ذہانت و فطانت، لئیق و فئیق، تفہیم و تدریک، قابلیت و لیاقت، مائیگی و آمادگی ہرچند کسی کا ذاتی کمال نہیں سب منجانب اللہ تعالیٰ ہے جب، جیسے، جسے جتنا چاہے ودیعت کر دے مخزن العطاء، منبعِ فنونِ لطیفہ، کنز التوقیر فقط بارگاہِ الوہیت کی زیبا اور نصِ قطعی وتعز من تشاء کے مصداق ہے۔ الا ماشاء اللہ کسی کو تیقّن سے کلیتاً ادراک ہو کہ زیست کے کس لمحے کہاں کیسے اور کس سے ملاقی ہو جائے گا یہ محض حُسنِ اتفاق ہے خونی جبلّتیں ہی محض رشتے نہیں ہوتے بلکہ باہمی یا انفرادی یکطرفہ تعلق بھی قائم ہو جاتے ہیں جو محبت، سچائی، تعاون، اخلاص اور بے لوثیت سے بھی قائم ہو جاتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ تعلق وہی بچتا ہے جو تفاہم، اعتماد و اعتبار، احترام کے باریک دھاگے کے انسلاک اور ہم آہنگی کی ڈوری سے بندھا ہو۔ راقم الحروف کو آزاد کشمیر کے مایہ ناز شاعر، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ناز مظفر آبادی سے دوسری مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُنہوں نے اپنی نئی شائع ہونے والی کتاب بعنوان "حاصلِ عشق" بطورِ ہدیہ عطاء فرمائی۔
اس سے قبل ان کی کتب بہار آنے تک، دسترس، سرگوشی، ہم سخن، حرف آشنا، اُسے کہنا، اورفاصلہ، شائع ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں ان پر پاکستان اور آزاد کشمیر کی جامعات میں متعدد مقالہ جات بصورت کتب شائع کئے جاچکے ہیں اور کئی زیر کار ہیں۔ ان پر مختلف جامعات میں لکھے گئے مقالہ جات میں"ناز مظفر آبادی۔ حیات و فن" مقالہ ایم فل، اسکالر: شبانہ کوثر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد"۔ ناز مظفر آبادی کا شعری اسلوب "مقالہ ایم فل، اسکالر: اویس منیر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، "ناز مظفر آباد ی کی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ"(مقالہ ایم اے) "اسے کہنا اور دسترس" کے تناظر میں، اسکالر: ناصرہ، شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی، پشاور، "ناز مظفر آبادی کی غزلیات کا فکری و فنی مطالعہ" (مقالہ۔ بی ایس)"فاصلہ" کے تناظر میں، اسکالر: آمنہ پرویز، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ہری پور، "ناز مظفر آبادی کی شاعری میں نفسیاتی شعور"، پروفیسر ڈاکٹر راحیلہ خورشید، شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی، پشاور، (کتاب شائع)، "ناز مظفر آبادی کی غزل میں علامت سازی"(کتاب شائع)، پروفیسر اخلاق حیدرآبادی، فیصل آباد، "ناز مظفر آبادی کی شاعری میں مرکب افعال کا استعمال" تحقیقی و تنقیدی جہات(کتاب شائع)، اسکالر: عابدہ نسیم عابی، فیصل آباد۔ "کشمیر میں اُردو ادب اور طنز ومزاح" (مقالہ ایم فل) ناز مظفر آبادی، تعارف اور کلام، پروفیسر فرزانہ ناز، گورنمنٹ گرلز کالج حویلی کہوٹہ آزاد کشمیر(کتاب شائع)، آزاد کشمیر میں حمدیہ اور نعتیہ مطالعہ"(مقالہ پی ایچ ڈی)، ناز مظفر آبادی کا حمدیہ و نعتیہ کلام مقالے کا حصہ، اسکالر: ڈاکٹر میر یوسف میر، ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرہ، "مشرقِ وسطیٰ میں اُردو شاعری کا ارتقا" (مقالہ پی ایچ ڈی) (ناز مظفر آبادی مقالے کا حصہ)، اسکالر: غلام مصطفے ٰگورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، اس کے علاوہ "یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر، مظفر آباداور شہید بے نظیر وومن یونیورسٹی، پشاور"میں اسکالرز(سارہ خورشید اور ناصرہ) ایم فل کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔
پی ایچ ڈی سطح پر مقالہ جات لکھے جانے والی شخصیت کی کتب نسلِ نو کے لئے کس قدر مفید ہوں گی؟ یہ ایک عام فہم سی بات ہے، چونکہ "جو لوگ تصنیف کے درد سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کلام میں لذت اور مقبولیت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ایک ایک لفظ میں خونِ جگر کی چاشنی نہ ہو۔ "(حیاتِ سعدی صفحہ 73)۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کتابیں انسان کو کبھی بھی مرنے نہیں دیتیں۔ انسان کے لئے بطورِ صدقہ جاریہ ہیں۔ جس قدر مخلوقِ خدا اس علم سے فیض یاب ہوگی اس قدر انسان کے لئے ذریعہ بخشش ہوسکتا ہے۔ ناز مظفر آبادی کی جملہ کتب میں انہوں نے اُمت کا درد بصورت اشعار قلم بند کیا ہے۔ فلسطین، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بھی خوبصورت اندازِ میں بیان کیا۔
ان کی نئی کتاب "حاصلِ عشق"شائع ہوئی ہے اُنہوں نے اس میں کس خلوص وجذبے کے ساتھ شہنشاہِ مدنیہ، قرارِ قلب وسینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزول سکینہ، رحمت کونین ﷺہدیہ عقیدت پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مشام جاں مُعطر ہے، یہ دولت ساتھ رہتی ہے
"عجب خوشبودرددوں کی بدولت، ساتھ رہتی ہے"
نبی ﷺسے جو محبت ہے، فنا سے ماوراہے وہ
کہ انساں مر بھی جائے تو محبت ساتھ رہتی ہے
جب ان کا نام آئے تو درو دِ پاک پڑھتا ہوں
کوئی موسم، کوئی رُت ہو یہ عادت ساتھ رہتی ہے
سدا آباد رہتا ہے، مرا دِل ذکرِ احمد ﷺسے
میں جس مجلس میں بھی جاؤں، یہ برکت ساتھ رہتی ہے
پوری کتاب ایک ایک لفظ رحمت العالمینﷺ سے اظہارِ محبت ہے۔ ہم ایسی کتابوں، شخصیت سے دوری کے باعث اپنا مقصدِ حیات ہی بھول بیٹھے۔ دونوں جہاں کا بہترین رہنما قرآن، رحمت العالمین ﷺکی سیرت ہمارے پاس موجود ہیں اس کے باوجود ہم غیروں کی تقلید کر رہے وہ بھی ان کی، جن کی طرف جاتے سورج بھی غروب ہوتا ہے۔
پاکستان اور آزاد کشمیر میں آج بھی ایسی شخصیت موجود ہیں جن سے رہنمائی لے جاسکتی ہے۔ کتاب ایک بہترین کاؤش ہے۔ کتاب دوستی اُمت مسلمہ کا ورثہ ہے۔ آج غیروں نے یہ راستہ اختیار کیا، کامیاب ہوئے، ہمیں کتابوں کی دوری نے تنزلی کی طرف دھکیلا۔ نپولین بوناپارٹ کہا کرتا تھا "تم مجھے کتابوں سے محبت کرنے والا خاندان دکھاؤ میں تمہیں دُنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ دکھاؤں گا"۔
اللہ کریں ہمیں بھی کتاب بینی کا شوق پیدا ہو، ہمیں بھی اپنی اسلامی تاریخ کا علم ہو۔ اس میں دورائے نہیں کہ ایک امُتی کے لئے رحمت العالمین ﷺ محبت سے بڑھی کوئی دولت نہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ میدانِ محشر جب یہ پوچھا جائے گا کہ بتا ہمارے لئے کیا لایا ہے؟ تو اس کا جواب کیا ہوگا۔ ناز مظفر آبادی نے اپنی کتاب میں کیا ہی خوب لکھا ہے:
حاصلِ عشق ہے یہی آقا
ہدیہِ نعت لے کر آیا ہوں
نعت کہنے کی ہے مجال کہاں
اشک آنکھوں میں بھر کے لایا ہوں