ہندوستان میں برسراقتدار مودی کی حکومت RSS کے مکروہ اور انتہاء پسندانہ مسلم مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں گامزن ہے۔ ہندوستان میں مسلم مخالف شہریت ترمیمی ایکٹ (Citizenship Amendment Act)، مقبوضہ جموں و کشمیر کا غیر قانونی انضمام، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ، مسلمانوں کے جداگانہ عائلی قوانین کا خاتمہ، مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نئے ڈومیسائل قانون کی آڑ میں لاکھوں غیر ریاستی باشندوں کی آباد کاری، مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر انسانی لاک ڈاون اور بتدریج نسل کشی (incremental Genocide) یہ سارے اقدامات RSS کے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ دفعہ 370 اور دفعہ35-A کے خاتمے کے بعد ہندوستان نے مقبوضہ ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج تعینات کی ہے۔ اس وقت تقریباً9لاکھ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 5/اگست2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر ایک انسانی جیل بن چکا ہے، جہاں پر ذرائع ابلاغ اور مواصلات کے تمام رابطوں کو بند کر دیا گیا ہے اور ہر قسم کی مذہبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے تقریباً چار ہزار سے زائد سیاسی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اور تقریباً14ہزار نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرتے ہوئے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور انہیں سنگین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ ایک سال کے عرصے میں سیکٹروں نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک خوف کی فضاء ہے اور کشمیریوں کو روزانہ بدترین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مقامی این جی او JKCS (Jammu & Kashmir Coalition for Civil Society) کے مطابق صرف2020 کے پہلے 7مہینوں میں 347 نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔
دفعہ 370اور 35-Aکے خاتمے کا مقصد؟ دفعہ370 اور35-A کے خاتمے کے بعد ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے اندر تیزی سے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے، تا کہ مقبوضہ ریاست کے مسلم تشخص کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے۔ اس سارے عمل کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام کرنا ہے تاکہ رائے شماری کے عمل میں مسلم اکثریتی فیصلے کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیئے ہندوستان نے اس سال 27/جون سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیئے آن لائن درخواستوں کا ایک تیز ترین نظام متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے تقریباً 5 منٹ میں درخواست فارم مکمل کیا جا سکتا ہے۔ نئے ڈومیسائل قانون کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی شخص صرف 15سال تک مقبوضہ ریاست میں رہائش پذیر رہنے پر، اور تمام سرکاری ملازمین اور ان کے خاندان کے لوگ بشمول فوج کے ملازمین، صرف 10سالہ خدمات کی انجام دہی پر مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ ابھی تک صرف چارہ ماہ کے قلیل عرصے میں تقریباً22لاکھ درخواستیں جمع ہو چکی ہیں جن میں سے ساڑھے 18لاکھ غیر ریاستی باشندوں، RSS کے انتہاء پسندوں اور قابض فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس تقسیم کیئے جا چکے ہیں۔ اتنے کم عرصے میں ساڑھے اٹھار لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تقسیم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہمودی حکومت کے مقبوضہ ریاست کے حوالے سے کیا مکروہ اور جارحانہ عزائم ہیں۔ مختصراًہندوستانی منصوبہ ساز یہ چاہتے ہیں کہ:۔
۱۔ نئے ڈومیسائل قانون کے ذریعے سے تقریباً50لاکھ ہندووں اور غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیئے جائیں۔
۲۔ اگلے مرحلے میں ان لاکھوں ہندووں کی مقبوضہ کشمیر میں آبادکاری کی جائے۔ چونکہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے حامل افرادمقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں۔ لہذا خصوصی بستیاں آباد کر کے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔
۳۔ اس کے بعد ان نئی ہندو آبادیوں کو مقبوضہ کشمیر کے اندر سرکاری ملازمتیں دینا تاکہ مقامی مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے مزید کمزور کیا جا سکے۔
۴۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی کشمیر یوں کے کاروبار کو تباہ کر کے نئی ہندو آبادیوں اور ہندوستانی سرمایہ کاروں کو مقبوضہ کشمیر میں پرموٹ کرنا۔ کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق 5/اگست2019 سے لے کر آج تک مقامی تاجروں کو تقریباً400بلین روپے کا نقصان ہو چکا ہے جو کہ تقریباً5.3 بلین ڈالر کے برابر ہے۔ جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں معاشی حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور بے روز گاری میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔
۵۔ اگلے مرحلے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کروا کر مودی حکومتBJP کی حکومت بنوانا چاہتی ہے۔ تقریباً 50لاکھ نئے ہندو ووٹرز کے ساتھ اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد BJP کے لیئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حکومت بنانا آسان ہو جائیگا۔
۶۔ اور اس منصوبے کا سب سے اہم مقصد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کو ناکام بنانا، تحریک آزاد ی کو ختم کرنا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو مکمل طورپر عملاً ہندوستان میں ضم کرنا ہے۔ اور اگر کسی وقت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدآمد کے لیئے عالمی دباو بڑھ جائے تو آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے نتیجہ میں ریاست کا فیصلہ اپنے حق میں کروایا جا سکے۔
ہم درپیش خطرات کے تناظر میں بین الاقوامی قوانین کے مطابق مستقبل کے لیئے موزوں اور قابل عمل سیاسی، سفارتی اور قانونی لائحہ عمل کا تعین کر سکیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے معروضی حالات کا تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی سیاسی منظر نامے کے تناظر میں تنقیدی جائزہ لینے سے محتاط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے ڈیڑھ سے دو سال انتہائی اہم ہیں اور اگر اس عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے اندرہندوستانی اقدامات کو روکا نہ گیا تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی باشندوں کا سیاسی، معاشی و ثقافتی استحصال و وسیع پیمانے پر نسل کشی نوشتہ دیوار ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو اگر کم کر دیا گیاتو ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور کاوشیں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔
سب سے پہلے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر اور نڈر مسلمانوں کا جذبہ حریت، نوجوانوں کی لازوا ل قربانیاں اور کشمیر ماوں اور بہنوں کا بے مثال صبراس تحریک کے پیچھے بنیادی قوت محرکہ ہے۔ اس کے علاوہ 5/ اگست2019 کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی کوریج، ایمینسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسا نی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی مسئلہ کشمیر سے متعلقہ رپورٹس، اقوام متحدہ کے کشمیر برائے انسانی حقوق کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر دو مفصل رپورٹس، اقوام متحدہ کے ملٹری ابزرور گروپ برائے انڈیا و پاکستان (UNMOGIP)کی رپورٹوں پر سلامتی کونسل کے مسئلہ کشمیر پر دو خصوصی اجلاس، کشمیری تارکین وطن (Diaspora)کا پوری دُنیا بالخصوص یورپ، برطانیہ، امریکہ اور کنیڈا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیئے اہم کردار، پاکستان کی عوام اور مسلح افواج کا کشمیریوں سے غیر متزلزل تعلق وہ مثبت پہلو ہیں جو مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جہد مسلسل ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ مثلاً 1823میں فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ 1848ء میں فرانس نے الجزائر کے مقامی باشندوں کو پوچھے بغیر اسے فرانس کا اٹوٹ انگ صوبہ قرار دے دیا۔ گورے فرانسیسی جو ق در جوق الجزائر میں آباد ہونے لگے۔ انہوں نے صنعت، زراعت اور معشیت پر قبضہ کر لیا۔ مگر الجزائر ی کھبی بھی فرانس کا قبضہ ہضم نہ کر سکے۔ چنانچہ ایک سو چوبیس برس بعد 1954ء میں الجزائر میں جذبہ حریت کا لاوا ابل پڑا۔ حریت پسندوں اور قابض فوج کے درمیان آٹھ سال تک جنگ رہی جس میں ایک ملین الجزائری اور ہزاروں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔
بالآخر 1962ء میں الجزائر ی فرانس سے آزاد ی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گے۔ اسی طرح 1975میں پرتگال نے مشرقی تیمور کے جزیرے پر اپنا نوآبادیاتی قبضہ ختم کیا۔ مشرقی تیمور میں عیسائیوں کی آبادی تقریبا ً 8لاکھ تھی۔ پرتگال کے بعد انڈونیشیا نے ایک سال بعد 1976ء میں اس پر قبضہ کر کے اسے اپنا 27واں صوبہ قرار دیا۔ مگر تیموریوں نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر 1999ء میں اقوام متحدہ نے ریفرنڈم کرایا اور 99فیصد آ بادی نے آزادی کے حق میں ووٹ دے کر 2002میں مشرقی تیمور کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے سامنے لایا۔ اسی طرح اسرائیل کب سے فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسترد کر تا چلا آرہا ہے۔ گولان پر قبضہ، مشرقی یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرنے اور مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری بھی اسرائیلی قبضے کو جائز نہیں بنا سکتی۔
بھارت اس قوم کو کیا شکست دے گا، جن کا جذبہ حریت تمام ہتکھنڈوں کے باوجود مانند نہیں ہو سکا، بلکہ اس میں اور تیزی آتی جا رہی ہے۔ اور وہ ہر صورت پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں، جواپنی تدفن پاکستانی پرچم میں پسند کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ، بہت جلد شہدا کا لہو، قربانیاں، جذبہ آزادی رنگ لائے گا، اور کشمیر آزاد ہوگا۔