3جون 1947ء تاج برطا نیہ کی جانب سے تقسیم ہند کے پلان پر جب عمل درآمد کا وقت آیا تو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن کی سرپرستی میں ریڈکلف ایوارڈ میں جس بدنیتی ہندو پروری اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیاگیا اس پر برطانوی قوم آج بھی ندامت اور شرمساری کا اظہار کرتی ہے۔
ریاست جموں کشمیر بھی تقسیم ہند کے اسی پروگرام میں شامل تھا مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کی اکثریتی آبادی کے خلاف پنڈت نہرو سے ہاتھ ملا کر لاکھوں مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے کے خلاف کر ڈالا جس پر لاہور گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر حضرت قائداعظم نے پاک افواج کے جز وقتی کمانڈر چیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم دیا جسے نہ مانتے ہوئے جنرل گریسی نے اپنی وفاداری اور تابع داری ماونٹ بیٹن سے وابستہ بتائی جس کے بعد حضرت قائداعظم نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے کشمیریوں اور قبائلی نوجوانوں کو ریاست کا نظام سنبھالنے کو کہا اس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر حاصل ہوا اور ماونٹ بیٹن کی موجودگی میں بھارتی فوجوں نے ریاست جموں کشمیر میں داخل ہو کر ناجائز تسلط قائم کر لیا۔ دوسری جانب پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں استصواب رائے کی قرار داد پیش کر ڈالی جس پر آج تک عمل نہ ہو سکا۔
گزشتہ72 برسوں سے ہماری یہ شہ رگ ہمارے دشمن کے قبضے میں چلی آرہی ہے۔ اور اب مودی ہٹلر نے ظلم کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے یکطرفہ، اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کے منافی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کہ تاریخ کا بدترین کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ بدترین تاریخی کرفیو نے بچوں، بوڑھوں، خواتین سے زیست کا حق بھی چھین لیا۔ یہاں تک کہ محرم میں جلوس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
ایک طرف مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کی سفاکیت اپنی انتہاء پر ہے، آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، نوجوانوں کو بہیمانہ تشدد سے شہید کیا جارہا ہے، عورتوں کی عصمت کو پامال کیا جارہا ہے، حریت رہنماؤں کو قید اور نظر بندکیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بھارت یہ چاہتا ہے کہ اس کے اس ظلم و سفاکیت کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ کوئی ان مظلوم کشمیریوں کی آواز نہ بنے۔
کشمیر یوں پر ہونے والے مظالم اقوام عالم کے سامنے نمایاں کرنے پر کہیں پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ آج ارضِ کشمیر میں بسنے والے نہتے کشمیری سفاک بھارتی فوج کے خطرناک اسلحہ کا مقابلہ محض پتھروں سے کر رہے ہیں، مرد و زن عورتیں اور بچے آزادی کے نام پر مر رہے ہیں، کٹ رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، جیلوں میں سڑ رہے۔
یہ سب درحقیقت بھارتی ناجائز تسلط سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جاری ہیں۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ انہیں رائے شماری کا حق دیا جائے جس کا اقوام متحدہ وعدہ کر چکی ہے، مگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر کے مسئلے سے مسلسل آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ ان حالات میں وہاں پرپتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرنے والے کشمیریوں میں غصہ اور اشتعال مزید بڑھ رہا ہے۔
کیونکہ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو کسی بھی انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے موقع فراہم کرتی ہے اور کوئی بھی قو م اپنی ثقافت روایات اور مذہبی آزادی کے تحت اپنی زندگی بطور آزاد شہری گزار سکتی ہے، اور آزاد قومیں ہی دُنیا میں اپنی نسل در نسل شناخت کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن جب کسی قوم کو زبر دستی زیر کرنے یا پھران کے حقو ق سلب کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ہتھیار تو کیا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہیں، یہ کیفیت ہر انسان کی ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نے کسی سے آزادی جیسی نعمت کو چھیننے کی کوشش کی تو اس کا کیا انجام ہوا؟۔ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا اور ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے بھارت پر زور دیا گیا۔ لیکن کیا وجوہات ہیں کہ اقوام متحدہ بھی اپنی قرار دادوں پر عملدر آمد کروانے میں بے بس ہے؟۔ لاکھوں کشمیری عوام حق خود اردایت کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم کے72 سال گزرنے کے بعد بھی اس مسئلے کے حل کے لئے مصروف عمل ہے، لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں رہا۔ بھارت نے ہر بار پاک بھارت مذاکرات اہمیت نہ دی، اور اپنی ہٹ دھرمی اور طرح طرح کے الزامات اور دھمکیوں سے مسلسل مسئلہ کشمیر حل کرنے سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جبکہ آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی وحشیانہ کاروائیوں کی مدد سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ بھارتی میڈیا منفی پراپیگنڈہ پر عمل پیرا ہے۔
کیا عالمی ادارے، اقوام عالم، اقوام متحدہ یا اس قماش کے تمام اداروں پر "مسئلہ کشمیر" ایک سوالیہ نشان کے ساتھ بین الاقوامی منظرنامے پر موجود ہے۔ اور اب کشمیر کی آزادی کے بڑے بڑے رہنما اسے انسانی حقوق کا قبرستان کہنے پر مجبور ہیں۔ کہاں جنت نظیر کشمیر کے لیے یہ لقب اور کہاں اس کشمیر کو انسانی حقوق کا قبرستان سمجھ لینا بے بس اور بے کسی کی انتہا نہیں تو اور پھر کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ آج تک مسئلہ کشمیر، اقوام متحدہ اپنی ہی قراردادوں کے مطابق حل کروانے میں ناکام کیوں؟