جعلی ادویات کا کاروبار ملک میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ایڈز، کینسر، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی جیسے مہلک امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 50 فیصد ادویات جعلی ہیں اور غلط نسخوں پر بنائی جا رہی ہیں، معصوم اور غریب عوام اپنا حق حلال کا پیسہ ان جعلی ادویات کی مد میں اپنے لئے موت کا سودا کررہے ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہر سال ہزار ہا انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتار رہا ہے۔ پیسوں کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیلا جاتاہے۔ کیپسولز کے اندر گندم یا میدے کا آٹا اور سیرپ کے نام پر رنگین پانی فروخت کیا جاتاہے۔ مریض کو درجنوں گولیاں کھانے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کی کم سہولتوں کے حوالے سے پاکستان سب سے پسماندہ ملک ہے جہاں ادویات اور غذاکی قلت کے باعث روزانہ1184بچے وفات پا جاتے ہیں 45 فیصد بچوں کی اسی وجہ سے ذہنی اور جسمانی گروتھ مکمل نہیں ہو پاتی اور وہ وقت سے پہلے ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ وطن عزیز جہاں غذا تعلیم، رہائش، ہر طرح کی آلودگی، صاف پانی کی عدم فراہمی سمیت دیگر بہت سے بنیادی مسائل زندگی کو مسرت اورراحت فراہم کرنے کی بجائے ساری عمر روزی روٹی پوری کرنے والا جانور بنا دیتے ہیں وہیں پر حیرت انگیز طور پر صحت کے حوالے سے جنم لینے والی بیماری کے علاج پر پاکستان کا ہر شہری اپنے آمدن کا اوسطاً 37فیصد ادویات کی خرید اری اور ڈاکٹرز کی فیسوں کی مد میں ادا کر دیتا ہے۔ ایک طرف مہنگائی نے غریب کا علاج خواب بنا دیا تو دوسری طرف مہنگی اور جعلی ادویات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ زکام بخار کے لیے بھی ہزاروں روپے کے ٹیسٹوں نے کئی زندگیاں اجیرن بنا کر رکھی دی۔ ہرپاکستانی 80 فیصد صحت اور 70 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ صحت ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی تاجر کیلئے انتہائی اہم اور پُرکشش ہے۔ اگر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہے تو جائز طریقے سے اس میں سرمایہ کاری کرنا نہ صرف فائدے کا کام ہے بلکہ یہ سرمایہ کاری احسن بھی ہے مگرہم اس شعبے کو عبادت سمجھتے ہیں اور نہ دین کا حصہ بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس شعبے سے زیادہ سے زیادہ کمایا جاسکے، خواہ وہ قانونی طریقے سے ہو یا غیرقانونی طریقے سے۔ دُنیا میں ادویات بنانے کی صنعت میں سالانہ1.4ٹریلین یعنی 1400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ ما ہرین کا خیال ہے کہ اس میں 400 ارب ڈالر کی دوائیاں دو نمبر یا جعلی بکتی ہے۔ صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دُنیا میں 35 سے لیکر 40 فیصد ممالک میں ڈرگ ریگولیٹری ادارے نہیں۔ سی این این کے مطابق پاکستان کی مارکیٹوں میں جعلی گولیاں، کیپسول اورہر قسم کی بیماریوں کے سیرپ ملتے ہیں۔ سی این این نے ایک سروے کیا اور ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جعلی ادویات کی تیاری اور بنانے میں ملوث تھے۔ سی این این کے مطابق ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ورکشاپوں میں دوائیوں سے متعلق ہر چیز بنا سکتے ہیں۔ صحت کے عالمی ادارے کے مطابق جعلی ادویات ہر سال دس لاکھ اور بعض ذرائع کے مطابق 20لاکھ لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ سال 2012میں لاہور کے ایک ہسپتال میں جعلی ادویات کے استعمال سے 120مریض لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ادویات سے جن 120افراد کی موت واقع ہوئی تھی ان ادویات میں مرکری، آرسینک اور کیڈمیم کی زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ پاکستان میں 50فیصد ادویات جعلی اور سب سٹینڈرڈ ہیں۔ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں ادویات کی 4ہزار لائیسنس شدہ فارمیسی ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ غیرقانونی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دُنیا میں بچوں میں 72ہزار سے لیکر 2لاکھ تک نمونیا سے اموات ان اینٹی بائیوٹک سے ہوئیں جن کا اثر کم تھا۔ مزید کہا گیا ہے کہ افریقہ میں ایک لاکھ 18ہزار اموات ملیریا کی دونمبر دوائی سے ہوئیں۔ اگر ایک طرف ادویات جعلی ہیں تو دوسری طرف ڈرگ انسپکٹر ادویات چیک نہیں کرتے۔ انٹیلی جنس بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 131ڈرگ انسپکٹروں میں 64جعلی دوائیوں کے بزنس میں ملوث تھے۔ پنجاب کے مختلف ہسپتالوں سے اگست 2017سے اپریل2018 تک ادویات کے نمونے لئے گئے اور لیبارٹری بھیجے گئے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق ان میں مختلف امراض اور سرجری سے متعلقہ 80فیصد ادویات جعلی تھیں۔ پاکستان میں جو ادویات بنتی ہیں ان کا میٹریل اکثر وبیشتر انڈیا، چین اور اس طرح کے دوسرے ممالک سے لیا جاتا ہے جو اچھا نہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں دونمبر دوائیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹر کو دی جاتی ہیں اور وہی یہ دوائیاں پرچون فروش کو دے کر اس میں بہت پیسے کما لیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے پشاور کے کارخانوں سے دھڑا دھڑ جعلی دوائیاں ملک اور صوبے کے مختلف شہروں میں سپلائی کی جاتی ہیں اور اسی طرح دونمبر دوائیاں مارکیٹ میں بکتی ہیں جو لوگ دونمبر یا جعلی دوائیاں کھاتے ہیں اس سے ان کے جسم میں ایسے مزاحمت پیدا ہوتی ہے جس کے بعد ان پر کسی اور دوائی کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ کئی ڈاکٹر حضرات دواساز کمپنیوں سے اپنا پراڈکٹ لانچ کرتے ہیں اور پھر وہ ڈاکٹر صبح سے لیکر شام تک وہی پراڈکٹ لکھ کر ڈھیروں پیسے کماتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دُنیا بھر میں جعلی وغیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دوسو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دُنیا میں جتنے بھی کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کرکے جتنا بھی منافع کمایا جاتا ہے، ان میں جعلی ادویات سے ہونے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، ان کی وجہ سے مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں اور کئی شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں بھی قائم ہیں۔ اور پھر کئی ایسی ادویات ہیں جو ان ڈاکٹرز کے سٹورز کے علاوہ کئی سے بھی نہیں ملتی۔ پاکستان میں دواسازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191ہے۔ ان میں سے صرف 20فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا بہترین نظام موجود ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں جو آبادی کے لحاظ سے دُنیاکا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چند حلقے تو یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ"رجسٹرڈ دوا ساز ادارے"ایسے بھی ہیں، جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر "دو دو کمروں کے گھروں"میں کام کر رہے ہیں۔ ایسی ادویات بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں۔ جو ڈاکٹر ایسا کرتے ہیں یا محض کسی خاص کمپنی کی تیار کردہ ادویات ہی مریضوں کے لیے نسخے میں لکھتے ہیں، انہیں بیش قیمت تحائف ملتے ہیں یا بیرون ملک دورے کرائے جاتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کی صورتحال ڈرا دینے والی ہے۔ ہسپتالوں کے باہر بہت ساری ادویات ہسپتال والی دی جاتی ہیں۔ اکثر کیمسٹ بھی کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹر سے ایسی دوائیاں لیتے ہیں جن میں ان کو زیادہ مارجن ہوتا ہے۔ یہاں کی دوائیوں میں اثر نہیں کیونکہ جو دوائیاں وہ بیرون ممالک سے لاکر استعمال کرتے ہیں ان کی کوالٹی کنٹرول اچھی ہوتی ہے۔ جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے، وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے، جس میں ہر کسی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں موت تو ہو سکتی ہے، زندگی نہیں۔ اس وقت ملک میں قریب 37ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، جن کے استعمال سے انسانی اموات کا تو کسی کو کوئی علم نہیں لیکن ان کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ یقینی طورپر اپنا خون نچوڑ کر پیسہ کمانے والے پاکستان کے سفید پوش اور غریب حلقوں کے لاکھوں پیاروں کو ہر سال موت کی نیند سلادیتے ہیں یا پھر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لا علاج مریض بنا دیتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو سنجیدہ لیتے ہوئے جعلی ادویات بنانے والی جعل ساز کمپنیوں کے خلاف سخت اور مؤثر اقدامات کریں اور نقلی ادویات کی رجسٹریشن کو منسوخ کی جائیں تاکہ لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں۔ ۔ ہر کمپنی کی دوائی واٹس ایپ، میسنجر اور موبائیل میسنجز کے ذریعے چیک کرنے کا نظام ہونا چاہئے تاکہ دونمبر اور جعلی ادویات کا تدارک کیا جائے۔ ادویات میں ملاوٹ اور دونمبر دوائی کی سزا موت مقرر ہونی چاہئے۔ کیونکہ ملک کی عزت، انسانی جانیں کمائی سے بہتر ہیں۔