1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. غربت کا عالمی دن !

غربت کا عالمی دن !

غربت کے خاتمے کا دن 1993ء سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے عالمی سطح پر منانے کا مقصد دُنیا بھر میں عدمِ مساوات، غربت، محرومی، غریب عوام کی حالتِ زار، ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ ماہرینِ معاشیات کے مطابق خطہِ غربت کا معیار کم از کم روزانہ 1.5 ڈالر کمائی مقرر کیا گیا ہے جس کے مطابق ماہانہ 4.5 ہزار کمانے والے افراد خطہِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر نے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہر سال غربت کے خاتمے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے آج بھی دُنیا میں غریب افرادکی تعداد دو ارب سے متجاوز کر چکی ہے۔ دُنیا کی مجموعی آبادی میں تقریباً دس فیصد انسان ایسے ہیں جو انتہائی زیادہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق براعظم ایشیاء اور افریقہ سے ہے۔ دُنیا میں ستر کروڑ انسان غربت کی نچلی ترین سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خطہِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان سے کہیں زیادہ غربت ہے۔ بنگلہ دیش میں غربت کی شرح 76 فیصد جب کہ بھارت میں 68 فیصد ہے۔ پاکستان میں 6 کروڑ افراد خطہِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ وطن عزیز میں غربت کی شرح کچھ یوں ہے : 2001-02 ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق شرح غربت 34.7 فیصد، 2004-05میں 23.3فیصد، 2005-06 میں 21.9 فیصد، 2007-08 میں 16.5فیصد، 2010-11میں 12.2فیصد، 2011-12میں 12.4اور 2013-14میں 9.3فیصد تھی۔ اور اب دس میں سے ایک فرد غربت کی زد میں ہے۔ بمطابق رپورٹ غربت کی سب سے زیادہ شرح فاٹا، بلوچستان میں ہے۔ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 جب کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فیصد ہے۔ قبائلی علاقہ جات فاٹا 73 فیصد، بلوچستان 71 فیصد، بلوچستان کا علاقہ برکھان 90 فیصد، کے پی کے 2.49فیصد، سندھ 43.1 فیصد، پنجاب 31.4 فیصد، کراچی اور اسلام آباد 10فیصد، گلگت بلتستان 24.3فیصد، کشمیر 25فیصد افراد غربت کا شکار ہیں (نئے طریقہ کار کے تحت 2013-14میں غربت کی شرح 29.5، جب کہ 2001 میں شرح غربت 64.3تھی)۔ اور پھر 26 فیصد آبادی کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، کثیر الجہت غربت رپورٹ (جس میں آمدن معیارنہیں، بلکہ تعلیم، صحت اور زیست کی بنیادی سہولیات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے) کے مطابق غربت کا شکار افراد میں 43فیصد افراد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں، 32فیصد افراد غیر معیاری زندگی گزار رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی 20 فیصد، دیہی علاقوں میں 33 فیصد غربت کا شکار ہیں اس طرح ملک کے 76 لاکھ گھرانے غریب قرار پاتے ہیں (پرانی تعریف کہ تحت یہ تعداد 30لاکھ تھی )علاوہ ازیں 2 کروڑ ایسے افراد ہیں جو غربت کے قریب تر ہیں کوئی بھی سانحہ انہیں خطہِ غربت کی نچلی سطح پر دھکیل سکتا ہے۔ 2007 ء سے 2013کے دوران وطنِ عزیز کی سالانہ نمو میں نچلے طبقے کی 40 فیصد آبادی کی اوسط کھپت 8.1 فیصد جبکہ مجموعی آبادی کی اوسط کھپت 2.53 فیصد رہی۔ 2013 میں ہونے والے قومی غذائی سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اور اس میں 50 فیصد بچے اور خواتین باقاعدہ گذائی قلت سے دو چار ہیں۔ اور پھر یو این ڈی پی کے کثیر الجہتی غریت انڈیکس کے مطابق پاکستان میں مناسب معیارِ زندگی، صحت، تعلیم اور دوسری بنیادی سہولیات کے تناظر میں شدید غربت کی شرح تقریباً 44 فیصد ہے اس طرح ورلڈ بنک کے 2014کے سروے کے مطابق 60.19 فیصد آبادی خطہِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے اس میں21.4 فیصد آبادی شدید غربت کی لپیٹ میں زندہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 60.6 فیصد آبادی کو کنگ آئل سے محروم، 48.5 فیصد بچے سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکتے، 39فیصد (دس میں سے ایک) افراد کے پاس جائیداد نہیں، 38 فیصد سے زائد آبادی ایک کمرے کے مکان میں مکین، 2.5کروڑ بچے سکول جانے سے ہی محروم، اس کے علاوہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کے لحاظ سے ہمارا تیسرا نمبر ہے پاکستان میں 2010 میں یہ شرح 73.5 فیصد تھی جو 2015 میں 65.8 فیصد ہو گئی۔ جب کہ بھارت میں 2010 میں ہر 1000پیدائش میں سے 46.3 فیصد بچے مر جاتے تھے اور 2015 میں یہ شرح کم ہو کر 37.9 تک ہو گئی۔ پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھوتی ہیں، ایک تہائی آبادی صحت کی سہولیات سے محروم۔ ہمسایہ ممالک کے تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستان میں غریب طبقے کی قومی نمو 04 فیصد سے زائد ہے۔ چین 8 فیصد شرح نموکے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ جب کہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں ہے جہاں غریب طبقے کی آمدنی اوسط سے بھی کم رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ بمطابق اعداد و شمار 21.25 فیصد بھارتی عالمی بنک کی مقررہ کردہ خطہِ غربت کے دہانے یا اس سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں یہ شرح 8.3 فیصد ہے۔ 58 فیصد بھارتی شہریوں کی یومیہ آمدن 3.10 ڈالر ہے۔ جب کہ وطنِ عزیز میں یہ شرح 45 فیصد ہے۔ بھارت میں خواتین اوسط عمر 69.49 سال اور پاکستان میں 67.15سال ہے۔ سال 2011کے تک اعداد و شمار کے مطابق 59.2 بھارت کی لڑکیاں خواندہ، جبکہ پاکستان میں یہ شرح 41.9 ہے۔ خوراک کی کمی بھارت میں کل آبادی کا 15.2 فیصد حصہ خوراک کی کمی کا شکار تھی جب کہ پاکستان میں یہ شرح 22 فیصد تھی۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں 2008 سے 2013ء کے دوران عدمِ مساوات میں کمی دیکھی گئی۔ عدمِ مساوات کا اندازہ لگانے والے انڈیکس (Gini Index)منفی 2.4 فیصد تک کم ہوا۔

وطنِ عزیز میں امُ المسائل معیشت کا عدمِ توازن، بے روزگاری، مہنگائی، ناخواندگی ہیں ان وجوہات کی بناء پر وطنِ عزیز میں غربت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کیونکہ کرہ ارض میں سب سے زیادہ غربت ان ممالک میں ہے جو تنازعات کا شکار ہیں یا پھر ان کا انحصار درآمدات پر ہوتا ہے۔ ہمیں آج غربت کے خاتمے کے عالمی دن کو عہد کرنا چاہیے کہ لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں ہنگامی بنیادوں پر کاوش کریں گے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔