1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. ہماری تہذیب اور نسلِ نو!

ہماری تہذیب اور نسلِ نو!

قومیں اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت کی بقا اور توسیع کیلئے بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ زیادہ تر لڑی جانیوالی جنگیں دُنیا میں اِسی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے بچاو یا پھیلاؤ کیلئے لڑی گئیں۔ کسی قوم کی بقا اور عظمت اس کی تہذیب و ثقافت کی بقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ دُنیا کی زندہ و غیرت مند قومیں اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سے محبت کرتی ہیں اور اسکے تحفظ کیلئے ہر طرح سے تیار رہتی ہیں۔ ہر قوم کی ایک مستقل شناخت ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ میدان میں جنگ میں ہارنے سے کئی گناء زیادہ شکست تہذیب و ثقافت میں ہار جا نا ہے۔ ہمارے اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے کے طریقے کیا ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ یہ سوال کوئی مابعد الطبیعاتی سوال نہیں، محض ایک قومی و معاشرتی سوال ہے۔ اس کا تعلق ہماری تہذیب سے ہے:تہذیب کا تعلق بھی اخلاقیات سے ہے۔ پھر اخلاقی قدروں کا براہ راست تعلق گھر کی تربیت سے ہوتا ہے۔ جو اقوام اپنے تاریخی ورثے کے زیر سایہ اپنی نسل نو کو پروان چڑھاتی ہیں، وہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہتی ہیں، کیوں کہ ہر قوم کی بقا و سالمیت اسی میں ہے کہ وہ اپنی روایات و اقدار اپنی نئی نسل کو درجہ بہ درجہ منتقل کرتی رہے۔ نسل نو ملک و بام عروج پر پہنچانے کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کے بھی وارث و محافظ ہوتے ہیں۔ ہم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ با شعور بھی ہیں، جدید ٹیکنالوجی کی دور میں بھی بڑی محنت و لگن سے آگے بڑھ رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی ضرور استعمال کریں لیکن اپنی درخشاں تاریخ، ثقافت، زبان و تہذیب سے آگہی بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے گھر، آس پاس کے ماحول یا بزرگوں سے اپنی تہذیب و روایات کے متعلق کچھ علم ہے؟۔ اگر نہیں تو جہاں باقی عوامل ہیں وہاں تربیت کا بھی بڑا عمل دخل ہے کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، جہاں وہ زندگی کا پہلا سبق سیکھتا، اخلاقی تربیت حاصل کرتا ہے، وہ جس ماحول میں آنکھ کھولتا، تربیت پاتا ہے، اس کا اثر بچے کی سوچ و شخصیت پر بھی ضرور پڑتا ہے۔ بڑے، چھوٹے میں تمیزی، بات کرنے کے اسلوب وہ اپنے والدین کی عادات و اطوار ان کی حرکات و سکنا ت کو اپنانے کی کوشش کرتاہے۔ والدین جیسا ماحول مہیا کرتے ہیں، اس کی شخصیت اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ وہ جس سانچے میں اپنی اولاد کو ڈھالیں گے، وہ ویسے میں ڈھل جائیں گے۔ اگر نوجوان اخلاقی پستی کا شکار ہیں، تو اس حوالے سے والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ شروع ہی سے اپنی اولاد کو ایسی تربیت دیں، کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اطوار کے مالک ہوں۔ کھانے پینے کے آداب، بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ، پڑوسیوں کے حقوق، اپنی تہذیب و تمدن وغیرہ کے بارے میں، انہیں اچھی طرح سمجھانا چاہیے، پھر والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ نسلِ نو کی اخلاقی تربیت کریں، انہیں صرف درسی تعلیم نہ دیں، بلکہ اپنی تہذیب و تمدن اور روایات سے بھی آشنا کرائیں۔ استاد کی صحبت کسی بھی انسان کی زندگی بدل سکتی ہے، ایک استاد بچے کی کردار سازی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اساتذہ سے صرف درسی تعلیم ہی نہیں حاصل کی جاتی بلکہ وہ اخلاقی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات کا طلبہ پر گہرا اثر ہوتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ استاد کو اپنا کردار اور شخصیت ہمیشہ مثالی رکھنی چاہیے۔ آج نوجوان تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب گھر میں ساز گار ماحول نہیں ملتا، تو وہ انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنی اقدار و تہذیب کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔ نسل نو تک ہماری روایات و اقدار و تہذیب منتقل ہی نہیں ہو رہیں۔ نوجونوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں، کچھ دیر گھر کے بزرگوں و بڑوں کے ساتھ گزاریں، ان کے تجربات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے اطوار سیکھیں، اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ بڑوں یا اساتذہ کی ڈانت کو غنیمت جانیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں ہماری ثقافت، ہماری پہچان ہے۔ ہم وہی قوم ہیں جن کی راہبر اعظم ﷺ نے ظلم و ستم کے پہاڑوں کے ٹوٹنے کے باوجود بھی اخلاق کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ آج ہم کیوں ایک دوسرے کے دست و گریبان ہیں، ہمارے اختلافات ہماری دشمنی کا باعث کیوں ہیں؟معاشرہ میں بدامنی، عدم برداشت، ادب احترام کیوں نہیں، دراصل یہ اپنی تہذیب سے دوری ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنا ہر فرد بالخصوص نسلِ نو کی ذمے داری ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر کلی طور پر پابندی لگانے کے بہ جائے، اس کے مثبت استعمال کے فوائد اور منفی استعمال کے نقصانات بتائیں، نوجوانوں سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرنے کے بہ جائے، ان کے لیے خود وقت نکالیں، کیوں کہ یہ ان کے مستقبل کا سوال ہے اور اپنی روایات و تہذیب کو اسی صورت نسل نو میں منتقل کیا جا سکتا ہے، اگر ایسا نہیں تو نئی نسل جدید تہذیب کے سیلاب میں بہہ جائے گی اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوں گے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا۔ معاشرے اسی تہذیب وتمدن کی بنیاد پر اپنے حال اور مستقبل کو سنوارتے ہیں۔ ہم دور ِحاضر میں ہمارے پاک و صاف معاشرے کو گھٹن زدہ ماحول تصور کیا جارہا ہے۔
ہم نے تہذیب وتمدن کو شاید رقص وموسیقی اور مختلف رنگوں کا لباس پہننا ہی سمجھ لیا ہے۔ چند رسموں کو ہم تہذیب کا نام دیتے ہیں جو ہم نے کچھ انگریزوں اور زیادہ تر ہندوؤں سے سیکھی ہیں، جب کہ ہمارے دین اِسلام نے جو تہذیب کا درس ہمیں دیا ہے اس میں تو دین و دُنیا دونوں ہی کا امتزاج موجود ہے۔ آج کے دور میں ہم ان طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جو کبھی ہمارے بزرگوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں کیسے بات کرنی ہے کیسے عدم برداشت ہو گئی؟ آداب ِ زیست کیا ہیں ہمیں یکسر بھول گئے۔ ہم نے مغربی معاشروں کو ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور وہاں پھیلی ہوئی روشن خیالی کے دلدادہ ہو گے۔ انہوں نے اپنے متعین کردہ اصولوں میں بہت محنت کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے اقدار میں شب و روزمحنت کرتے اور دُنیا کو باور کرواتے کہ ہماری اپنی ایک بہترین تہذیب ہے۔ لیکن ہم نے بے حیائی اور بے باکی میں ان کے ہم پلہ ہوگے۔ جس کی وجہ بے حیائی ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کرچکی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کررکھی ہے۔ جس سے ہمارے معاشرے میں پچھلے دوتین سال میں بہت تبدیلی آئی ہے جسے خوش آئند ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ جن کے نتائج بھی کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یعنی کہ کوئی بھی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے۔
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج، مغرب کی راہ طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے۔
آج ہمارے لیے سب سے اہم اپنی شناخت کو بحال رکھنا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اس وقت ضروری یہ نہیں کہ ہمارا اسٹیٹس اور معیار مغربی ثقافت سے کم ہو رہا ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہماری تربیت اور اپنائیت جس سے مغرب محروم ہے وہ ہمیں اپنی تہذیب و تمدن میں ہی ملے گی۔ وہ خوشبو جسے ہم ایک عرصے سے بھولتے آرہے ہیں وہ ہمیں اپنی ہی ثقافت سے ملے گی۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے مسلمانوتمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ہمیں چاہیے کہ ہمیں دین اسلام نے جو تہذیب سکھائی ہے اسے جاننے اور اپنانے کی کوشش کریں اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ اسی صورت میں ہماری بقا ہے۔ ہماری تہذیب کا فرق دُنیا کے ہر پلیٹ فارم پر کھڑے واضح نظر آنا چاہیے۔ تہذیب اور ثقافت کا فروغ کے لیے اُردو زبان کے نفاذ کی طرح ہر میدان میں ہماری تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی بھی اشد ضرورت ہے۔
لیکن ہم من حاصل قوم اس شناخت سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر قوم کو دیگر تہذیبوں کا خوشنما اور میٹھا زہر پلایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اپنی ثقافت اور اخلاقی قدروں سے ناآشنائی اور دوری بڑھ رہی ہے۔ جو یقینا ہماری تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔