اکرم سہیل کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ کئی کتب کے مصنف اور معروف شاعر بھی ہیں۔ ایک صرف کتاب ہے اور ایک وہ کتاب جو حقیقت میں معاشرے کا عکس ہوتی ہے۔ ہر آنے والا دِن ہمارے لئے نئی مصیبت لے کر آرہا ہے۔ ہم تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں۔ ہم معاشرتی مسائل کی اس دلدل میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے نکلنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
کتب کی اشاعت ہزاروں میں ہورہی ہے لیکن ان میں سے چیدہ چیدہ ایسی کتابیں میسر آتی ہیں جو یقینا انسان کی سوچ و فکر تبدیل کرتی ہیں۔ وہ معاشرتی مسائل کے اسباب اور ان کا حل بھی بتاتی ہیں۔ محترم اکرم سہیل کی اس سے قبل نئے اجالے ہیں خواب میرے، شعورِ عصر، قانون کی حکمرانی، شائع ہو چکی ہیں۔ اب، ادارہ نکس میرپور سے ان کی نئی شائع ہونے والی کتاب مکالمات، پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان کی جملہ شائع ہونے والی کتب، شاعری ہمارے لئے یہ پیغام لائی ہیں کہ ہوا، بادل، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت آپ محسوس کر سکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔
آزادی کا بھی ایسا ہی قصہ ہے۔ یہ کوئی برتن یا دس بائی آٹھ کا پانا یا فیتہ بند تحفہ نہیں بلکہ احساس کا نام ہے۔ ایک جانور، ایک سال کا بچہ اور ایک نابینا بھی بتا سکتا ہے کہ آزادی فضا میں گھلی ہوئی ہے کہ نہیں۔ جہاں دلیل سے آزادی ثابت کرنا پڑ جائے سمجھ لو آزادی نہیں آزادی کا دھوکہ ہے۔ آزادی کو گلے میں اتارا نہیں جا سکتا، گلہ آزاد ہو تو آزادی خود بخود گنگنانے لگتی ہے، آزادی کوئی سجا نہیں سکتا کیونکہ آزادی خود ایک زیور ہے۔
آزادی کو کوئی بے گھر نہیں کر سکتا۔ باہر تنگ ہو جائے تو وہ دِل و دماغ میں گھر بسا لیتی ہے۔ مگر آزادی کے غصے سے ڈرنا چاہیے۔ وہ اپنی بے توقیری اور توہین کا انتقام غلامی کا شکنجہ کس کے لیتی ہے۔ آزادی کا گلہ گھونٹنا دراصل اپنا گلا گھونٹنا ہے۔ آزادی زود رنج ہے، اس کے نخرے، خرچے، پسند نا پسند نظرانداز کرنے والوں کو آزادی بنجر تنہائی کی وادی میں دھکیل دیتی ہے اور پھر گاہے ماہے اپنی جھلک اور چھب دکھلانے کا عذاب نازل کرتی رہتی ہے۔ ہاں آزادی کو بس ایک بار منایا جا سکتا ہے بارِ دگر نہیں۔
مکالمات ایک کتاب ہی نہیں وہ معاشرہ کا وہ عکس ہے جو ہر فرد کے دِل کی آواز ہے۔ اس میں وہ تلخ حقائق پڑھنے کو ملیں گے جن میں ہمارے معاشرے کا وہ ناقابلِ تردید عکس ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے جس بہترین پیرائے میں کتاب کا انتساب ہی قلم بند کیا ہے اس سے ہی کتاب کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
انتساب "ان معصوم پرندوں کے نام جو لوگوں کو جگانے کے لئے صبح سویرے چہچاتے ہیں لیکن ان کی تاک میں شکاری ان کا شکار کرکے انہیں زندگی سے ہی محروم کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے کروڑوں غریبوں، ہاریوں مزارعین اور مزدورں کے نام جو ملک کے آزاد ہونے کے باوجود ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور مقتدر استحصالی طبقات سے سماجی اور معاشی آزادی حاصل نہ کر سکے۔ ریاست جموں وکشمیر کے لاکھوں شہدا کے نام "وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے" اور یہاں کے محکوم جو ایک طرف بھارتی قابض اور غاصب کی غلامی اور ریاستی جبر کا نشانہ بنے اور دوسری طرف عصری شعور سے بے بہرہ اپنوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں ان کی غلامی کی زنجیریں اور مضبوط ہوئیں"۔
مزید حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "دشمن ملک ضرور فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کی کی گئی زیادتیوں کے حوالہ سے جو ملک کی اپنی مقتدرہ اپنے اقتدار اور بالا دستی کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔ دشمن ملک کی دراندازی اور سازشیں روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک کے اندر، سماجی انصاف، کا نظام قائم کرکے ہر قسم کی انفرادی اور اجتماعی استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ دشمن ملک وہاں مبینہ طور پر کوئی سازش نہ کر سکے۔
جہاں اسلام کا نام استعمال کرکے "صادق وامین"کی اصطلاع صرف حکومتیں ختم کرنے کے لئے کی جاتی ہوں وہاں اسلام، سے زیادہ مظلوم اور کون ہو سکتا ہے؟
تاریخ بتاتی ہے کہ جب بدمعاش مقتدرہ ملک کا سیاسی اور معاشی نظام چلانے میں ناکام ہو جائے تو کوئی اور طاقتور ادارہ یا ملک آکر ملک کا نظام سنبھال لیتا ہے۔ پھر مقامی مقتدرہ ان کی صرف سہولت کار کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔
بدمعاش نظامِ معیشت والی مقتدرہ اشرفیہ کے قبضے میں آئے ہوئے ملک میں قومی وسائل، اس ملک کے لئے لوگوں تک پہنچناایک خواب ہوتا ہے۔
انصاف مانگو تو توہینِ عدالت کہا جاتا ہے۔
معاشی و سیاسی حقوق مانگو تو غدار، کہا جاتا ہے۔
دوسروں کی مذہبی آزادی کے حق میں بات کرو تو کافر، کہا جاتا ہے۔
مقتدراشرفیہ کے شکنجے کے خلاف بات کروتو دشمن کا ایجنٹ، کہا جاتا ہے۔
ملک کے اندر نئی سامراجی، معاشی پالیسیوں کے خلاف بات کرو توغیر ملکی جاسوس، کہا جاتا ہے۔
نظامِ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف بات کرو تو اسلام دشمن، کہا جاتا ہے۔
آزادیِ اظہار رائے کرنے والے کو یہود و ہنود کا ایجنٹ، کہا جاتا ہے۔
آئین کی بات کرنے والے کو غدار، کہا جاتا ہے۔
اور آئین توڑنے والے کو محبِ وطن، کہلاتا ہے۔
بندوق کے زورپر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے جو عدالتی احکام جاری ہوتے ہیں وہ نظریہ ضرورت، کے احکامات کہلاتے ہیں۔
سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں غلامی کی زندگی بسر کرنے کو تقدیر، کے نام لگایا جاتا ہے۔
قدرتی وسائل ملٹی نیشنل کارپورشن کے حوالہ کرنے کو بیرونی سرمایہ کاری کہا جاتا ہے۔
یہ کتاب ہمیں ایک معاشرے کے فرد کے لئے بہترین رہنمائی کرتی ہے۔ ہمیں سوشیل میڈیا کی دُنیا سے نکل کر ایسی نایاب کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہمیں بھی بطورِ فرد اس معاشرہ کی آبیاری میں کردار ادا کرنے میں آسانی ہو۔ یہ کتاب ایک دفعہ پڑھ کر دیکھ لیں۔ اس کتاب میں وہ تحریریں شامل ہیں جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں۔