مودی کے رنگ میں رنگی بھارتی سپریم کورٹ نے حقائق کے خلاف، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی فیصلہ دیکر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے لاکھوں کشمیریوں کی قربانی سے غداری کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک دو دن کی بات نہیں۔ یہ دُنیا جانتی ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا، ہے اور نہ ہی ہو سکے گا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شمس الدین شاہ میر نے پہلی مسلم سلطنت 1339ء میں سلطان شاہ میر نے قائم کی تھی، شاہ میر خاندان کا دور 1561ء تک جاری رہا۔ اسی دور میں اسلام کی روشنی کشمیر میں پھیلی۔ اسی دور میں نور الدین نورانی نے کشمیریوں کو اسلام کے پیغام سے فیضیاب کیا۔ اسی دور میں وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارتی قافلے یہاں آتے تھے، جنہوں نے اپنے ثقافت سے کشمیری سماج کو متاثر کیا۔ صوفی بزرگ شاہ حمدان علی جب کشمیر میں آکر آباد ہوئے تو یہاں کا سماج اسلامی سانچے میں ڈھل گیا۔
جموں و کشمیر پر 1586ء سے 1751ء تک مغلوں کا راج رہا اور پھر افغان درّانیوں نے 1747ء میں اپنی حکومت قائم کر لی جو 1819ء تک قائم رہی۔ 1819ء سے 1846ء تک یہ راجہ رنجیت سنگھ کی سکھ سلطنت کے زیر تسلط رہا، تقریباً پانچ سو سال بعد کشمیر پہلی بار غیر مسلم سلطنت کا حصہ بنا تھا۔ راجہ رنجیت سنگھ نے ہی جموں کے ڈوگرہ گلاب سنگھ کو کشمیر کاخودمختار حاکم مقرر کیا تھا۔ اسی کے دور میں لداخ، مانسروور جھیل اور گلگت کو ریاست کشمیر کا حصہ بنایا گیا تھا۔ تاہم 1841ء میں چینی اور تبتی سپاہیوں نے تویو کے معرکے جنرل زورآور سنگھ اور اس کے چار ہزار سپاہیوں کا صفایا کر دیا تھا۔ 1842ء میں چینی شہنشاہ، دلائی لامہ گرو اور گلاب سنگھ کے درمیان چوشل معاہدہ ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ لداخ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں قدیم زمانے میں طے ہونے والی سرحدوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا اور پرانی روایات کے مطابق لداخ کے راستے سے سالانہ تجارت کے اجازت دے گا۔
راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد جب سکھ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو گلاب سنگھ نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعلقات استوار کر لیے اور 1845-46ء کی اینگلو برٹش جنگوں سے خود کو دور رکھا تھا۔ تب ہی کمسن سکھ راجہ کے ساتھ ہونے والے لاہور معاہدے کے تحت گلاب سنگھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے مذاکرات کی آزادی ملی اور1846ء کے امرتسر معاہدے کے تحت گلاب سنگھ نے 75 لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض جموں و کشمیر لداخ اور گلگت بلتستان کا علاقہ خرید لیا جو سکھ سلطنت کا حصہ تھے۔ یہ اتنی ہی رقم تھی جو برطانوی فوجی مہم پر خرچ ہوئی تھی۔
ڈوگرہ راج جموں و کشمیر پر 1947ء تک قائم رہا۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ یہ ریاست خود مختار تھی۔ جموں و کشمیر میں ڈوگرہ راج سے آزادی کی تحریک کا آغاز 1925ء میں اس وقت ہوا تھا جب ہندو راجہ ہری سنگھ 77 فیصد مسلم آبادی کا راجہ بنا تھا۔ 1932ء میں نوجوان رہنما شیخ محمد عبد اللہ کشمیر کے سیاسی افق پر ابھرے۔ 1931ء سے لے کر آج تک کشمیری مسلمان ہر طرح ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ان کی تحریک آزادی ابھی تک جاری ہے۔
کشمیر کی حکمرانی شاہان چغتائی (مغلوں) کے ہاتھ سے نکل کر افغانوں کے ہاتھ آئی۔ افغانوں کا اقتدار 1753ء سے 1819ء تک 66 سال قائم رہا۔ اس دوران کابل میں 4 بادشاہوں کی حکمرانی رہی:
1۔ احمدشاہ ابدالی 19 سال
2۔ تیمور شاہ درانی 21سال
3۔ زمان شاہ درانی 09سال
4۔ محمد شاہ درانی 17 سال
ان 66 برسوں میں افغان بادشاہوں کی طرف سے 24 صوبے داریکے بعد دیگرے مقرر ہوتے رہے۔ ان میں سے ایک دو استثناؤں کے سوا سب نے ظلم و تشدد اور استحصال کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ عبداللہ خان ایشک اقاصی کشمیر کا فاتح تھا۔ اُس کے بارے میں مورخ محمد دین فوق لکھتے ہیں: "شاہی خزائن (خزانے) دفائن (دفینے) اور مال و اسباب تو فاتح عبداللہ کے لئے شیر مادرہی تھا، اُس نے تمام رعایا میں لوٹ مار مچا دِی۔ "ظلم و ستم تطاول وتاراج، اخذ مصادرہ و نذرانہ" غرض جس طرح ممکن ہوا، غریب رعایاکو لوٹنے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ تمام ملک میں شور و واویلا برپا ہوگیا۔ "اسوقت کے ایک شاعر ملااحمد نے اِن حالات کو درد انگیز الفاظ میں نظم کیا جسکا آخری شعر ہے: ؎
ناگہاں چوں بلائے دَامن گیر
شاہ اقاصی رسید در کشمیر
ایشک اقاصی صرف 5 ماہ اور 24 دِن اقتدار میں رہا لیکن اس مختصر عرصہ میں اس نے جبرو استحصال کی حد کردِی۔ جگ موہن کا کہنا ہے: "ایشک اقاصی نے تاجروں سے ایک کروڑ روپیہ زبردستی حاصل کیا۔ وہ صاحبِ حیثیت کشمیریوں کو ایک قطار میں کھڑے کرکے مطالبہ کرتا تھا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے دے دو، ورنہ موت کے لیے تیار ہو جاؤ"۔ 1754ء میں سکھ جیون مل نے خواجہ ابوالحسن بانڈے کی رفاقت میں ملک کا انتظام سنبھالا اور امن و امان قائم کرنے کی کوشش کی۔ 1755ء میں قحط پڑا اور ٹڈی دل نے حملہ کر دِیا۔ ابوالحسن بانڈے نے دو لاکھ خرواردھان عوام میں تقسیم کر دِیا۔
دو ڈھائی سال تک جیون مل نے ابوالحسن بانڈے کی مدد سے امور ملکی بخیر و خوبی سر انجام دئیے لیکن فتنہ پردازوں کو یہ امن و آشتی کا زمانہ پسند نہ آیا۔ ان دونوں کے درمیان کدورت پیدا کر دی گئی۔ سکھ جیون مل نے خودمختاری کا اعلان کر دِیا تھا اور ابوالحسن کو اپنا وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی لاہور میں تھااس نے نورالدین بامزئی کو 50ہزار سپاہ کے ساتھ جیون مل کو بے اثر کرنے کی خاطر کشمیر بھیجا۔ سکھ جیون مل نے 60 ہزار سپاہ کے ساتھ مقابلہ کے لئے آیا لیکن اُسے کسی طرح دھوکے سے گرفتار کرکے نورالدین بامزئی کے سامنے پیش کیا گیا۔ جس نے اس کی دونوں آنکھیں نکلوادیں۔ سکھ جیون مل بہت شجاع اور دلاور آدمی تھا۔ وہ بے تعصب، نیک سیرت اور راست گو انسان تھا۔ وہ مسلمان علماء اور فضلاء کی بہت مدد کرتا تھا۔ جمعہ کے دِن جامع مسجد میں موجود رہتا تھا، عید اور نو روز کے جش بڑے شوق سے مناتا تھا۔ جب اس کی آنکھیں نکالی جا رہی تھیں تو اس نے ایک نظم کہی جس کا مطلع تھا:
چشم از وضع جہاں پوشیدہ بہِ
سر بسز احوالِ آن نادیدہ بہِ
اندھے ہو جانے کے بعد یہ رباعی اس کے وردِ زبان رہتی تھی:
ہر چند گفتم نفس دُنی را
باید نہ کردن ناکردنی را
این نفس سر کش نہ شنید از من
تا آخرش دید نادیدنی را
مودی اور اس کے معاونین بھی لاکھوں کاوشیں، ان کی تدبیریں ان ہی کے خلاف لوٹیں گی۔ ان شاء اللہ