1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. آرٹ انسانی اقدار کا ترجمان

آرٹ انسانی اقدار کا ترجمان

آرٹ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی معاشرہ۔ قدیم سماج میں آرٹ کو انسانی ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا تھا۔ اپنی ابتداء میں آرٹ کا کردار انفرادی ہے۔

آرٹ، انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب فن یا ہُنر ہے۔ آرٹ اس قدر وسیع المفہوم کہ اپنے اندر معنی کی ایک دُنیا آباد رکھتا ہے۔ کسی بھی شخص کا کوئی بھی ایسا اختصاصی وصف، جسے دیکھ کر دوسرے حیران ہو جائیں، آرٹ کہا جا سکتاہے۔ کوئی شخص تنی ہوئی رسّی پر چلنے کا کمال دِکھاتا ہے، توکسی کو سینے پر وزنی پتّھر رکھ کر بھاری گاڑی گزار لینے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ کوئی تا دیر بغیر کسی بیرونی سہارے کے زیرِ آب رہ سکتا ہے، تو کوئی اپنی آواز کے جادو سے سامعین پر ایک سحر سا طاری کر دیتا ہے اور یہ سب کمالات آرٹ یا ہُنرسے تعبیر کیے جا سکتے ہیں۔ انگریزی ہی کی ایک اصطلاح "فائن آرٹ یا فائن آرٹس" بھی ہے، جسے اُردو زبان میں "فنونِ لطیفہ"سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ماہرین، فنونِ لطیفہ کو بھی دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں، جو "فنونِ لطیفہ کبریٰ" اور "فنونِ لطیفہ صغریٰ" پر مشتمل ہے۔ اوّل الذّکر کے دائرے میں شاعری، موسیقی، مصوّری، مجسّمہ سازی اور نقّاشی وغیرہ آتی ہے، جب کہ موخر الذّکر میں ظروف سازی، زردوزی اور قالین بافی وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔

احساسات کی اُس نازک سطح کے اظہار کا نام ہے، جہاں معمولی سی لغزش بھی سُننے، دیکھنے اور سمجھنے والے کے احساسِ لطافت کو کثافت سے دو چار کر سکتی ہے۔ فنونِ لطیفہ دراصل تخیّل کو متشکّل کرنے کا نازک عمل ہے اور زبان، الفاظ، اشارے، حرکات و سکنات اور رنگ فرد کے اندر کے احساس کو بیدار کرنے اور اسے باہر لانے کا ایک کارگر فعل ہے۔

مصوری قوم اورمعاشرے کے لئے آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر کسی قوم کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سماجی، ثقافتی، اقتصادی حالات کے مختلف ادوار، تبدیلیوں کے اتار چڑھاؤ کو عیاں کرنے میں مصوری کے نمونے بے حد مددگار ثابث ہوتے ہیں۔ فن مصوری کی شروعات بنی نوع انسان کی پیدائش سے منسلک کی جاتی ہے۔

قدیم زمانہ کے پتھروں اور غاروں کے ادوار میں مصوری کسی حد تک ایک زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ انسان تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ فن منظر کشی کے ساتھ ساتھ احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد اس خطہ کی مصوری میں خاصی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے فگرورک پر توجہ زیادہ تھی اور ساتھ ہی سنگ تراشی بھی اپنے عروج پر تھی۔ آرٹ سوسائٹی کی عکاسی کرتا ہے۔ فرانس اور سپین میں قدیم دور میں غاروں میں بنا ئے گے مصوری کے شاہکار غار کا ہی حصہ معلوم ہوتے تھے۔

تاریخ کے اعتبار سے مصوری نہایت ہی اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف ثقافتی، سماجی اور مذہبی حالات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس سے معاشی اتار چڑھاو کے اثرات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقوام کی تہذیب و تمدن پرکھنے میں بھی مصوری اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مصوری ایک تصویری زبان بھی ہے جو ہر دور میں بولی جاتی رہی ہے۔

آج کے دور میں بھی تخت الشعور کے خیالات کو فن پاروں میں عیاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلمانوں نے خطاطی نقاشی اور آرائش میں تجریدیت کا پہلو ایجاد کیا۔ مختلف تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام سے قبل تجریدی فن نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس فن میں تخیل آرائی، تجریدی فکر اور تخلیقی پہلو کا ہونا مسلمانوں کے حصے میں آتا نظر آتا ہے۔ مسلمانوں نے جیومیٹری کی اشکال کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے تجریدی آرٹ کو بڑھانے میں مدد کی اور یہ آرٹ زمانہ حال میں بڑی مقبولیت کا حامل ہے۔

آرٹ فن پارے کی تخلیقی خوبصورتی کی لاج رکھتا ہے۔ انسانی احساسات میں اتر کر روح کو متاثر کرتا ہے۔ لفظ "آرٹ" بڑا جادوگر لفظ ہے جس پر منکشف ہوجائے، اس کی دُنیا بدل دیتا ہے اورکئی اس کی چاہ لیے اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں، مگر یہ ان پر اپنی معنویت نہیں کھولتا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق "وہ حسین اشیا، فطری اظہار یا ایسے تجربے، جن کو بیان کیاجا سکے اوروہ ہنر جس کے عمل میں سوچ بھی شامل ہو، وہ آرٹ ہے۔"

آرٹ کی فلاسفی کا مطالعہ کیا جائے تو مختلف مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعریف متعین کی ہے، مگر حتمی طورپر ایک تعریف جس پر تقریباً سب متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ "آرٹ انسانی جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کاایک راستہ ہے۔" روس کا کلاسیکی ناول نگار "لیوٹالسٹائی" آرٹ کی تعریف بھی انھی معنوں میں کرتا ہے۔ ارسطو اپنی فلاسفی میں آرٹ کو ایک اچھی نقل سے تعبیر کرتا ہے۔ جرمنی کا عظیم فلاسفر"مارٹن ہائی ڈیگر" آرٹ کو ایک ایسا طریقہ مانتا ہے، جس کے ذریعے کوئی اپنا آپ دوسروں تک پہنچائے۔"

آرٹ کے بغیر ایک لمحے کے لئے بھی ہم دُنیا کا تصور کریں تو وہ ایک بے رنگ دُنیا ہو گی۔ ایک غیر انسانی اور کٹھن دُنیا۔ یہ لوگوں کی بے رنگ زندگی میں رنگ لاتا ہے اوران کی جمالیاتی حسن کو تسکین پہنچاتا ہے۔ لوگوں کو یہ ادراک کراتا ہے کہ ایک ایسی زندگی بھی ہو سکتی ہے کہ جو اس سے بہتر ہو۔ فائن آرٹ کی تاریخ قدیم دور میں اس کی جڑ ہے۔ اب بھی دُنیا کے مختلف حصوں میں غاروں کی دیواروں پر نئی ڈرائنگ کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر میں Altamira کے غار اسپین، Niah گفاوں، ملائیشیا اور دیگر میں عام طور پر رنگائی جیسے کوئلہ یا گیرو رال بائنڈر، کے ساتھ ملا رہے ہیں۔ مضامین تنوع مختلف نہیں تھا۔ ان میں سے بیشتر شکار کے مناظر، handprints کے جانوروں کی تصاویر وغیرہ تھیں۔

ایک آرٹسٹ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور اسکے اثرات سے باہر نہیں ہوتا۔ آرٹسٹ پر بھی اردگرد کا ماحول، کلچر، اس کے سماجی رشتے اثرانداز ہوتے ہیں۔ 1917ء کا انقلاب آرٹ میں بھی انقلاب تھا جہاں تمام فنون لطیفہ کو زبردست ابھار ملا تھا۔ انقلاب کے دنوں میں عوامی شعور میں ایک جست آتی ہے اور وہ خود کو انسان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں اپنی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ سماج سے خود غرضی، لالچ اور بیگانگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور صحیح معنوں میں انسانی کلچر کا آغاز ہوتا ہے۔ قدیم سماج میں آرٹ کو انسانی ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا تھا۔

ایک آرٹسٹ اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی پینٹنگ، مصوری میں معاشرہ کا عکاس پیش کرتا ہے۔ چونکہ کیمپوٹر، پینافلیکس نے آرٹ کو بھی متاثر کیا اور اب ہم فلسفہ اور آرٹ پر بات کرنا بھی ایک بے کار اور احمقانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس میں میں کوئی شک نہیں، ٹیکنالوجی فن طرف نظر انداز نہیں کر سکتا۔

ماضی میں، آرٹسٹ صرف ایک برش تھا اور تخلیقی صلاحیتوں کے لئے آپ کے اپنے تخیل اور محبت پینٹ آج، ویڈیو اور آڈیو کے وسائل، کیمرے زبردست معیار اور لامحدود ڈیجیٹل تصویر ٹیکنالوجی کے تخلیق کاروں کی خدمات ماضی میں، مورتکار اپنے شاہکار تخلیق کرنے کے لئے سال لگ گئے۔ آج، ایک 3D پرنٹر اور کمپیوٹر پر ایک خاکے ڈیزائن کرنے کی صلاحیت کے ساتھ اسے کچھ دنوں کے لے جائے گا۔ اس کے بجائے سیاہ اور سفید فلموں کے، ہم ہماری تصویر پر یقین کرتا ہے جو ایک روشن، متاثر کن گرافکس اور اینیمیشنز ملتے ہیں۔ جدت نے ایک طرف تو آسانی مہیا کی، تو دوسری طرف آرٹس کا شعبہ زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے ساتھ انسان کی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ گئی ہیں۔ ہمیں آرٹ اور آرٹسٹ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، یہ ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔