کورونا کے بعد اب منکی پاکس کا خطرہ منڈلانے لگا۔ لوگ ذہنی پریشانیوں کا شکار۔ کہیں تو سیلاب، کہیں ہیٹ سڑوک، کہیں آسمانی بجلیاں تو کہیں زلزلے۔ شاید زمین اب انسانوں سے تنگ آچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم معاشی، معاشرتی مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ اخوت، بھائی چارہ، اخلاص ختم ہوتے جارہے۔ ہم ایک قوم بننے کے بجائے علاقائی، قبیلائی تفریق میں تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ آج کیا وجہ ہے کہ غزہ، برما، فلسطین، کشمیر میں ایک طرف مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ ظلم و ستم عروج پر ہیں۔
دوسری طرف ہم چین سے بیٹھے ہیں۔ ماضی اور حال کے تقابل سے بیان ہوتی ہے، سماج میں پہلے امن، سکون، برداشت، صبر اور توکل کی فضا موجود تھی، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ معاشرتی معلوم میں عدم مساوات، بے چینی اور خود غرضی کا چلن عام ہوا ہے۔ لوگ آج طولانی خواہشات کے زندانی ہیں۔ آج ہر ایک کو اپنی ذات کی فکر ہے، وطن کی نہیں۔ آج خاندانی اکائی بکھر چکی، قطار میں آگے کھڑے لوگ زبردستی اپنے حق سے کہیں زیادہ حصہ وصول کر رہے ہیں، اور قطار میں پیچھے کھڑے زیر دستوں کی بار ہی نہیں آتی
سماجی اقدار مر چکی ہیں لیکن بزعم خویش زندہ ہے۔ اہل معاشرہ کے پاؤں زمین پر ہیں لیکن ان کے سر کی شکستگی کا احساس نہیں۔ خدا کی زمین پر خدا کی تعظیم نہیں ہو رہی بل کہ طاقت کے بتوں کی پوجا کی جارہی ہے۔ ملبے کے اندر دبے ہوئے لوگ بولنا چاہتے ہیں لیکن لفظ لبوں تک آنے سے پہلے دم توڑ رہے ہیں۔ مٹی میں دھنسے ہوئے انسان مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن ان کی آواز ملبے سے باہر لوگوں کو سنائی ہی نہیں دیتی۔
جب زندگی و موت کے درمیان معلق لوگوں کے لفظ بے نتیجہ اور صدا بے اثر ہو جاتی ہے تو وہ مجبوراََ لفظوں کو صداؤں کو اپنے اندر نہاں خانوں میں اتار کر خاموشی سے زمین کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ بے بسی اور بے چارگی کی اسی کیفیت کو اسی معاشرہ میں دیکھ جا سکتا ہے۔ انسانیت کی تذلیل ہمارا پسندیدہ مشغل بن چکا ہے۔ رشتے، تعلق مطلب پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نفسانسی کا عالم ہے، انسانیت ناپید ہوتی جارہی ہے۔ ہم سوشیل میڈیا کو مثبت کے بجائے منفی استعمال سے اداروں، شخصیات کی بے توقیری کو اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ ہم گمنام خطوط سے انسانوں کی تذلیل کرنے کو اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ انسانیت کے معیار سے گری ہوئی عادات ہیں۔ جن سے معاشرہ مسلسل ٹوٹ رہا۔ دلوں میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔ جائیداد، چند پیسوں کی خاطر انسانوں کا قتل کیا جانا معمول بن چکا ہے۔ ہماری دوستی، تعلق، رشتہ سب مطلب، خود غرضی تک محدود ہوچکے۔ ہماری تعلیم صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہو کر رہ گئی۔
آج ہم اپنی خود غرضی اور کھوکھلی تعلیم کے باعث رسوا ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود غرضی انسان کو دیگر بُرائیوں کی طرف لے جاتی ہے مثلاً جھوٹی خوشامد، فراڈ، دوسروں پر ظلم، کسی کا حق مارنا، چوری، ڈاکہ، اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے کسی کو قتل کرنا یا کروا دینا، دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنا، جعلی دوائیاں بیچنا، اپنا کمیشن بنانے کیلئے مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹ لکھ کر دینا، رشوت لینے کیلئیکسی کے کام میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنا، اپنی ترقی کے لئے دوسروں کے خلاف سازشیں کرنا، تہمت لگانا، امدادی پیکج وغیرہ کے لئے جھوٹا کلیم کرنا، پیٹرول پمپ، بینک۔
ویکسی نیشن سینٹرز وغیرہ پر قطار کو بائی پاس کرکے اپنا کام پہلے کروانا، بلیک مارکیٹنگ کرنا، الغرض خود غرضی کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں مل جائیں گی۔ ہم جس انسانی سماج ومعاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ہماری تہذیب نے پتھروں کے عہد سے اپنی مسافت کا آغاز کیا۔ انسانوں کی لاکھوں سالہ تہذیب عہد بہ عہد اپنے تدریجی مراحل سے ہوتے ہوئے اپنے ارتقا کا سفر طے کرتی رہی۔ چونکہ انسان کی ذہنی نشو و نما میں اس تہذیب کا ایک فطری ارتباط و انسلاک بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا جب ہماری سرکش طبیعت اپنی منھ زور خواہشوں کے ساتھ ہمکنے لگتی ہے تواس کی ضرب سے ہماری تہذیب کے آبگینوں کے پاش پاش ہوجانے کا خطرہ بڑہ جاتا ہے۔ انسان کے سینے میں پروان چڑھنے والی ان منھ زور اور سرکش خواہشوں کو مہار کرنے کے لئے ہمارے انسانی معاشرے کی اخلاقی قدریں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
ایک اچھے معاشرے اور تمدن یافتہ سماج کے بھرم کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ کہ انسان کے اعلی اخلاقی قدروں کو بحال کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہم خود کو تہذیب یافتہ تو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کی ا صل شکل و صورت کچھ اور ہی ہوگی۔ جانوروں کے طرز معاشرت انسانوں کی تہذیب میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن آج انسان خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی تہذیب اور اس کی اخلاقی قدروں کو پوری طرح سے پائمال کرنے کی کوشش میں منہمک نظر آرہا ہے۔
دھیرے دھیرے ہمارے سماجی رشتوں کے مابین واقع سارے امتیازیات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اس مرد اساس معاشرے میں مساوات کا کھوکھلہ نعرہ بلند کرنے والے کچھ روشن خیال افراد نے یورپین کلچر کو ہماری مشرقی تہذیب پر ایک وبا کی صورت میں مسلط کرنے میں کسی طرح کے نشان امتیاز کو برقرار نہیں رکھا۔ ہم جس معاشرے اور تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ مستقبل قریب میں ہماری آنے والی نسلوں میں ایک ایسی خلیج پیدا کردے گی، جس کی تلافی قطعی ممکن نہیں ہوگی۔ وہ تمام رشتہ اپنی حرمت و تقدس سے محروم ہوجائیں گے آج جو ہمارے معاشرے کی اصل شناخت کا ذریعہ ہیں۔
ذرا سوچئے! کہ جب خود غرضی کا رویہ عام ہوجائے تو ہماری سوشل لائف کیسے پُرسکون ہوسکتی ہے! ایسا نہیں کہ دنیا ایثار پسند، دوسروں کی خیرخواہی کرنے والوں سے خالی ہوگئی ہے لیکن ایسوں کی تعداد بہت تھوڑ ی ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
نہ عشق با ادب رہا نہ حسن میں حیا رہی
ہوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی
قدم قدم کھلے ہوئے ہیں مکر و فن کے مدرسے
مگر یہ میری سادگی تو دیکھئے کہ آج بھی
وفا کی درسگاہوں کا نصاب ڈھونڈتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں