کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر پر سب سے پرانا اور تاریخی مسئلہ ہے جو حل طلب معاملہ ہے جس سے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دُنیا کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
وادی ِکشمیر میں دھائیوں سے نہتے کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اور نجانے کب تک بہتا رہے گا۔ موسموں پر دسترس حاصل کرنے، چاند تک رسائی، دوسرے پر فتح حاصل کرنے اور سبقت لے جانے والے بھارت نے ایٹم بم تو بنالیا، لیکن مجبور مقہوراور مظلوم کشمیریوں کے بہتے ہوئے خون کا کوئی مداوا نہیں کرسکا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کے مشنز اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز کی جانب سے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جاتا رہا ہے اور امریکہ، چین، یورپی یونین سمیت متعدد عالمی قیادتیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش بھی کرچکی ہیں مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی سرا ہاتھ آتا نظر نہیں آرہا تھا۔ بھارت تو یقیناً مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کی روشنی میں حل کا روادار ہی نہیں جس نے کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی نیت سے ہی اس پر اپنا فوجی تسلط جمایا اور اسی کی بنیاد پر اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھا کر اسکی سلامتی تاراج کرنے کی بھی گھناؤنی منصوبہ بندی طے کی جبکہ مودی سرکار نے اس منصوبہ کی تکمیل کی جلد بازی میں ایسے اقدامات اٹھائے جس سے پاکستان اور کشمیر کے عوام ہی نہیں، پورے خطہ اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔
جب کہ کشمیراقوام متحدہ کی تاریخ کا سب سے پرانا حل طلب مسئلہ، تاحال حل طلب ہے اور کشمیری عوام تاحال نوحہ کناں ہیں۔
بھارت نے قیام پاکستان کے وقت ہی کشمیر کا تنازعہ کھڑا کر دیا اور تقسیم ہند کے فارمولا کی روشنی میں مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا بلکہ جواہر لال نہرو اپنا ہی پیدا کیا گیا مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچے تاہم یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور بھارت سرکار کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی مگر بھارت اپنی بدنیتی اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔
مکتی باہنی کے ذریعے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے کے داعی نریندر مودی اب باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یقیناً اسی گھناؤنی منصوبہ بندی کے تحت مودی نے اپنے پہلے دور اقتدار سے اب تک پاکستان بھارت سرحدوں پر کشیدگی میں کمی نہیں آنے دی اور مقبوضہ کشمیر میں بھی مظالم کے نئے ہتھکنڈے اپنا کر انہوں نے اپنا قصاب مودی والا چہرہ نمایاں کیا ہے۔ اب مودی سرکار نے ظلم کی حدود پلانگتے ہوئے یک طرفہ طور پر5 اگست 2019ء کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور اس کے ذیلی آرٹیکلز کا خاتمہ کر دیا ہے، بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار پوزیشن کو ختم کرکے بھارتی یونین میں مستقل طور پر ضم کردیاہے اور اپنے مقبوضہ حصے کا معاملہ مستقل حل کردیا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ 26اکتوبر 1947ء کا انڈیا اور مہاراجہ کشمیر معاہدہ، اقوام متحدہ کی 1948ء اور 1949 کی قراردادیں، 1952کا شیخ عبداللہ اور نہرو معاہدہ، 1957، پاک بھارت شملہ معاہدہ اوردیگر معاہدے ہیں۔
بھارت نے نہ صرف ان معاہدوں کی پامالی کی بلکہ خود ساختہ موقف اپنایا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندروانی معاملہ ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا اور پھر پاکستانی میڈیا نے بھارت کے حقائق سے پردہ چاک کر دیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداوں، سلامتی کونسل کے اجلاس کے علاوہ خود بھارت اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ بھارت کی آزادی کے 70 ویں سالگرہ پر نریندر مودی نے خود ہی کہا تھا کشمیر کا مسئلہ گولی یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے حل ہو گا۔ ہمیں کشمیر کے معاملے پر مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ کشمیر کی جنت کو ہم دوبارہ محسوس کر سکیں اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں۔ کشمیر کے سلسلے میں بیان بازی اور الزام و جوابی الزام کا سلسلہ بہت چلتا ہے۔ ہر شخص ایک دوسرے کو گالی دینے میں مصروف ہے اور مٹھی بھر حریت پسند طرح طرح کے پینترے اختیار کرتے رہتے ہیں۔ اس لڑائی کو جیتنے کے لیے ان کا ذہن بالکل صاف ہے اور ان کی حکومت کشمیر کو جنتِ ارضی کی حیثیت واپس دلانے کے عہد کی پابند ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کیلئے ’نیا فارمولہ، پیش کیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مسئلے کو انگریزی کے حرف Cسے شروع ہونے والی پانچ چیزوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاcompassion (شفقت)، communication (گفتگو)، coexistence (بقائے باہم)، confidence building (اعتماد سازی)اور ان سبھی باتوں پر consistency. یعنی استحکام سے کام لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حتمی حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہر اس شخص سے ملنے پر آمادہ ہیں جو مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں انکی مدد کرنے کا خواہشمند ہو۔ "میں ہر اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں کہ جو ہمیں کشمیر کے مسائل حل کرنے میں مدد دینے کا خواہشمند ہو۔ کسی کو باضابطہ بات چیت کیلئے بلانے اور نہ بلانے کی بات ہی نہیں ہے، جو بات کرنا چاہتے ہوں انہیں آگے آجانا چاہئے۔ میں تو ہمیشہ ہی یہاں کھلے دماغ سے بات کرنے کیلئے آتا ہوں"۔
اور پھر مسئلہ کشمیر حل کریں، مرنے سے پہلے پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں رشی کپوربھارتی اداکار رشی۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی ملکیت پر ایک ٹویٹ کی، رشی کپور نے اپنے ٹویٹ کا آغاز ’سلام، سے کیا اور اختتام ’جئے ماتا دی، سے۔ انھوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ، فاروق عبداللہ جی سلام، میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ جموں اور کشمیر ہمارا، اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ان کا ہے۔ یہی واحد طریقہ ہے اپنے مسئلے کو حل کرنے کا۔ اسے تسلیم کرلیں، میں 65 برس کا ہوگیا ہوں اور میں مرنے سے قبل پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اپنے آبائی علاقے کو دیکھیں۔ بس کروا دیجیے۔ جئے ماتا دی۔
علاوہ ازیں لیفٹیننٹ جنرل جے ایس سدھو کا کہنا تھا کہ عوام میں حریت پسندوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت، ان کی مقبولیت اور عزت افزائی اور انتہا پسندی تشویش کا باعث ہیں۔ ایک اور فوجی اہلکار کا کہنا تھا کہ پتھراو? کرتے نوجوان سے زیادہ تشویش کی بات بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور کشمیر بالکل بھی نہیں ہے اور اس وقت جو حقیقت ہے وہ ہے نوجوان میں غصہ اور بھارت کے خلاف لوگوں کی بغاوت۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو مذکرات کی پیشکش کی۔ لیکن اس دفعہ جب مودی سرکار ظلم و بربریت کی تمام حددیں عبور کی مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم توڑتتے ہوئے کئی راہنماوں کو پانبد سلاسل کر دیا۔ تاریخ کا بدترین کرفیو لگا کر بیماروں کو ہسپتال تک نہ جانے دینے، نماز عید پر پابندی، لاکھوں انسان کو محصور کر دیا گیا۔ تو پاکستان نے مسئلہ کو سلامتی کونسل لے جانے کا فیصلہ کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعۃ المبارک کے روز اپنے بند کمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے سے متعلق بھارت کا موقف مسترد کر دیا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکرٹری جنرل آسکر فرنانڈس اور یواین ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے میڈیا کو بتایا کہ اجلاس میں کشمیر کے معاملہ پر تفصیلی بحث ہوئی اور سلامتی کونسل کے ارکان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا فریقین کو کسی بھی قسم کے یکطرفہ اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر متنازعہ ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جہاں کی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہے۔ بھارتی اقدام نے چین کی خودمختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اسکی جانب سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی سے خطے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس نے پاکستانی موقف کی حمایت کر دی۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ میں روس کے اول نائب مستقل مندوب متری پولیانسکی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور اسکی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
انکے بقول پاکستان اور بھارت شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے تحت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت اختلافات حل ہونگے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مل کر باہمی مسائل کا سیاسی و سفارتی حل نکالیں۔ سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں پانچ مستقل ارکان سمیت کونسل کے 15 ارکان شریک ہوئے۔ یہ اجلاس تقریباً 90 منٹ تک جاری رہا جس کے دوران سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن ملک کی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم کی تحقیقات کی تجویزبھی پیش کی گئی۔
صرف کشمیر ایشو پر اول تو پچاس برس بعد سلامتی کونسل کے اجلاس کا ہنگامی بنیادوں پر انعقاد ہی سفارتی محاذ پر پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے جبکہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کو ذاتی معاملہ قرار دینے کے بھارتی موقف کا مسترد ہونا اور سلامتی کونسل کی جانب سے دوبارہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا جانا بھارت کی سفارتی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ 1965ء کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیربحث آیا ہے۔
سلامتی کونسل کا اجلاس روکوانے کا حربہ ناکام ہو نے پر بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کی گیدڑ بھبکی لگا کر عالمی برادری کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے مزید دھڑکا لگا دیا چنانچہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان سمیت کسی بھی رکن ملک کو کشمیر کے بارے میں بھارتی اقدامات کی حمایت کی مجبوری لاحق نہ ہوئی اور انکی جانب سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیکر اسکے یواین چارٹر اور اسکی قراردادوں کے مطابق حل کا تقاضا کیا گیا۔ اس حوالے سے بلاشبہ پاکستان نے بھی اپنی کامیاب سفارتکاری کے تحت بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے اور عالمی قیادتوں کو کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کا ہر رخ دکھا کر قائل کیا ہے کہ بھارتی جنونی ہاتھ روک کر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی یقینی بنائی جا سکتی ہے جس کیلئے مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق آبرومندانہ حل ہماری بنیادی ضرورت ہے
بھارتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ایشو پر تین جنگیں ہوچکی ہیں اور سقوط ڈھاکہ کی صورت میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بھارت باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جس نے نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کی نوبت آنے دی اور نہ ہی شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کی بنیاد پر اس نے پاکستان سے دوطرفہ مذاکرات کی راہ کبھی ہموار ہونے دی ہے جبکہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیکر بھارت پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بدنظریں گاڑے ہوئے ہے
مودی سرکار کے انوکھے مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے اپنی پرعزم جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور عالمی برادری کے سامنے ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کا جنونی چہرہ بے نقاب کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ہی ساتھ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ پاکستان نے بھی کشمیریوں کی آواز ہر عالمی اور علاقائی فورم تک پہنچانے کیلئے کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
شاید کشمیر کے معاملہ پر علاقائی اور عالمی فورمز پر تادیر بحث مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا اور باہمی مفادات کے اسیر عرب، ایشیائی اور یورپی مغربی ممالک مصلحتوں کا لبادہ اوڑھے رکھتے مگر مودی سرکار نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی جلدی میں اس ماہ پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت پر کلہاڑا چلا کر درحقیقت اپنے پاؤں پر کلہاڑا مار دیا ہے کیونکہ مودی سرکار کے اس ٹوکہ اقدام نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو پوری توانائی کے ساتھ دوبارہ زندہ اور عالمی برادری میں اجاگر کردیا بلکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر چین کو اپنے خلاف زیادہ متحرک کر دیا جس نے پہلے دوٹوک انداز میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے کا الٹی میٹم دیا اور پھر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کیلئے پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور سلامتی کونسل کے ارکان کو باور کرایا کہ بھارت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے کاٹ کر چین کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے۔
اس سفاکی پر عالمی برادری خاموش تو ہرگز نہیں رہ سکتی اس لئے اب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دباؤ بڑھنا فطری امر ہوگا اور اسے بالآخر عالمی رائے عامہ کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑیگا کیونکہ وہ اپنے لئے عالمی تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب مودی سرکار کی کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی خواہش تو شاید ہی پوری ہو پائے مگر اسکی حماقتوں نے اسکے دور میں ہی کشمیر کی آزادی کی راہ ضرور ہموار کر دی ہے۔
جب سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہو سکتا ہے، یوکرین میں روسی فوج کو چند ہفتوں میں داخل کرادیاجاتا ہے، انڈونیشیا سے عیسائی آبادی پر مشتمل مشرقی تیمور کو آزاد مملکت قرار دلوا دیاجاتا ہے، یوگنڈا میں قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی سوڈان کی آزادی کا انتظام کیا جاسکتا ہے تو پھر کشمیربھی ان شاء اللہ آزاد ہو گا اور وہ سورج جلف طلوع ہو گا جب کشمیر بنے گا پاکستان۔