"ماؤں کا عالمی دن" سب سے پہلے 1870ء میں انسانی حقوق کی کارکن اور شاعرہ جولیا وارڈ نے اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ بعد ازاں 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں اینا جیروس نامی خاتون ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دِن کو اپنی ماں کی یاد میں منایا۔ اس دن اس نے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد بھی کیا۔ جس میں اس نے اپنی ماں کے پسندیدہ پھول پیش کیے۔
اینا کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور اس وقت کے امریکی صدر نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو نہ صرف "مدرز ڈے" کے نام سے موسوم کیا، بلکہ اسے ہر سال قومی سطح پر منانے کا اعلان بھی کیا۔ یوں ایک بیٹی کی ماں کے لیے محبت کی طاقت نے اپنے آپ کو ملکی سطح پر منوایا۔ اس طرح ہر سال یہ دن منایا جانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کئی ممالک نے امریکا کی تقلید کی اور اسی دن کو ماؤں کے دن کے طور پر منانے کے لیے چن لیا، جن میں ڈنمارک، ترکی، پاکستان، آسٹریلیا، بیلجیئم اور برطانیہ وغیرہ شامل ہیں۔
مغربی معاشرے میں اس دن خصوصی طور پر ماں سے الگ رہنے والے لوگ اپنی ماؤں سے ملنے جاتے ہیں۔ انہیں تحائف پیش کرتے ہیں۔ اولڈ ہاوس منتقل کی جانے والی ماؤں کے لیے یہ دن عید جیسا ہوتا ہے، جب ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی اولادیں انہیں پھول پیش کرتی ہیں۔ اب یہ سب کچھ صرف مغربی ہی نہیں، بلکہ مشرقی معاشرے کا بھی حصہ بنتا جا رہا ہے، بہت سے گھرانوں میں اولاد بڑھاپے میں ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتی۔ انہیں مختلف رفاہی اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بزرگوں کو پناہ دینے یا فلاحی اداروں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ جہاں گنجائش سے زیادہ بوڑھے افراد موجود ہیں۔ خصوصا ایسی مائیں پائی جاتی ہیں، جن کی ویران آنکھوں میں اپنے بچوں کی دید کی پیاس جھلک رہی ہے۔
وقت کی تیز رفتاری نے تنہائی کا عذاب جھیلتی ماؤں کے لیے اس ایک دن کی امید اور آس کو بھی چھین لیا ہے۔ بذریعہ ڈاک انہیں گل دستے اور تحائف دے کر سمجھا جاتا ہے کہ ماں کا حق ادا کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ماں کے لیے اولاد کے بغیر تو دُنیا جہاں کے کسی تحفے اور پھولوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یہ مائیں اپنی ممتا کی تسکین کی خاطر سخت جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کی باتوں کی کند چھری سے ذبح بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ انہیں بعض اوقات معاشرے کی طرف سے بھی طعنوں تشنوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر وہ بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت کرے تو بہ جائے اس کی حوصلہ افزائی کے، الٹا اس کے کردار پر باتیں کی جانے لگتی ہیں۔
اگر ایسی کسی اکیلی رہ جانے والی ماں کو زندگی کے ستم نے طلاق کے حادثے سے دو چار کیا ہو تو، پھر جینا اور بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ یہ مائیں اپنے آنگن کے ننھے پھولوں کی آب یاری کی خاطر، ہر روز کیسی کیسی پُرخار راہوں میں گھائل ہوئے جاتی ہیں، لیکن ہمت نہیں ہارتیں۔ معاشرہ ان کی ستایش تو کیا کرتا، الٹا انہیں اپنے گھٹیا خیالات کی زد پر رکھتا ہے۔ یہ مائیں اپنے بچوں کے لیے بہ یک وقت ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی بیش تر مائیں بیوہ یا مطلقہ ہو جانے کے بعد محض اولاد کی خاطر دوسری شادی بھی نہیں کرتیں۔
تمام عمر بچوں کو پڑھاتی لکھاتی، ان کی بہترین تربیت کر کے ان کو کام یاب انسان بناتی ہیں۔ اپنی خواہشات اور ارمانوں کو اولاد کے بہترین مستقبل پر قربان کر دیتی ہیں، لیکن لوگوں کی بدگمانیاں، تہمتیں ان کی شخصیت کو اندر سے زخمی کر دیتی ہیں۔ ہمارے مذہب میں بھی ماں کا کردار بہت بلند ہے۔ اس کی اس ساری جدوجہد کا محور اس کے بچے ہوتے ہیں، جن کی تعلیم وتربیت اور غذائی ضرورت کی تکمیل کے لیے وہ یہ سب کر رہی ہوتی ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے رات تک کام میں جُتی ماں، اس وقت کسی کانچ سے بھی زیادہ برے طریقے سے ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتی ہے، جب اس پر طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ صرف اپنے بچوں کی خاطر یہ سب جھیل رہی ہوتی ہیں۔
ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں دُنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِسایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔ اس کی گرم گود سردی کااحساس نہیں ہونے دیتی۔ اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے۔ دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی، آندھی چلے یا طوفان آئے، اُس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی۔ وہ نہ ہی کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے بلکہ بے غرض ہو کر اپنی محبت اولاد پر نچھاورکرتی رہتی ہے۔ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے۔ ماں کی بے پایاں محبت کو لفظوں میں نہیں پُرویا جا سکتا۔ خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ماں کو عظیم اور مقدس قرار دیا ہے۔ ماں ایک دُعا ہے جو ہر وقت ربّ رحیم کے آگے دامن پھیلائے رکھتی ہے۔ قدم قدم پر اُن کی حفاظت کرتی ہے۔ خُدا نے اس کے عظیم تر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی کہ اس عظیم ہستی کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ اب جس کا جی چاہے وہ اِس جنت کو حاصل کر سکتا ہے۔ اِس کی خدمت کرکے، اُس سے محبت کرکے اوراُسے عزت و احترام دے کر۔ ہر رشتے میں خود غرضی شامل ہو سکتی ہے مگر ماں کے رشتے میں کوئی خود غرضی شامل نہیں ہوتی۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو دُنیا میں سب سے زیادہ پُر خلوص ہے اُس کی زندگی کا محور صرف اور صرف اُس کی اولاد ہوتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس نے بچوں کو اپنا خون دودھ کی صورت میں پلا کر پالا پوسا، اُن کی پرورش میں اپنی ہر راحت قربان کی، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خواہش نثار کردی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ نے ماں کی تعریف کرتے ہوئے کچھ یوں کہا کہ میری ماں کا چہرہ بھی اتنا حسین ہے تسبیح کے دانوں کی طرح اقبال، میں پیار سے دیکھتا گیا اور عبادت ہوتی گئی۔
"ماں"وہ عظیم نام ہے، جس کے لئے دُنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کئے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور ماں سے عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں جبکہ دینِ فطرت اور دین ِ رحمت نے "ماں" کی عظمت، خدمت اور اس کی اطاعت و فرمانبرادی کا جو درس دیا ہے وہ سب سے منفرد اور بے مثال ہے۔ یہ ماں کی شفقت اور ما ں کی عظمت اور محبت کا اظہار ہی تھا کہ مُحسن ِ انسانیت، نبی ِ رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "اگر ننھے اور معصوم بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلایا جا رہا ہوتا، بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد اپنے ربّ کے حضور عبادت میں جُھکے نہ ہوتے اور معصوم جانور میدان میں چرنہ رہے ہوتے تو یقیناً تُم پر سخت عذاب ہوتا"۔ ماں کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے عظیم سرمایہ ہے۔ اس کی شفقت و محبت اور خلوص و وفا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
شاعر ِمشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ "اسرارِ خودی" میں اسلام میں ماں کی عظمت کے حوالے سے اپنی مشہور فارسی نظم "درمعنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است" میں لکھتے ہیں کہ ماں کے منصب اور اُس کے حفظ و احترام کا ضامن اسلام ہے۔ اقبال ؒ کی اس نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے، اس کی بنائپر کہ اسے نبوت سے نسبت ہے"اس کی شفقت، پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے، جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے۔ ماں کے جذبہ ئمحبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور پیشانی کی سلوٹوں میں ہماری تقدیر پنہاں ہوتی ہے۔ اگر تُم الفاظ کے معنی تک رسائی رکھتے ہو تو لفظ اُمت پر غور کرو۔ اِس میں بڑے بڑے نکات ہیں۔ مقصود ِ کائنات ﷺ نے فرمایا "ماں کے قدموں تلے جنت ہے" ملتِ رحمی رستے کی تکریم پر قائم ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی کا ہر کام خام رہ جاتا ہے۔ "مامتا"سے زندگی سرگرم ہے۔ "مامتا" سے ہی زندگی کے اسراربے نقاب ہوتے ہیں، ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب "ماں" سے ہے۔ اس ندی میں موج، گرداب اور بُلبلے اسی وجود کے باعث ہیں۔ ملت کو ماں کی آغوش سے اگر ایک مُسلمان حاصل ہوجائے، جو غیرت مند اور حق پرست ہو تو ہمارا وجود اِ ن پریشانیوں سے محفوظ ہو جائے، اس شام کی بدولت ہماری صبحِ دُنیا کو روشن کر دے۔ "ماں" کی عظمت اور اُس کے خلوص و وفا کے متعلق کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ: ماں، خلوص و مہر کا پیکر، محبت کا ضمیر، ماں خُدا کارحم، وہ دُنیا میں جنت کی سفیر، ماں نشانِ منزل ِ آدم، تقدس کا پیام، ماں کے قدموں میں ہے جنت، ماں کے قدموں کو سلام۔ ماں جنت کا وہ پھول ہے کہ جس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ ماں کی قدر و قیمت اُن لوگوں سے پوچھیں جن کی مائیں بچپن میں اس جہاں فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ ماں کے بغیر انسان اُس شاخ کی مانند ہے جو زمانے کی تیز ہواؤں اور دھوپ کی تپش کے بغیر کسی سائبان کے سامنا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ تما م ماؤں کو سلامت رکھے اور اُن کا سایہ اُن کی اولادپر قائم و دائم رکھے۔ اور میری دُعا ہے کہ وہ اس دُنیا سے کوچ کر جانے والی تمام ماؤں اور میری والدہ محترمہ کو بھی اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔