کسی بھی قوم یا معاشرے کی راہنمائی کا فریضہ اہلِ قلم ہی ادا کرتے ہیں۔ یہ صاحبان علم و دانش ہی ہوتے ہیں جو عام افراد کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح قیادت کرتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی حالت، کردار کا جائزہ اس قوم کے اہل ِ قلم کے نظریات اور کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔ قلم کے تقدس کو بھی اس طرح نہیں جانتے جس طرح اس کا حق ہے، اس سے بڑی حرمت کیا ہو سکتی ہے جس چیز کی قسم خداوند قدوس نے اٹھائی ہو، اللہ کریم نے قلم کو پیدا بھی پہلے کیا اللہ کریم نے قرآن مجید کی پہلی وحی کے اندر قلم کا ذکر فرما کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ پہلی وحی کی پہلی آیت میں سے ایک آیت کا ترجمہ بھی کچھ اس طرح ہے"جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا" صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور آیت میں خداوند کریم نے قلم کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا۔ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں۔ قرآن کریم جب نازل ہوا تو اس کو قلم کے ذریعے لکھ کر ہی محفوظ کیا گیا۔ قلم ہی کا کمال تھا کہ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود قرآن مجید آج بھی اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں یہ نازل ہوا تھا۔ حضور نبی کریمﷺ نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں بڑے بڑے بادشاہوں کو قلم کے استعمال سے ہی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ قلم نے ہی قلم کار پیدا کیے جو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، قلم کار ہی کی بدولت تاریخ زندہ ہے۔
معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ قلم کو جہاد کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا تاہے۔ ایک قلم کار اگر قلم کا صحیح استعمال کرے تو وہ معاشرے کو صحیح خطوط پر استوار کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے، معاشرے کی تربیت کر سکتا ہے۔ قلم خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوموں کو جھنجھوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا جیسے برصغیر پاک وہند میں حکیم الامت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒنے قلم کی طاقت سے اپنی شاہکار تخلیقات سے مسلمانوں کے اندر آزادی کی روح پھونکی۔
دُنیا کے نامور شاعروں کی طرح برصغیر پاک وہند میں مولانا ظفر علی خان، مولانا الطاف حسین حالی، اسمٰعیل میرٹھی، میر انیس، اکبر الہ آبادی اور مرزا غالب کو قلم ہی نے دوام بخشا۔ فیض، متاعِ لوح و قلم کے تحفّظ کے لیے انگلیاں خونِ دل میں ڈبوتا رہا اور حلقہء زنجیر میں زبان رکھ دینے پر پُر عزم رہا۔ ایک وسیع القلب صاحب قلم کوبا دوستان تلطف با دشمناں مدارا پر عمل کرنا چاہئے کہ یہی آسائش گیتی کا نسخہ کیمیاء ہے۔ زبان قلم کو شیریں بنانے کی نصیحت اکبر الہ آبادی نے بھی کی ہے۔ بنوگے خسرؤے اقلیم دل شیریں زباں ہوکر، جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہوکر!
اگر ایک طرف ایک صاحب قلم اپنے قلم کا غلط مصرف لے کر دوزخ کی آگ خریدتا ہے، تو دوسری طرف دوسرا صاحب قلم اپنے قلم کا صحیح استعمال کرکے جنت الفردوس کا وارث بن سکتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نوع انسان میں قابل ِرشک صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ لوگ جن کو اللہ نے مال دیا اور وہ اپنے مال کو کارخیر میں خرچ کرتے ہیں، دوسرے وہ لوگ جن کو اللہ نے علم وحکمت سے نوازا اور وہ اپنے علم کی بدولت صحیح فیصلے کرتے ہیں اور دوسروں کو علم وحکمت کا درس دیتے ہیں۔
قلم ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے کبھی شاخ نبات سے، کبھی بانس سے، کبھی نرکل سے، کبھی مور کے پر سے قلم بنایا گیا ہے، کبھی اس کی شکل پنسل کی ہوجاتی ہے اور کبھی فونٹن پن کی، کبھی رفل کی، کبھی ٹائپ رائٹر کی اور اب کمپوٹر کے کی بورڈکی اس نے شکل اختیار کی ہے، کچھ اہل ِعلم سے جب کاغذ اور قلم چھین لیا گیا، تو انھوں نے کوئلے سے جیل خانوں کی دیواروں پر لکھنا شروع کر دیا۔
قلم کبھی ابر گوہر بار ہوتا ہے اور کبھی تیغ جو ہر دار ہوتا ہے، کبھی شہریار اصیل ہوتاہے کبھی صور اسرافیل ہوتا ہے کبھی یہ ناموس وطن کا نشان ہوتا ہے، کبھی حق کا پاسبان ہوتا ہے، کبھی اَدب عالیہ کی تخلیق کا وسیلہ ہوتا ہے اس کے بہت سارے کام ہیں جن کا ذکر شورش کاشمیری نے اپنے اشعار میں کیا ہے:سچائی حرف کا حسُن ہے۔ حرف حقائق کے نور میں لپٹا ہو گا تو با وقار اور با اعتبار ہوگا۔ اس میں طاقت ہوگی دبدبہ ہوگا، وہ محتسب بھی ہو گا اور رہنما بھی اور اگر وہی حرف جھوٹ اور ملاوٹ کے لبادے میں لپٹا ہوگا یا مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوگا تو بے وقار اور رسوا ہوگا۔
صادق جذبہ اور خلوص تحریر کو منور کر دیتا ہے اور حرفوں کی فصل کو نکھاربخشتاہے جب کہ عناد اور مفاد اس لہلہاتی فصل کو اجاڑ دیتا ہے اور تحریر کو بے روح اور بد صورت بنا دیتا ہے۔ ہم قلم کی افادیت، مقام و مرتبہ ہی بھول گئے، ہم نے حرف کا سَتر قائم نہیں رہنے دیا، اس کی حرمت پامال کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایسا قلم جو مردہ لفظ تخلیق کرے یا جس سے نکلے ہوئے لفظوں کا محرّک دام اور دُنیاداری ہو اُسے بزرگوں کے بقول صرف ازاربند ڈالنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ قلم اٹھانا ہے تو اس کے آداب سیکھنا ہوں گے، حرف لکھنا ہے تو اس کے تقا ضے نبھانا ہوں گے، اہلِ قلم کو قلم کے تقدّس کی قسم اٹھانا ہوگی۔
قلم کے ذریعے جو علم کی روشنی پھیلائی جاتی ہے وہ مستقبل کی تاریخ کے دریچوں کو روشن کرتی ہے، انسانیت کے قافلے اس کی روشنی میں اپنا سفر طے کرتے ہیں، اس لیے قلم کا فائدہ زیادہ عام اور اس کا فیض مدام ہے۔ اسی لیے تحریر کو تقریر پر فضیلت حاصل ہے، کیوں کہ تحریر کی تاثیر گردش شام وسحر کی زنجیر سے آزاد رہتی ہے۔ جب تک الفاظ ہمارے قلم سے لکھے نہیں جاتے وہ ہمارے ہی ہوتے، لیکن جب لکھ لیے جاتے، شائع ہو جاتے تو وہ قوم کی امانت ہوتے، اور امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ مرا قلم تو امانت مرے عوام کی ہے، مرا قلم توعدالت مرے ضمیر کی ہے! قلم قوم کی امانت ہونے کے ساتھ ہی ہمارے لیے بڑی آزمائش ہے، اگر ہم نے اس کا درست استعمال کیا تو یقینا ذریعہ نجات بن سکتی ہے۔ ہماری رسوائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے حرمت قلم کو پامال کیا، ورنہ معاشرے کی اصلاح و احوال کے لیے دست و گریباں ہونے سے کئی زیادہ قلم کے درست استعمال ہونے سے معاشرہ گلِ گلزار بنایا جا سکتاہے۔ کیوں کہ قلم کی طاقت، تلوار سے بھی زیادہ ہے۔