6 نومبر 1947ء کا دِن ریاست جموں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے بہت اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ یہ دِن پُورے آزاد جموں کشمیر پاکستان اور پُوری دُنیا میں اُن شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جنہوں نے نومبر کے اوائل میں اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کیں۔ اور یوں پوری دُنیا کو بتایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو اسلامیاں جموں و کشمیر نے بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 19 جولائی کو مسلم کانفرنس نے ریاست کے پاکستان کیساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی اور 15 اگست کو ریاست کے ہر شہر اور قصبہ میں چراغاں کیا گیا۔ جموں اور سرینگر میں پاکستان کے شہدائیوں نے جلوس نکالے اور " نعرہ تکبیر، اللہ اکبر۔ نعرہ رسالت ﷺ، یا رسول ﷺ پاکستان زندہ باد " اور "قائد اعظم زندہ باد " کے علاوہ "کشمیر بنے گا پاکستان " کے نعرے بلند کئے اس جوش و خروش کو دیکھ کر ہندو اور ڈوگرہ حکومت لرز گئی اور اس نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ چنانچہ اودھم پور، ریاسی، کھٹٰعہ، رام سو، رام نگر، یانیہاورکوٹلی غرض یہ کہ ہر قصبہ کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ ہزاروں دیہاتی باشندوں کو دھوکہ اور فریب سے گھروں سے باہر نکال کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ ہزاروں عفت مآب بچیوں اور خواتین کو اغواء کیا گیا۔ یہ قتل عام اتنی منظم سازش سے ہوا کہ جموں اور سرینگر میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور یہاں تک ہوا کہ جب نومبر کے ابتدائی دنوں میں جموں میں قتل عام ہوا تو سرینگر میں کسی کو علم نہ ہو سکا۔
پاکستان کے عشق میں دیوانے مسلمان اپنے آباء و اجداد کی وراثتوں کو چھوڑ کر پولیس لائن جموں میں پہنچ گئے۔ یہ لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے۔ اس اثناء میں 5 نومبر کو ایک قافلہ تیار کیا گیا۔ مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کھٹوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کیلئے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دہرائی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیا اور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔ 7 نومبر کے قافلہ میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے "نازیت" کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جموں کے معززین کی کثیر تعداد جامع شہادت نوش فرما گئی۔ ہزاروں بچیوں کو اغواء کر لیا گیا۔
اس قتل عام کو برطانوی روزنامہ "دی ٹائمز لندن" نے رپورٹ کیا۔ اخبار کے مطابق جموں میں 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن اسٹیفن نے اپنی کتاب میں قتل عام کی تفصیل لکھی۔ ان کے مطابق 1947 کی خزاں تک 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ صحافی ہوریک الیگزینڈر نے اس قتل عام کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا "جموں کے مسلمانوں نے پاکستان میں شمولیت کےلیے اپنی دولت، رشتے دار، زندگی اور جذبات سب قربان کردیا۔"
برطانوی مورخ ایسٹر لیمپ نے اپنی کتاب میں لکھا "ہندوؤں اور سکھوں کے خونی جتھے جموں میں داخل ہوگئے، جنہوں نے وحشیانہ قتل و غارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان) کی طرف دھکیل دیا۔"
مسلمانوں کے قتل عام کےلیے حکومت اور بلوائیوں نے انتہائی دردناک طریقہ اختیار کیا۔ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور اور ریاسی میں مسلم آبادی کو ختم کردیا گیا۔ مختلف تاریخی کتابوں کے مطابق جموں کے 123 دیہاتوں میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی۔ آر ایس ایس کے قاتلوں سمیت، دیگر ہندو انتہاپسندوں نے ضلع کٹھوعہ میں پچاس فیصد مسلمانوں کو شہید کردیا۔ ریاسی 1947 کا بوسنیا تھا، جہاں 68 فیصد مسلمان آباد تھے۔ اس ضلع کے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا۔ رام نگر میں گجر برادری سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا جبکہ رائے پور گاؤں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔
جموں کے نواحی علاقوں بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہوچکا تھا۔ لیکن جموں میں مسلمانوں کا سب سے خطرناک قتلِ عام 4 نومبر 1947 کو بھارتی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل، وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ کے دورہ جموں کے بعد ہوا۔ کشمیری قیادت کا کہنا ہے کہ جموں میں قتل عام کی اصل سازش انہی کرداروں نے خود رچی تھی۔
جموں کے دیہات میں جو ظلم و ستم ہوا وہ ہندوئوں کی بربریت کا زندہ ثبوت ہے۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر لیا گیا تھا اور دیہات کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، ریاستی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی میر پور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکاتھا۔ رد عمل تھا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہتھیار سنبھال لئے اور ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور میدان کار زار میں نکل پڑے اور مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ 20 اکتوبر 1947ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزر مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ قتل عام اتنا درد ناک اور خوفناک تھا کہ پنڈ تجواہر لال نہرو وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ مجھے دلی افسوس ہے اور اس حادثہ میں حکومت ہند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ سب کچھ بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا تھا اور بھارت کی پالیسی کے مطابق خونی ڈرامہ رچایا تھا۔ آج جو کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے وہ بھی کسی فساد جموں کشمیر سے کم نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر کا حل اس وقت ہی ممکن ہے جب اس وقت مسئلہ کے تینوں فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت مل بیٹھ کر اس کا آبرو مندانہ حل تلاش کریں۔ لیکن بھارت "میں نہ مانوں " کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت کی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کو لٹکایا جائے اور اس دوران کشمیری عوام کو مجبور کر کے کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔ گزشتہ 67 برسوں میں بھارت نے کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کیے لیکن اسکے ساتھ اٹوٹ انگ کی رٹ بھی لگائے رکھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے بین الاقوامی اور خود کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائیگا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بھارت کے موقف میں تبدیلی آتی گئی۔ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن اس وقت ممکن ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان اس دیرینہ تنازعہ کو حل کیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو اس خطہ میں امن و سلامتی اور استحکم کا امکان ممکن نہیں۔