتے ایک عدد لیکچر کا اہتمام ہوا کرتا، جس کے مقرر ہمارے ابو جی ہوتے۔ یہ لیکچرز خصوصی طور پہ ہم بچوں کے لئے ہوتے۔ غلطی کوئی ایک بچہ کرتا مگر لیکچر سب کو سننا پڑتا۔ یہ سلسلہ الحمدللہ اب تک جاری و ساری ہے۔ گو اب ہر ہفتے تو یہ لیکچر نہیں ہوتا مگر حسب ضرورت وقوع پزیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے گھر میں لیکچر ہی آخری حد نہ تھی بلکہ اکثر و پیشتر ہمیں مرغا بننے کا شرف بھی حاصل ہوتا۔ نہ صرف مرغا بننے کا شرف حاصل ہوتا بلکہ ابن صفی کے ناولوں والے زنّاٹے دار طمانچوں کی ژالہ باری کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس کی حّدت اور شدت بڑی دیر تک وقفے وقفے سے محسوس ہوتی رہتی۔ الحمدللہ موخر الذکر دونوں چیزیں متروک ہو چکی ہیں۔ یہ جیو نیوز کی وہ بریکنگ نیوز ہے جس کے بعد ٹھنڈ پڑجاتی ہے۔
یہ پچپن کے ابو کا ایک ایک منظر تھا۔ مگر آج کے ابو بہت بدل گئے ہیں۔ ہماری اصلاح کے لئےبچپن کے ابو کا ہاتھ چلتا تھا مگر آج کے ابو فقط زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ آج ہمیں یہ احساس ہوتا ہی کہ ابو جی ٹھیک تھے اور ہم غلط سوچ کے راہی تھے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بال کٹوانے میں ہمارا ہی فائدہ پنہاں تھا، ہمیں پڑنے والی مار آج ہمیں ہی ثمرات عطاء کر رہی ہے۔ آج جب ہم خود ابو بن گئے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ابو کتنے ٹھیک تھے۔ ابو جی کے سخت رویے سے میرے اور ان کے درمیان ایک جھجھک اور ڈر کا پہلو تو در آیا مگر یہ سب ان کے ادب میں حائل نہ ہو سکا۔ بلکہ کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ ہوا۔ ہم آج بھی امی جی سے بلاتکلف مشورہ کر لیتے ہیں اور بوقت ضرورت اختلاف بھی کرنے کی جسارت کر لیتے ہیں مگر ابو جی کے ساتھ معاملہ سراسر مختلف ہے۔ وہاں اختلاف تو نہیں البتہ مشورہ کرنے کی ہمت کر لیتا ہوں۔
ابو جی اکثر ایک جملہ کہا کرتے ہیں۔ بیٹا، انسان کا بہترین دوست اس کے ماں اور باپ ہیں۔ کیونکہ کسی اور کو تو شاید کوئی مطلب ہو مگر ماں، باپ کا رشتہ بے لوث رشتہ ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اپنی اولاد سے کسی قسم کی کوئی غرض، مطلب نہیں ہوتا۔ آج ہم پر اس جملے کی گہرائی عیاں ہو رہی ہے۔ آج اندازہ ہو رہا ہے کہ ابو نے کتنی گہری بات کہی تھی جو تب تو ہمارے پلّے نہیں پڑی تھی ہاں مگر آج اتنی ساری دوستیاں نبہا کر اندازہ ہو رہا ہے کہ واقعی ابو سچے تھے۔ واقعی انسان کے بہترین دوست اسکے ماں، باپ ہوتے ہیں۔ دوست جو بنائے تھے وہ سب آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑتے چلے گئے سوائے چند مخلص دوستوں کے۔ مگر ماں، باپ آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ اب تو اکثر میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ میرا اللہ، کاش، میرے ماں باپ کو قیامت تک زندگی عطاء کرے اور مجھے قیامت تک انکی خدمت کا موقع عطاء کرے۔ گو کہ حق خدمت تو ادا نہیں ہو سکتا مگر کچھ تو ہو۔ ماں باپ اللہ کی بڑی عظیم نعمت ہیں، بلکہ میں تو کہوں گا کہ ماں باپ اللہ کے بہت بڑے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں جو اللہ کریم نے ہمیں مفت میں عطاء کر دیا ہے۔ شائد اسی لئے ہم میں سے اکثر انکی قدر نہیں کرتے۔
آج میں مقام فخر پہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے آئیڈیل ہیں۔ کاش میں کبھی ان جیسا بن سکتا۔