وہ کشمیر جس کو خون سے سینچا۔ کشمیر آج کی بات نہیں۔ یہ ایک مستند تاریخ ہے۔ کشمیریوں نے ہمیشہ اتفاق و اتحاد، یگانت کا پیغام دُنیا کو دیا ہے، اور اپنے عملی اقدامات سے ثابت کیا ہے کہ اتحاد و اتفاق ہی قوموں کی ترقی کا ضامن ہے۔ مقبوضہ وادی ہو، یا کہ آزاد کشمیر دونوں کی عوام کے حوصلے، عزمِ صمیم کی تاریخ معترف ہے، جن والدین کے سامنے ان کی جوان اولاد کی لاش ہو، اور وہ مفادِ عامہ کے لئے چلنی دِل کے ساتھ مسکرا دیں، ان کے لئے الفاظ نہیں کہ انہیں ہدیہ تبریک اور سلام محبت پیش کیا جاسکے۔ ان کے یہ زخم شائد ہی بھرسکیں گے۔ آزاد کشمیر کی قوم نے جس اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثالیں بھی ہی کم ملتی ہیں۔
آزاد کشمیر میں ذہانت کی کوئی کمی نہیں۔ یوں دُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی خوبی نہ ہو اور یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت ہے کہ حضرتِ انسان کو کسی خاص وصف یا مجموعہ اوصاف کا حامل بنا کر دُنیا میں شرف و تکریم سے مزیّن کرکے اشرف المخلوقات قرار دے دیا۔
خونی رشتوں کی جبلّت تو محض تعارف اور پہچان ہے اور اس پہچان میں وہ صرف اپنے قبیلے اور خاندان کی حد تک محدود رہتا ہے مگر مشیتِ یزداں ہے کہ حضرتِ انسان اوصافِ حمیدہ اور فنونِ لطیفہ کی عطائی اساس پر روز افزوں ارتقائی سفر پہ گامزن رہے، چنانچہ ہمچوں نفوس زمانے کی دوڑ میں وسعتِ صحرا کے خُوگر بن کر تکیہ ایزدی پہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں تو ذاتِ الوہیت ان کی محنت کا پاسِ خاطر محفوظ رکھ کر انہیں شہیر الاسم بنا دیتے ہیں پھر دُنیا کسی خاص وصف یا کنز الاوصاف کے توسّل سے انہیں جاننے لگ جاتی ہے اور ایسی ناموری حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر اپنے قبیلے، خاندان، اپنی ریاست کا وجہ تعارف ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں آزاد کشمیر کے معروف ادیب، شاعر اور دانشور سید سلیم گردیزی کا شمار ہوتا ہے۔ وہ حکومتی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی نسلِ نو کی بہترین راہنمائی کے لئے تاریخی کتب لکھنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
ان کی کتابوں میں سے ایک کتاب بعنوان "میں نے کشمیر جلتے دیکھا"صدارتی ایورڈ یافتہ، جب آزاد کشمیر میں اتفاق و اتحاد کی فضا قائم تھی، انہیں ایام میں یہ کتاب بار بار پڑھنے کودِل کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے مقبوضہ وادی کے غیور عوام کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا ہے۔ وہ اپنی تصنیف میں کشمیر کے حوالہ سے یوں راقمطراز ہیں: "کشمیر میرا گھر ہے۔ میں نے اسے نہ صرف جلتے دیکھا بلکہ میں خود بھی آگ میں جلا ہوں اور مسلسل جل رہا ہوں۔ میں اپنے جلتے ہوئے گھر کی تصویر دُنیا کو دیکھانا چاہتا ہوں۔ کشمیر سے باہر بسنے والوں کو اس وادی گلِ رنگ کی تباہی و بربادی کا حال سنانے کے لئے میں نے آنسوؤں اور آہوں کی یہ روداد قلمبند کی ہے"۔
اُنہوں نے اپنے دورہِ مقبوضۃکشمیر کے آنکھوں دیکھے احوال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: "تاریخی ہڑتال: مقبوضہ کشمیر میں ہمارے قیام کے دوران میں ریاست کے تمام سرکاری دفاتربند رہے۔ سرکار ویسے بھی کشمیر میں فارغ ہوتی ہے کیونکہ "صل کام"تو بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے سر انجام دیتی ہیں۔ رہے عوام، تو ان پر حکومت کا ویسے بھی بس نہیں چلتا۔ عملاً کشمیری عوام مجاہدین کو اپنی حکومت تسلیم کرتے ہیں اور مجاہد تنظیموں کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔
مقدمات کے فیصلے، تنازعات کے تصفیے، اشیاء کے نرخوں، ٹرانسپورٹ کے روٹس اور کرایوں کے تعین سمیت تمام معاملات مجاہدین کی تنظیموں یا ان کی سر پرست جماعتوں کی طرف سے مقامی طور پر قائم کی گئی کمیٹیاں ہی سر انجام دیتی ہیں۔ رہے مسٹر سکسینا، تو ان کا نام کبھی کبھار سری نگر ریڈیو کی خبروں میں جو دہلی سے براہِ راست نشر ہوتی ہیں، سنائی دیتا ہے۔ ایسے میں یہاں گورنر نام کی کوئی چیز کی تعیناتی ایک تکلف ہی معلوم ہوتی ہے۔
ہڑتال کا پسِ منظر: رہی سہی کسر سرکاری ملازمین کی غیرمعینہ مدت کی ہڑتال نے پُوری کر دی۔ ملازمین ابتدائے تحریک سے ہی دِل و جان سے اس کے ساتھ رہے ہیں۔ بھارت نے مظالم کا بازار گرم کیا تو یہ سراپا احتجاج بن گئے۔ جون 1990ء کے اوائل میں ریاست جموں وکشمیر کے سات سو سے زائد اعلیٰ سرکاری افسروں نے ایک میمورَنڈم کے ذریعے بھارتی حکمرانوں، عالمی راہنماؤں اور انسانی حقوق کے علمبرادروں کی توجہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کی جانب مبذول کرائی۔ یہ میمورنڈم ہفتہ جون 1990ء کے روزنامہ "آفتاب"سری نگر میں ساڑھے سات سو سے زائد سرکاری آفسروں کے دستخطوں سے شائع ہوا۔
اس میمورَنڈم کا آخری پراگراف پیشِ خدمت ہے: "دُنیا کے سب سے زیادہ طویل کرفیو والے علاقے میں رہنے کے باوجود تاحال زندہ بچ جانے پر ہم بے سروسامان اور بے گناہ کشمیری عوام اپنے اوپر جاری بے رحمانہ ظلم و تشدد اور جبر و زیادتیوں کی پُر زور مذمت کرتے ہیں۔ ہم دُنیا کے ذرائع ابلاغ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان مظالم کو تحقیقات کے لیے مختلف وفود بھیج کر ان دِل خراش مناظر کو دُنیا کے سامنے لائیں۔ ہم امن پسند دُنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومت ہند کو مجبور کریں کہ وہ کشمیری عوام کی جائز امنگوں کا احترام کرے اور عوام پر ظلم وجبر کے یہ اقدامات فوری طور پر ختم کرکے اس سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے قابلِ عمل اقدامات کرے"۔
کشمیر کے غیرت مند سرکاری ملازمین نے کشمیری عوام کے جائز آئینی حق، حقِ خودارادیت کے مطالبے کی حمایت میں بار بار علامتی ہڑتال کی تاکہ حکومت ہند کو باور کرایا جاسکے کہ حق خود ارادیت کا مطالبہ ساری کشمیری قوم کا مطالبہ ہے مگر حکومتِ ہند ٹس سے مس نہ ہوئی اور مظالم کا سلسلہ دارز سے دارز تر ہوتا چلا گیا۔
آج ہمیں ایسی کتابوں کے مطالعہ کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ مکار بھارت کو بے نقاب کرنے کے لئے ہمیں ایسے ناقابلِ تردید تاریخی حقائق دُنیا کے سامنے لانے ہوں گے۔