یونیسکو نے1966میں باقاعدہ عالمی یوم خواندگی کو 8ستمبر کے دن کو ہر سال بچوں اور بالغوں دونوں کیلئے منانے کا اعلان کیا جوکہ آج تک دُنیا کے تقریباً ہر ملک میں منایا جاتا ہے۔
کسی مہذب انسانی معاشرہ کی بنیاد ہی تعلیم ہے اورہر دور میں انسان کی سماجی، اخلاقی اور معاشی ترقی کا زینہ رہی ہے۔ تعلیم کی اہمیت اور خصوصیت سے کرہ ارض کے تمام باشعور انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر آگاہ ہیں کیونکہ ان میں اس شعور کا ادراک تعلیم ہی کی بدولت ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ آج بھی دُنیا میں کروڑوں ایسے بے شعور انسان بھی موجود ہیں جو انفرادی طور پرتعلیم کی روشنی سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی کو منور نہیں کرسکے اور اجتماعی طور پر سب کو تعلیم مہیا کرنے کے مواقعوں کے حوالے سے زمینی حقائق سے عاری پالیسیوں اور فیصلوں کے سرخیل ہیں۔
تعلیم کی عدم توجہی کا خمیازہ قوم جہالت، غربت، انتہا پسندی، عدم برداشت، محرومیوں اور پسماندگی کی صورت میں بھگتی ہے دُنیا کے اور بہت سے ممالک تعلیم کو ترجیح نہ دینے کے رجحان کے باعث بہت سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو ممالک تعلیم کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے اور سمجھتے ہیں وہ آج ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔ وہ ممالک جو تعلیم کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور جن کی گرفت ابھی ڈھیلی ہے۔ دونوں کیلئے اقوام متحدہ کا ادارہ UNESCO ہر سال 08 ستمبر کو خواندگی کا عالمی دن مناتا ہے تاکہ تعلیم دوست ممالک کی Commitment کو اور مضبوط کیا جائے اور تعلیم کی راہ پر ڈگمگاتے ممالک میں تعلیم سے دوستی کی Commitment کو اُبھارا جائے۔
خواندگی جس کی تشریح بنیادی طور پر پڑھنے لکھنے کے عمل سے کی جاتی ہے لیکن اس کی کسی متفقہ تعریف پر آج تک اتفاق نہیں ہوسکا اور اکثرممالک اپنے حالات کے مطابق خواندگی کی مختلف تعریفوں کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش میں کسی بھی زبان میں پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کے حامل افراد خواندہ کہلاتے ہیں۔
اسی طرح کینیڈا میں نویں جماعت پاس فرد خواندہ کہلاتا ہے۔ انڈیا میں جو فرد تقریباً 40 الفاظ فی منٹ درست طریقے سے پڑھ اور دس الفاظ فی منٹ لکھ سکے اور 7 الفاظ فی منٹ کے حساب سے کسی بھی زبان میں املا لکھ سکے خواندہ کہلائے گا۔ انڈونیشیا میں خواندہ فرد کی جو تعریف کی جاتی ہے اس کے مطابق کوئی فرد جو حروف تہجی کو پہچان سکے۔ سادہ الفاظ پڑھ سکے اپنا نام اور دستخط کر سکے خط پڑھ اور سمجھ سکے یا کسی اخبار یا میگزین کا کوئی خاص حصہ پڑھ سکے خواندہ کہلائے گا۔
نیپال میں چھ سال اور اس سے زائد عمر کا کوئی فرد جو کسی بھی زبان میں روزمرہ زندگی کے بارے میں ایک مختصر سا بیان پڑھ اور لکھ سکے خواندہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح ویتنام میں خواندگی کی تعریف تین پہلو ؤں پر بنیاد کرتی ہے۔ اول بغیر حروف تہجی کئے کوئی بھی شائع شدہ مواد پڑھ اور لکھ سکے، دوئم 45 منٹ میں بغیر زیادہ غلطیاں کئے 80 الفاظ تحریر کرسکے، سوئم گنتی کے چار اعداد کو پڑھ اور شروع کے دس اعداد کو لکھ سکے۔
خواندگی کی تعریف کا جب ہم وطن عزیز میں جائزہ لیتے ہیں تو اس کی شرح کو مانپنے کے لئے جو تعریفیں استعمال کی جاتی رہی ہیں وہ
کچھ یوں ہیں۔ 1951 کی مردم شماری میں خواندگی کی شرح کو مانپنے کیلئے جو تعریف استعمال کی گئی اس کے مطابق کوئی فرد جو کسی بھی زبان میں واضح تحریر کو پڑھ سکے۔ 1961 کی دوسری مردم شماری میں خواندگی کی پیمائش کیلئے یہ تعریف مقرر کی گئی کہ کوئی فرد جو کسی بھی زبان میں سادہ سی تحریر کو مکمل سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھ سکے۔
1972 کی مردم شماری میں اس سے گزشتہ مردم شماری کے لئے مقرر کی گئی خواندگی کی تعریف پر ہی تقریباً انحصار کیا گیا جبکہ 1981 کی مردم شماری کے وقت خواندگی کے لئے جو تعریف مقرر کی گئی اس کے مطابق کوئی فرد جو اخبار پڑھ سکے اور سادہ سی تحریر لکھ سکے۔ اسی طرح 1998 کی پانچویں مردم شماری میں خواندگی کی شرح کی پیمائش کیلئے کسی فرد کا اخبار پڑھ سکنے اور کسی بھی زبان میں ایک سادہ سا خط تحریر کر سکنے کی اہلیت مقرر کی گئی۔ یہ سب تعریفیں الفاظ کے استعمال سے بے شک جدا مفہوم کی حامل ہوں لیکن ان سب کا بنیادی مقصد صرف اور صرف تعلیم کے عمل کا فروغ اور اس کے لئے کسی خاص اہلیت کا تعین ہے۔ تا کہ فرد کو خواندہ کا خطاب مل سکے۔
پاکستان جہاں آزادی کے بعد سے اب تک تعلیمی شعبے میں کافی بہتری آئی ہے۔ اور ملک میں شرح خواندگی میں 1951 سے 2013-14 تک 254 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ 16.40 فیصد سے بڑھ کر 58 فیصد ہو چکی ہے۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ سال 2012-13 کے دوران ملک میں خواندگی کی شرح 60 فیصد تھی جو 2013-14 کے دوران کم ہوکر 58 فیصد پر آگئی ہے۔ جبکہ یہ شرح 2010-11 اور2011-12 کے دوران 58 فیصد پر جامد تھی۔
اس سے قبل 2009-10 میں پاکستان میں خواندگی کی شرح 57.7 فیصد تھی۔ ملک کی خواندگی کی شرح کا یہ اتار چڑھاؤ ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے تعلیمی نظام کی کارکردگی ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کے حوالے سے بھی حوصلہ افزاء نہیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں کی دوسری بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ جبکہ ناخواندہ بالغ افراد کی تیسری بڑی تعداد بھی پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔
یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ2015 کے مطابق سال 2012 تک پاکستان کے 5.3 ملین بچے اسکول نہیں جاتے تھے۔ جو دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کا 9.25 فیصد تھے۔ جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 49 ملین بالغ افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ یعنی دنیا کے 6.30 فیصد بالغ ناخواندہ افراد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ او رملک کے سکولوں سے باہر بچوں کی اس وقت تعداد اکنامک سروے آف پاکستان 2014-15 کے مطابق 67 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
ہر بچے کیلئے پرائمری تعلیم کے لئے ملینئیم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت پاکستان کی سطح پر جن انڈیکیٹرز کا تعین کیا گیا ہے اس کے مطابق (i) 100 فیصد پرائمری سکول جانے کی عمر کے حامل بچوں کو سکولوں میں داخل کرانا (ii) 100 فیصد پہلی جماعت سے پانچویں کلاس تک طلباء کا حصو ل تعلیم کا عمل برقرار رہنا (iii) شرح خواند گی کو 88 فیصد کرنا ہے۔ اِن تینوں انڈیکیٹرز کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں تو بہتر ہے۔
لیکن اپنے اہداف سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈز میزرمنٹ سروے 2013-14 کے مطابق ملک میں پرائمری سکول جانے والی عمر کے 57 فیصد بچے پرائمری سکولوں میں داخل ہوتے ہیں جبکہ الف اعلان نامی غیر سرکاری تنظیم کی پاکستان ضلعی تعلیمی درجہ بندی 2015 نامی دستاویز کے مطابق پاکستان میں پرائمری سطح پر سکول چھوڑنے کی شرح33 فیصد ہے یعنی دوسرے الفاظ میں ملک میں 67 فیصد پرائمری سکولوں میں داخل بچے اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواندگی کی شرح جسے 2015 ء تک 88 فیصد کرنا ہے۔
2013-14 ء تک 58 فیصد تک پہنچی ہے۔ (پاکستان میں اس وقت خواندگی کی شرح 10 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے One who can read newspaper and write a simple letter، in any language کی تعریف کے پیمانے سے مانپی جا رہی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر 15 سال اور اس سے زائد عمر کے بالغ افراد کے خواندہ ہونے کے پیمانے کو خواندگی کی شرح کے تعین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)۔
اس تمام تر صورتحال کی موجودگی میں تو ملک میں ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن شاید ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ کیونکہ ملک کا تعلیمی حقائق نامہ کافی تلخ صورتحال کی نشاندہی کررہا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں پرائمری سکول جانے والی عمر کی 53 فیصد لڑکیاں اور 60 فیصد لڑکے ہر سال پرائمری سکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 ء کے مطابق پاکستان میں سیکنڈری سکول جانے کی عمر کے 41 فیصد لڑکے اور31 فیصد لڑکیاں ملک میں موجود سیکنڈری سکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹیسٹکس 2013-14 نامی رپورٹ کے مطابق ملک میں 2008 سے2013 کے دوران پرائمری سطح کی تعلیم میں لڑکوں کے داخلہ کی شرح میں 8.89 فیصداور لڑکیوں کے داخلہ کی شرح میں بھی 5.61 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جو کہ 2015 ء تک یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے اہداف کے حصول کے حوالے سے تسلی بخش نہیں۔ یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا بنیادی انحصار بالغوں کی تعلیم کے حوالے سے ملکی پالیسی کی کامیابی پر ہے۔
اگر والدین پڑھے لکھے ہوں گے تو ہی وہ تعلیم کی افادیت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے اور اس تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے بالغ افراد (15سال اور اس سے زائد) میں خواندگی کا تناسب کے مطابق 56.2 فیصد ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے 2013-14 کے اعدادوشمار کے مطابق 260200 درس گاہوں پر مشتمل ہے جو 42918801 طالب علموں کو 1598334 اساتذہ کی مدد سے تعلیم مہیا کر رہا ہے۔ پاکستان میں درسگاہوں کا 69 فیصد، طالب علموں کا 63 فیصد اور اساتذہ کا51 فیصد پبلک سیکٹر کے زیر انتظام ہے۔ ملکی درسگاہوں میں اس وقت 57 فیصد لڑکے اور43 فیصد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ اور ملک میں 29.85 طالب علموں کیلئے اوسطً ایک استاد، 164.94 طالب علوں کیلئے اوسطً ایک درسگاہ اور ایک تعلیمی ادارے میں اوسطً 6.14 اساتذہ موجود ہیں۔
پاکستان کی تعلیمی پسماندگی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک سکولوں میں موجود سہولیات کا فقدان قابل ذکر ہے۔ نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کے پبلک سیکٹر میں موجود پرائمری تاہائر سیکنڈری سطح کے تعلیمی اداروں کے 7.2 فیصد کی کوئی بلڈنگ ہی نہیں ہے۔ 36 فیصد میں بجلی نہیں، 30 فیصد میں پینے کے پانی کی سہولت دستیاب نہیں، 30 فیصد میں بیت الخلاء نہیں اور27.55 فیصد تعلیمی اداروں کی چاردیواری ہی نہیں۔ اس کے علاوہ 21.81 فیصد پبلک پرائمری تاہائر سیکنڈری سطح کے تعلیمی اداروں کی عمارتیں مرمت مانگتی ہیں۔
اکستان کی تعلیمی پسماندگی اس امر سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے 14.80 فیصد پبلک سیکٹر میں موجودمذکورہ بالاادارے صرف ایک کمر ہ جماعت پر مشتمل ہیں۔ جبکہ دو کمروں پر مشتمل اداروں کا تناسب34.41 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود گھوسٹ اسکولزجو تعلیمی بجٹ سے معاشی وسائل کا حصہ تو لیتے ہیں لیکن اُن کا تعلیمی out put بالکل صفر ہے۔ پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کی ایک اور وجہ تعلیمی شعبے پر کم معاشی وسائل کا صرف ہونا ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران پاکستان میں تعلیم کے شعبے پر ملکی جی ڈی پی کا 2 فیصد کے قریب خرچ کیا گیا جو بین الاقوامی ماہرین کے متعین کردہ تناسب 4 فیصد سے کہیں کم ہے۔
اس کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک اپنی جی ڈی پی کا کہیں زیادہ حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش 2.1 فیصد، بھوٹان 4.9 فیصد، بھارت 3.2 فیصد، ایران 4.7 فیصد اور مالدیپ اپنی GDP کا 8 فیصد تعلیم پر صرف کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے کہ یونیسکو کے GLOBAL EDUCATION DIGEST 2012 کے مطابق 2010 ء میں پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد دنیا بھر میں تیسری بڑی تعلیمی امداد ملی جس کی مالیت 541 ملین ڈالر تھی لیکن اس کے باوجود ہمارے تعلیمی اشارئیے جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک کے مقابلے میں کمزور ہیں جو تعلیم کے شعبہ میں مالی بے ضابطگیوں کی واضح علامت ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت بھی تعلیمی پسماندگی کی ایک وجہ ہے۔
یونیسکو کے مطابق پاکستان میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 7 سے 16 سال کی عمر کے آدھے بچے سکولوں سے باہر ہیں اور امیر گھروں کے 5 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ اس تمام صورتحال میں تعلیم سب کے لئے کے سلسلے میں مقرر کردہ اہداف کے حصول کے حوالے سے پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے EFA ڈویلپمنٹ انڈکس 2012 جوکہ یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ 2015 میں جاری کیا گیا۔
اس انڈکس کے مطابق دُنیا کے 113ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب تھے) میں پاکستان 106 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ جنوبی ایشیاء کے دیگر 4 ممالک جو کہ اس انڈکس میں موجود تھے اُن کی صورتحال پاکستان سے بہتر تھی۔ اس انڈکس کے مطابق سری لنکا 59 ویں، بھوٹان 93 ویں، بنگلہ دیش 97 ویں اور نیپال 100 ویں نمبر پر تھا۔
یہ ایک مُسّلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم معاشی ترقی اور سماجی بہبود میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اخراجات کے ثمرات غربت میں کمی، بہتر صحت، معاشی ترقی اور باہمی مکالمہ کے فروغ کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم تک رسائی سیاسی شرکت کو بڑھاتی ہے۔ اور معاشی اور سیاسی طاقت کو متوازن رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ اسی لئے ہر ملک کے تعلیمی نظام کی بنیاد اس نقطہ پر مرکوز ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی نظام میں موجودگی کو برقرار رکھا جائے۔ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم کو پانچ وجوہات کی بنا پر ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک تو تعلیم غربت میں کمی اور معاشی ترقی میں اضافہ کا باعث ہے۔
کیونکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم آمدن کے حامل ممالک میں ہر ایک سال کی اضافی تعلیم انفرادی کی آمدن میں 10 فیصد اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو غربت سے نکالنے کیلئے انھیں تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اقتصادی ترقی کو فروغ دیتی ہے۔ 1960 سے 2000 کے دوران دنیا کے 50 ممالک میں کی جانے والی
ایک تحقیق کے مطابق سکول کی تعلیم کے ہر اضافی سال سے GDP میں 0.37 فیصد اضافہ ہو تا ہے۔ دوسرا ماہرین ماؤں کی تعلیم کو بچوں کی غذائیت اور بقاء کے امکانات میں اضافے کے حصول سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ کیونکہ دنیا بھر میں 26 فیصد بچے جن کی عمر پانچ سال اور اس سے کم ہے اپنی عمر کے حساب سے پستہ قد ہیں۔ ہماری ترجیح خواندگی ہی نہیں بلکہ ایک ترقی یافتہ قوم ہونی چاہیے تب جا کر ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ یہی اس دن کا تقاضا ہے۔