1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. آمدِ رمضان اور مہنگائی کا طوفان!‎

آمدِ رمضان اور مہنگائی کا طوفان!‎

رمضان المبارک رحمتوں و برکتوں والا بابرکت مہینہ ہے۔ جو امت ِ مسلمہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ جسے نیکیوں کی فصل ِ بہار کہا جاتا ہے۔ جس طرح موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کو طراوت اور تسکین بخشتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کا موسم بہار اپنے دامن میں بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے ہمارے لیے رحمت العالمین ﷺ کی حیات ِ مبارکہ بہترین نمونہ ہے۔ خود رحمت العالمین ﷺ اس ماہ ِ مقدس کے لیے دعا فرماتے،۔ ہم نے اس ماہ ِ مقدس کی آمد کو مال بناؤ پالیسی بنا دِیا۔ ایک غریب، متوسط کا اس ماہ میں جینا محال ہو جاتا ہے۔ وہ مزدور جس کی آمدن کے ذرائع ہی محدود ہیں وہ رمضان میں سحر، افطار، اور پھر عید کے اخراجات کہاں سے پورے کر سکتا ہے۔ شہروں، دیہی علاقوں میں مہنگائی کا سونامی کئی گھرانوں کی خوشیاں بہہ لے جاتا ہے۔ ہر سال ماہ صیام کا آغاز ہوتے ہی مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے۔ ملک میں روزمرہ کی عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باقی اقوام اپنے تہوار میں دوسروں کے لیے آسانی، خوشیوں میں شریک کرتی ہیں۔ ایک مثال تہوار کرسمس ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہر چیز کے دام کم کر دیتے ہیں تاکہ ہر بندہ خرید سکے۔ اور عام دنوں میں چاکلیٹ اور بچوں کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں کرسمس پہ پچھتر فی صد کم ہو جاتی ہیں۔ عام بندہ انتظار کرتا ہے کہ کرسمس آئے گی تو پاکستان والوں کو بھی گفٹ اور اپنی بھی شا پنگ کریں گے۔ باقاعدہ چیک کیا جاتا ہے۔ جن کی آمدنی کم ہو تو ان کو کرسمس کی شاپنگ کے لئے بونس دیا جاتا ہے۔ جو آپ کی تنخواہ جتنا ہوتا ہے۔ اور ایسے چیزیں عام اور سستی ہو جاتی ہیں۔ جیسے فری میں ہوں ہر بندے کے گھر شاپنگ کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ ہر بندہ برینڈ ڈ کپڑے جُوتے گھر کا سامان ہر چیز لے سکتا ہے۔ عید ان کی ہوتی ہے موجیں ہماری لگتی ہیں۔ اس معاملے میں خیر عرب بھی تعریف کے حق دار ہیں۔ عربوں میں بھی روزوں میں ہر روڈ کے ساتھ ہر قسم کی افطاری کا اور سحری کا اہتمام ہوتا ہے۔ جو ملازمت پیشہ لوگ ہیں ان کو ایک مہینہ کی چھٹی مل جاتی ہے کہ گھر میں جو خود جاکر پکانا پڑتا تھا۔ وہ نہیں کرتے۔ لیکن ہم رمضان میں منافع خور ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گے تاکہ عام بندے کی پہنچ سے دُور ہو جائیں۔ کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتا کیونکہ امیر کو ضرورت نہیں ہے۔ اور غریب کی کوئی سُنتا نہیں ہے۔ مرغی، بیسن، فروٹ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے۔ جو کسر رہ جاتی ہے عید پہ پوری کر لیں گے۔ جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ مہینہ ان کے لئے زحمت سے کم نہیں ہوتا۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی منافع خور اشیاء خورونوش سمیت پھلوں کی قیمتیں آسمان پرپہنچادیتے ہیں۔ بڑے شہروں میں سبزی، مرغی کا گوشت اور دودھ مہنگا ہوجاتا ہے۔ دُنیا بھر میں جب کوئی مذہبی یا عوامی تہوار آتے ہیں تو شہریوں کی سہولت کے لیے اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ کمی کر دی جاتی ہے مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ رمضان کی آمد کے پیش نظر اشیائے خورد و نوش کی ہوش ربا مہنگائی عوام الناس میں ایک اضطراب اور ہیجانی کیفیت لے آتی ہے۔ اللہ ربّ العزت اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں جن کی اہمیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھی راہ دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ روزہ ہر مسلمان کے لیے یکساں طور پر فرض ہے خواہ وہ روئے زمین کے کسی بھی ملک یا خطے میں آباد ہو۔ اس کے لیے انھیں اسی طریق کار اور ان ہی اوقات کی پابندی کرنا ہوگی۔ بلاشبہ مختلف مقامات کے سحری اور افطار کے اوقات ان کے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں لیکن نہ تو یہ مہینہ تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ وہ احکامات تبدیل ہوسکتے ہیں جن کے مطابق سحری و افطار کے اوقات معین کیے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی اجتماعی فضا اور ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیوں اور آبادیوں پر خشیت الٰہی کی روح پرور کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روزے داروں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان کے ایام میں بالعموم لوگوں میں گناہوں سے توبہ اور صدقہ وخیرات کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، مساکین کوکپڑے پہنائے اور ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ اس اعتبار سے رمضان کا مبارک مہینہ خیرو ہمدردی کی علامت اور مظہر ہے اور اسلامی معاشرے میں مساوات کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مقدس مہینہ مسلمانوں میں ملی وحدت اور یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے۔ چونکہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے لہٰذا اس کے فوائد و برکات سے وہی مسلمان مستفیض ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ خلوص دل سے کوشش کریں۔ ان میں امیروکبیر، آجر، مزدور اور کسان سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام طبقات میں تاجر کا کردار رمضان شریف کے حوالے سے سب سے زیادہ قابل ذکر ہے کیونکہ تاجر ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ویسے بھی اسلام میں تجارت کو دیگر تمام پیشوں میں ایک خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشے کو تمام پیشوں سے افضل قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اسی پیشے کو اختیار فرمایا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ایک مسلمان تاجر پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو ان آداب و قواعد تجارت کی سختی سے پابندی جن کا دین اسلام پر مسلمان تاجر سے خصوصی طو رپر تقاضا کرتا ہے۔ مثلاً مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤ، ذخیرہ اندوزی سے گریز، ملاوٹ سے مکمل اجتناب، ناجائز منافع خوری سے پرہیز، مال کا عیب نہ چھپانا، پورا ناپنا اور تولنا اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز، دوسرے ان تمام باتوں سے بچنا جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بے ہودہ باتیں کرنا، گالیاں بکنا، فضول قسم کی گفتگو کرنا، لڑنا جھگڑنا اور خلاف شرع کاموں میں مشغول رہنا۔
بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کے مقرر کردہ آداب تجارت کی سختی سے پابندی کریں تاکہ رزق حلال کمانے کا بنیادی مقصد حاصل ہوسکے۔ اگرچہ عام دنوں میں بھی ایمانداری سے تجارت کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے لیکن رمضان المبارک میں تو اس کا خاص خیال رکھنا اور اہتمام کرنا اس لیے بھی مزید اہمیت کا حامل ہے کہ اس مبارک مہینے میں دیگر عبادات کی طرح اس کا اجروثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان رمضان کے مہینے میں احترام رمضان کی نیت سے اپنے مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کے جذبے سے اپنے مال کی قیمتوں میں رضاکارانہ طور پر کمی یا خصوصی رعایت کردے اور برائے نام منافع کمانے پر اکتفا کرے تو اس تاجر کا یہ عمل صالح اس کو اجرعظیم کا مستحق بنادے گا۔ قرآن و حدیث میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان تاجروں کے لیے تجارت کے جو آداب مقرر فرمائے ہیں ناپ تول، ایفائے عہد، ملاوٹ سے گریز، ذخیرہ اندوزی سے اجتناب اور گرانی سے پرہیز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فرمایا کہ تاجروں کا حشر قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ ہوگا سوائے ان کے جو حرام سے بچے، جھوٹی قسم نہ کھائی، ناپ تول میں کمی نہ کی اور جنہوں نے قیمت کے معاملے میں راست بازی کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرماتا ہے جو خریدوفروخت اور تقاضہ کرتے میں نرمی سے پیش آتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کی اصل پہچان یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ان آداب کی سختی سے پابندی اور پیروی کرتا رہے اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی کمائی حرام ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتا ہے۔ رمضان المبارک میں ناجائز منافع خوری کرنے کا مرتکب نہ صرف اس مقدس مہینے کے فیوض و برکات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کر بیٹھتا ہے۔ وطن عزیز میں جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا، سارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں ہر ایک چیزوں کے نرخ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ یک بہ یک بڑھا دیتے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے کی آمد سے قبل ہی ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں من مانا اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کردیا جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں کہاں سے کہاں چلی جاتی ہیں۔ ایک طرف آمد رمضان ہے اور دوسری جانب مہنگائی کا زبردست طوفان ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کے ہوش اڑادیے ہیں۔ ہمیں رمضان میں ایثار، خیر خواہی، ہمدردی کی مثال قائم کرنی چاہیے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔