پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج ہیپاٹائٹس کا عالمی دِن منایا جا رہا ہے۔ ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا دن منانے کا مقصد اس خطرناک مرض کی روک تھام کے لئے اقدامات اور شعور اجاگر کرنا ہے۔ دُنیا بھر میں اِس وقت پینتیس کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں جن میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ دُنیا بھر میں سالانہ دس لاکھ سے زائد افراد اس مرض کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ عالمی ادارہ ِ صحت کی گلوبل ہیپاٹائٹس رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد 25 کروڑ 75 لاکھ سے بھی متجاوز ہو چکی ہے جو دُنیا کی آبادی کا 3.5 فیصد ہے اور ہیپاٹائٹس Cسے متاثرہ مریضوں کی تعداد 07کروڑ 10لاکھ ہے جو کہ دُنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہے۔ جب کہ دُنیا میں اِس وقت 32کروڑ 80لاکھ افراد مختلف طرح کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں ہر سال 17لاکھ 50ہزار ہیپاٹائٹس سی کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ 2015میں ہیپاٹائٹس کی بدولت 13لاکھ 40ہزار اموات واقع ہوئی 2000سے اب تک ہیپاٹائٹس کی وجہ سے اموات میں 22فیصد اضافہ ہو چکا جو بتدریج بڑھ رہا۔ جب کہ ورلڈ گیسٹرا نٹالوجی آرگنائزیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان دُنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں روزانہ 111سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں دونوں بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے اکثریت کو اپنی بیماری سے متعلق علم ہی نہیں، پاکستان ہیپاٹائٹس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ٹی بی، ڈینگی، ملیریا اور ایڈز کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دُنیا میں 7کروڑ 10لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی کے موذی مرض میں مبتلاہیں جن میں سے 10فیصد یا 71لاکھ افراد پاکستان میں پائے جاتے ہیں، پاکستان میں اس قابل علاض مرض کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں سالانہ 40ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں روزانہ 111افراد اس مہلک مرض کے نتیجے میں انتقال کر جاتے ہیں،
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دُنیا بھر میں اموات کی آٹھویں بڑی وجہ ہیپا ٹائٹس وائر س ہے۔ دُنیا بھر میں 25 کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی اور 7 کروڑ سے زائدہیپا ٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ اس شرح کے لحاظ سے 2015ء اور 2030ء کے درمیان دو کروڑ لوگ ہیپا ٹائٹس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ پاکستان میں مصر کے بعد پوری دُنیا میں ہیپا ٹا ئیٹس سی کے مریضوں کی تعدادسب سے زیادہ ہے۔ ہر 12 میں سے 1 فرد ہیپا ٹائٹس سی میں مبتلا ہے اور زیادہ تر لوگ اس بات سے آگاہ بھی نہیں ہیں۔ ان افراد میں 10 سے 20 فیصدآخر ی ا سٹیج تک پہنچتے ہیں اور 15 سے 20 سالوں میں انھیں جگر کی پیوندکاری کی ضرورت پڑتی ہے۔
۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں 3کروڑ 25لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، جن میں سے ہر سال دس لاکھ34ہزار مریض لقمہ? اجل بن جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہیپاٹائٹس بی اور سی اس وقت دُنیا بَھر میں صحتِ عامہ کا بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ نیز، تاخیر سے علامات ظاہر ہونے کے باعث تقریباً 60فی صد افراد میں جگر کے سرطان کی وجہ بھی یہی عارضہ ہے۔
ہیپاٹائٹس، جگر کی سوزش کا ایک ایسا عارضہ ہے، جس کے علاج معالجے میں اگر کوتاہی برتی جائے، اتائیوں یا ناتجربہ کار معالجین سے علاج کروایا جائے یا پھر مختلف ٹونے ٹوٹکے استعمال کیے جائیں، تو یہ نہ صرف زندگی کے دورانیے کی کمی پر منتج ہوتا ہے، بلکہ شدید پیچیدگیوں کا بھی باعث بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں زیادہ تر سادہ لوح افراد یرقان کو ہیپاٹائٹس سے منسلک کردیتے ہیں۔ جب کوئی ہیپاٹائٹس کا ذکر کرے، فوراً ذہن میں یرقان کا خیال آتا ہے اور اگر یرقان کا تذکرہ کیا جائے، تو ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای کی بابت سوچا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی فرد ہیپاٹائٹس اے یا بی میں مبتلا ہوجائے، تو وہ یہی سوچے گا کہ اُسے تو کبھی زندگی میں یرقان ہوا ہی نہیں تھا، شاید یہ رپورٹ ہی غلط ہے اور اسی بنیاد پر عموماً مریض اور اس کے لواحقین، معالج سے ضد بحث کرتے ہیں، کیوں کہ اِن کے ذہن میں یہ تصوّر راسخ ہوچُکا ہے کہ ہیپاٹائٹس اور یرقان کبھی الگ نہیں ہوسکتے۔ اس طرح یہ تصوّر بھی عام ہے کہ ہیپاٹائٹس اور یرقان میں پیٹ میں پانی بَھر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی اُلٹیاں ہوتی ہیں۔ نیز، یہ بھی کہ یہ مرض لاعلاج ہے۔ جب کہ مریضوں کی بڑی تعداد اس وہم کا بھی شکار ہے کہ دَم کروانے، گلے میں ہار پہن لینے یا چُونے کا پانی پیلا پڑ جانے سے بھی مرض ختم ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ اِن تمام تر غلط تصوّرات و مفروضات میں کوئی صداقت نہیں اور اِن کی بیخ کنی اشد ضروری ہے۔
درحقیقت پاکستان بَھر میں ہیپاٹائٹس اے زیادہ عام ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس، مُنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور جگر کو کسی حد تک اپنا فعل انجام دینے سے روک دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جسم میں روزانہ کی بنیاد پر سُرخ جسیمے جنھیں طبّی اصطلاح میں ریڈ بلڈ سیلز کہا جاتا ہے پھٹنے سے پیدا ہونے والا"BILIRUBIN"جگر سے گزر نہیں پاتا اور یرقان کی صورت جمع ہونے لگتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے اور پھر کسی دوسرے مریض کے جسم میں مُنہ کے ذریعے ہی داخل ہوجاتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کا پرویلنس آف ہیپاٹائٹس بی اینڈ سی ان جنرل پالولیشن آف پاکستان کے سروے 2007-08 کے مطابق اُس وقت ملک کی 7.4فیصد ا ٓبادی ہیپا ٹائٹس بی یا سی کا شکار تھی جو کہ اس وقت کی آبادی کے تناسب سے ایک کروڑ 18لاکھ پاکستانی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہو چکے تھے۔ جو کہ ملک کی 2.5فیصد آبادی بی اور 4.9فیصد آبادی ہیپاٹائٹس سی کا شکار تھی جو کہ موجودہ 20کروڑ کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ 47لاکھ یعنی ہر 14واں فرد اس مرض ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثر ہے جبکہ آزاد کشمیر میں 04فیصد افراد یعنی 40لاکھ کی آبادی میں سے 4لاکھ افرادہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثر ہیں اور پھر ہیپاٹائٹس کی مجموعی پانچ اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیں جو کہ جگر کی بے شمار پیچیدگیوں یہاں تک کہ کینسر کا سبب بھی بنتی ہیں شومئی قسمت پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی پانچوں اقسام موجود ہیں جن کی وجہ سء کئی افراد لقمہ ِ اجل بن چکے۔ کیونکہ یرقان ایک خاموش قاتل ہے یہ لیب ٹیسٹ کے بغیر خاموش اور چالاک قاتل نظر نہیں آتا اس کے لیے لیب ٹیسٹ بہت ضروری ہیں اگر ہیپاٹائٹس کے حوالہ سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں کوئی لیب شاید ہی ہو جس کی رپورٹ مستند ہو یا س سے ہیپاٹائٹس کی تشخیص ممکن ہو سکے جس کی بڑی وجہ ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ پیچیدہ ہونے کے علاوہ مہنگا بھی ہے اور بہت سی لبیارٹریوں کی کم اہلیت بھی ایک محرک ہے۔ اور پھر ایسے اشتہارات، نیم حکیم، اور نابلد حضرات جو ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو شفاء کے بجائے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں کیونکہ یرقان کی دو اقسام ہیں جنہیں پیلا اور کالا یرقان حرف عام میں جب کہ ڈاکٹرحضرات اسے ہیپاٹائٹس A، Bاور Cکہتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک ہیپاٹائٹس Cہے جسے کالا یرقان کہا جاتا ہے ہیپاٹائٹس کا مطلب جگر کی سوزش ہے اوریہ بذریعہ وائرس پھیلاتا ہے ہر قسم کے ہیپاٹائٹس کا وائرس جب جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ خلیات کی فعالیت سے اویزش شروع کر دیتا ہے پھر مزید وائرس زدہ خلیات ظہور میں آتے ہیں اکثریت ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں۔ یہ ایسا مرض ہے جس کا مریض بظاہر صحت مند توانا نظر آتا ہے لیکن ہر سال ٹیسٹ اور احتیاط نہ ہونے کے باعث یہ مریض نہ صرف خود بلکہ کئی دوسرے افراد کے زندگی کا چراغ گل کرنے کا موجب بنتا ہے یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے پانچ سے پچاس دن میں اپنا اثر دکھاتا ہے یہ ہجوم، گندے پانی کی وجہ سے زیادہ پھیلاتا جاتا ہے یہ نہ صرف انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ یہ اس کی علامات اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جب یہ مرض اس حد تک بڑھ چکا ہوتا ہے جس وقت علاج موثر نہیں رہتا۔ اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں ہی ہمارے ہسپتال، بابر شاپس، ناقص صفائی کے انتظامات ان سب سے اہم ہمارا پانی ہے جو مضر صحت ہے جس کے باعث یہ مرض پاکستان اور اب آزاد کشمیر میں بھی بہت تیزی سے پھیلا رہا ہے اب اگر آزاد کشمیر کے دارلحکومت کو ہی دیکھیں تو پورے شہر میں صرف چار ایسے چشمے ہیں جن کا پانی استعمال کے قابل ہے۔ ماندہ جتنے بھی پانی ہیں وہ ناقابل ِ استعمال ہیں لیکن عوام میں شعور نہ ہونے اور ایسی مہلک بیماری کی مناسب آگاہی مہم نہ ہونے سے کئی افراد اس مہلک مرض میں مبتلا ہوچکے اور مزید انکشاف یہ ہے کہ اس مرض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماضی میں اس مرض کا مہنگا ترین علاج بھی تھا اور سب سے اہم بات جو قابل ِ توجہ ہے وہ یہ کہ ایسی مہلک مرض کے حوالہ سے مناسب آگاہی کی کوئی مہم جوئی نہیں کی جاتی، کروڑ روپے جو اشتہارات کی مد میں جاتے ہیں اگر انہیں کا درست استعمال کیا جائے اور عوام کو بذریعہ میڈیا ایسی بیماریوں کے تدارک احتیاطی تدبیر سے آگاہی بہم پہنچائی جائیں تو کافی حد تک ایسے موذی مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پینے کے پانی کے لیے ایسے فلٹر پلانٹ لگائے جائیں جو پانی کو ایسے جراثیم، آلودگی سے پاک کر سکیں جن کے باعث ہیپاٹائٹس کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اگر اس مرض پر بروقت قابو نہ پایا جا سکا تو مستقبل میں پاکستان و آزاد کشمیر کا ہر دوسرا فرد اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ کسی بھی ایسی بیماری جو آلودہ پانی اور خوراک کے استعمال سے لاحق ہوتی ہیں ان کی بروقت آگاہی، احتیاط ہی ان کا بہترین حل ہے اور پھر ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچاو کا سو فیصد تعلق احتیاط سے ہی ممکن ہے جن میں آلودہ پانی کا استعمال، غیر معیاری خوراک، ذاتی صفائی ستھرائی، سرنج کا استعمال، اردگرد کی صفائی، حجامت کے وقت نیا بلیڈ، بیوٹی پارلرز میں میک اپ کی چیزوں کا جراثیم کش ہونا، آلات جراحی کا جراثیم کش ہونا، جسم پر نشانات، انجکشن، کان، ناک چھیدنے والے آلات کا بیماریوں سے مبرا اور جراثیم کش ہونا، ایسی ہی کئی احتیاطی تدابیر ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ہم خود اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اس کے پھیلاو کو بھی روک سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نہ تو خود بستر ِ مرگ سے پہلے بیماریوں سے احتیاط کرتے ہیں جو عوام بچاو کی سعی کرتی ہے ان کو ایسے احتیاطوں سے لاعلمی کے باعث ہیپاٹائٹس کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں ہیپاٹائٹس کی احتیاطی تدبیریں جدید علاج سے یہ مکمل قابل علاج مرض ہے جو کہ 95فیصد سے بھی زائد مثبت نتائج کا حامل ہے۔