ایمنسٹی کی چشم کشا حقائق نے بھارت کے انسانیت سوز مظالم سے پردہ چاک کر دیا۔ کشمیر کی کہانی بہت کرب ناک ہے جو سات عشروں پر محیط ہے۔ جس کا ہر ورق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ہزاروں نہتے شہریوں کی شہادت، پُرتشدد، انسانیت سوزو اقعات، نسل کُشی، خواتین کی بے حرمتی، آزادی پسند رہنماؤں کی پھانسیوں، اسیروں سے بھری جیلوں، پیلٹ گنوں سے آنکھوں کی بینائی چھیننے جیسے واقعات سے بھرا پڑا ہے، جنت نظیر کشمیر آج لاکھوں شہدا، بے گھر افراد، بیواؤں، یتیموں اور اپاہجوں کا مسکن ہے۔ کشمیر بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے جہاں ایک کروڑ سے زائد انسانوں کے انفرادی، اجتماعی انسانی حقوق سلب کیے جارہے ہیں، آزادی مانگنے والوں پر طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے، بھارتی فوج کے ظلم و جبرسے آزاد کشمیر کے شہری بھی محفوظ نہیں۔ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے میں شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، 2017ء میں بھارتی فوج نے 1550 بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور 60 سے زائد شہری شہید کیے۔
کشمیر پاکستان کیلئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق بھی اور وکیل بھی ہے، پاکستانی قوم اس کے شانہ بشانہ ہے۔ پاکستان کشمیر کو شہ رگ جب کہ بھارت اٹوٹ انگ کہتا ہے، جس کی تردید خود بھارتی مصنفہ نے یوں کی کہ "کشمیر کبھی بھی بھارت کا لازمی حصہ(اٹوٹ انگ) نہیں رہا،، بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علمبردار اروندھتی رائے نے 23 اکتوبر 2010ء کو ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا"کشمیر کبھی بھی بھارت کا لازمی حصہ(اٹوٹ انگ) نہیں رہا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے بھارتی حکومت بھی اسے تسلیم کر چکی ہے۔ 56 سالہ سوزانہ اروندھتی رائے بھارت کی بہترین مصنفین میں شامل ہیں، انہوں نے ایک ناول The God of Small Things تحریر کیا جس پر انہیں 1997 میں بکر پرائز سے نوازا گیا۔ جب کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے دورہ کشمیر کے موقع پر یہ تاریخی جملہ فرمایا تھا "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے"۔ قائد فرماتے ہیں "کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب’مائی برادر، میں لکھتی ہیں کہ قائداعظم کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیر کو حق ملنا چاہئے۔ قائداعظم محمد علی جناح پہلی بار 1926ء دوسری بار 1929ء، تیسری بار 1936ء اور چوتھی بار1944ء میں کشمیر گئے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ "مَیں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ عزت کا صرف ایک راستہ ہے، وہ ہے اتفاق و اتحاد، ایک پرچم، ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کر لیا تو آپ یقیناًکامیاب ہوں گے۔ مسلم لیگ اور ہماری خدمات، تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی"۔
اور پھرمقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا یہ عالم ہے کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے2009میں کشمیر کو کرہ ارض کا سب سے بڑا فوجی علاقائی تنازع قرار دیا۔ 2011میں کشمیر کی آبادی ایک کڑور26لاکھ کے قریب تھی، آبادی کے تناسب سے دُنیا کی کسی بھی خطے یا شہر کے مقابلے میں اگرکسی جگہ سب سے زیادہ سیکورٹی اہلکا ر تعینات ہیں تو وہ وادی کشمیر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سات لاکھ فوجی اور نیم فوجی تعینات ہیں جو ہر بارہ سو افراد پر ستر سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا تناسب بنتا ہے جو دُنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔ یعنی ہر بارہ کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ درحقیقت وادی کشمیر فوجی چھاؤنی میں تبدیل چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق وادی کی دس لاکھ کنال اراضی پربھارتی فوج قابض ہے۔ جنوری 2013میں کشمیر اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں بتایا گیا کہ تین علاقوں جموں، کشمیر اور لداخ میں بھارتی فوج نے1054721کنال اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی آنکھوں میں چھرے مارنے کو دُنیا بھر میں بے نقاب کرنے والی بھارتی صحافی برکھا دت تھی، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں انہوں نے کشمیر یوں کی آنکھوں میں بھارتی فوج کی جانب سے چھرے مارنے کی رپورٹ دی تھی، جس میں کہا گیا کہ 100ایسے کشمیری سامنے آئے ہیں جن کی آنکھوں میں چھرے مار کر ان آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی، بھارتی فوج نے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور ایک نو سالہ بچی کی آنکھوں میں بھی چھرے مارے۔ ایک ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ ایسا ظلم مقبوضہ کشمیر میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی بڑی وجہ ہی مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کیونکہ یہ جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کی وجہ بن سکتا ہے۔ وادی کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہیں لاکھوں اوچھے ہتکھنڈوں کے باوجود بھارت وادی کشمیر کی عوام سے پاکستان کی محبت ختم نہ کر سکا۔ بمطابق مردم شماری2011میں مسلمانوں کی آبادی 85 لاکھ 66 ہزارتھی۔ اسی سال کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں وکشمیرمیں خواندگی کی شرح 68.74تھی جبکہ اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء اور طالبات کی کل تعداد9لاکھ 14ہزار14تھی۔
ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب لگ بھگ 69فیصد ہے۔ بتایاجاتاہے کہ 1961ء میں جموں وکشمیر کی کل آبادی یعنی 35لاکھ60ہزار میں مسلمانوں کی تعداد24لاکھ 32ہزار تھی، جوکہ کل آبادی کا 68.31فیصد بنتاہے۔ مردم شماری 2011 کے مطابق ریاست جموں وکشمیرکی کل آبادی ایک کروڑ25 لاکھ نفوس سے زیادہ تھی، جن میں مسلمانوں کی تعداد85لاکھ 67ہزار ہے اوراس طرح سے اتفاقاًجموں وکشمیر کی کل آبادی میں مسلمانوں کا جوتناسب 1961ء میں تھا، وہی تناسب یعنی 68.31فیصدسال2011 میں بھی تھا۔ 1961ء میں ہندووں کی کل آبادی 10لاکھ13ہزار تھی اور کل آبادی میں تناسب 28.45فیصد تھا۔ مردم شماری 2011ء میں ہندووں کی کل آبادی 35لاکھ66ہزار تھی اور تناسب 28.43فیصد تھا۔ 1981ء میں ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب سب سے کم یعنی 64.19فیصد تھا۔ خیال رہے کہ تقسیم ریاست سے قبل 1941 میں جب ریاست میں مردم شماری کرائی گئی تھی تو مسلمانوں کاکل آبادی میں تناسب 72.41فیصد تھا اورتب ہندووں کی کل آبادی کاتناسب25.01فیصد تھا۔ مردم شماری 2001کے مطابق ریاست کی کل آبادی یعنی ایک کروڑایک لاکھ 43ہزار700نفوس میں مسلمانوں کا تناسب 66.87فیصد تھا۔ مردم شماری 2011ء 2011کے مطابق 22اضلاع میں سے 17اضلاع میں مسلمانوں کا کل آبادی میں تناسب باقی مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے، جن میں کشمیر کے سبھی 10اضلاع شامل ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ جموں کے 4 اضلاع میں ہندووں اور لداخ کے لیہہ ضلع میں بودھوں کی آبادی زیادہ ہے۔ غور طلب ہے کہ جموں کے باقی 6اضلاع بشمول ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑ، راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کا کل آبادی میں شرح تناسب زیادہ ہے۔ خیال رہے مردم شماری 2011کے مطابق تب ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ25لاکھ 48ہزار926نفوس پر مشتمل تھی۔ جس میں سے مردوں کی تعداد66لاکھ 65ہزار561جبکہ خواتین کی کل تعداد58لاکھ 83ہزار365تھی۔ مردم شماری 2011کے مطابق ریاست جموں وکشمیرمیں تب خواندگی کی شرح 68.74تھی جبکہ اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء اور طالبات کی کل تعداد9لاکھ 14ہزار14تھی۔ اگراس سے بھی پہلے کی بات کی جائے تو حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پہلے بھی اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں چھرّوں سے زخمی ہونے والے 88 متاثرین کا ذکر تھا۔ بھارتی فوج کی طرف سے مارے گئے چھروں سے سیکڑوں افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 14 افراد شہید بھی ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق بھارت کی مختلف ریاستوں مِیں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن چھروں کی بندوق صرف کشمیرکے لیے مخصوص کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے 1989 کے بعدسے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیاجب کہ دس ہزار کشمیری لاپتہ ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق 143048 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں زیادہ تر معذور ہو گئے جبکہ 108596مکانات اور دکانوں کو تباہ کردیا گیا، دس ہزار کشمیری خواتین کی عصمت کو تار تار کیاگیا۔ سات ہزارسے زائدبے نام قبریں دریافت ہوئیں، سات ہزار خواتین نیم بیواؤں کی زندگی گزار رہی ہیں جنہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا شہید ہوگئے، جبکہ 22862خواتین بیوہ ہیں، 107676بچوں کو باپ کے سایہ سے محروم کیا گیا، حریت کانفرنس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نو جولائی 2016 تا اکتیس دسمبر2016 کے عرصے کے دوران سو کشمیریوں کو شہید اور 7340 کو زخمی کیا گیا، 6ہزار کشمیریوں کو چھروں کا نشانہ بنایا گیا جس میں ایک ہزار افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 64 افراد پوری طرح سے بینائی سے محروم ہوئے۔ 79500 گھروں کی توڑ پھوڑ کی گئی، جبکہ اس دوران 8ہزار گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کو بھی تباہ کیا گیا۔ نو ہزارافراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ2602ایف آئی آر درج کی گئیں، جن میں 582 افراد کو انسان دشمن قانون پی ایس اے تحت نظربند کردیا گیا، جبکہ 524افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی داستان کئی دہائیوں پر پھیلی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دُنیا بھر کا میڈیا متعدد بار رپورٹیں دے چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کے متضاد اعدادو شمار ہیں، کیونکہ ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر کئی طرح کی پابندیوں کی وجہ سے درست اعداد وشمار کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق1989سے مقبوضہ کشمیر میں 47ہزار افراد شہید ہو ئے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر نے2008میں اپنی رپورٹ میں 47ہزارشہادتیں بتائی تھیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق65ہزار افراد شہید ہوئے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ستر ہزار کشمیری شہید ہوئے۔ بھارتی حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 27سالوں میں 41ہزار کشمیر ی شہید ہوئے یعنی یومیہ چار کشمیری شہید کیے گئے۔ 1989کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 69820 پرتشدد واقعات ہوئے جن کابھارت نے ہمیشہ الزام پاکستان پر لگایا۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ انسانیت سوز مظالم بند کرتے ہوئے اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا استصواب رائے سے حل نکالے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو دو جوہری ممالک کو جنگ کی وادی میں دھکیلنے کے علاوہ جنوبی ایشیاء کا امن بھی تباہ کر سکتا ہے۔