پب جی ایک آن لائن ملٹی پلیئر بیٹل گیم ہے، جو بچوں میں کافی مشہور ہے۔ یہ اس وقت دُنیا کے مقبول ترین موبائل فون گیمز میں سے ایک ہے، جسے ایک تخمینے کے مطابق ماہانہ دس کروڑ افراد اپنے موبائل پر کھیلتے ہیں۔ بچے اور جوان رات دن پب جی گیم میں مصروف ہیں۔ گیم کا تھیم پُر تشدد ہے۔ کھلاڑی بچوں کو خوف ہوتا ہے کہ ،کوئی انہیں گیم میں گولی نہ مار دےاور وہ ہار نہ جائیں۔ اب نوبت قتل و غارت تک آن پہنچی ہے، ایک طرف کورونا جیسی عالمی وباء نے ایک مرتبہ پھر تباہی مچا لی، تو دوسری جانب پب جی گیم نے خطرناک صورت اختیار کر لی۔
اگر حالات پر بروقت قابو نہ پایا گیا، تو نسل ِ نو کو موت کی خوفناک وادی سے نکالنا مشکل ہی نہیں شائد ناممکن ہو جائے۔یہ گیم صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل جانب سے بتایاگیا ہے کہ، اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہے، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ نیز ہر طرح کے ویڈیو گیم کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض بھی لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔
پب جی گیم ہندوستان میں سب سے زیادہ کھیلی جاتی تھی۔ دسمبر 2017 میں ،آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر یرینڈہ گرین نے یہ گیم متعارف کرائی۔ 2018ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی۔ اس گیم میں دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور ایک کھلاڑی سے لے کر سو کھلاڑیوں تک کی ٹیم ہوتی ہے، جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑتی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی پر فائرنگ کرکے مارتے ہیں۔
اب یہ گیم پاکستان میں خطرناک صورتِ حال اختیار کر چکی ہے، بچے سکولز سے آتے ہی بستہ سمیت اس کھیل میں مشغول ہو رہتےہیں۔ یہ نہ صرف وقت کی بربادی ہے بلکہ اب تو اس گیم ہی وجہ سے قتل، خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ والدین میں شدید اضطراب پایا جانے لگا۔ حال ہی میں لاہور کے علاقہ کاہنہ میں اپنی والدہ، بھائی اور دو بہنوں کو فائرنگ کر کے قتل کرنے والے ملزم زین نے اعتراف کیا ہے کہ، اس نے آن لائن کھیلی جانے والی پب جی گیم سے متاثر ہو کر اپنے اہل خانہ کو قتل کیا ہے۔
پب جی انتہائی خطرناک اور خونی آن لائن وڈیو گیم ہے ،جو اب تک پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں کئی گھرانوں کو برباد اور نوجوانوں کی زندگیاں نگل چکی ہے۔ سوسائٹی کی چشم پوشی کے باعث یہ گیم ایک نیا سماجی المیہ بنتی جا رہی ہے۔ دُنیا کے کئی ملکوں میں اس کے کھیلنے پر پابندی ہے جبکہ دو تین سال قبل پاکستان میں بھی اس کا نوٹس لیتے ہوئے بند کر دیا گیا تھا، لیکن یہ آن لائن خونیں گیم آج بھی جاری ہے۔ اس گیم سے انسانی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
پب جی گیم ہر کس و ناکس کے لئے انتہائی مقبول گیم بن گئی ہے۔ بچے اور جوان رات دن اس گیم میں مصروف ہیں۔ لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ گیم صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ، اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہے، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائیل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔
پب جی گیم کھیلنے والوں کو نفسیاتی مریض بنادیتا ہے۔چونکہ اس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل اور ان کی املاک پر قبضہ کرکے ،نیز دوسروں کو بے انتہاء زد و کوب کرکے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ مکمل اختتام تک گیم کھیلنے والے بچوں کو جرائم کے نت نئے طریقے سوجتے ہیں۔ بچوں کا سادہ ذہن جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یہ گیم خون خرابہ کا باعث بنتی ہے۔ گیم کھیلنے والے بچوں کو ہر طرح کے ہتھیار بندوق اور گن کے نام از بر ہوجاتے ہیں۔ نیز اس گیم میں منشیات کا استعمال، گروپوں کے درمیان لڑائی، تشدد اور ناشائستہ الفاظ کا خوب استعمال ہوتا ہے۔
پب جی گیم بچوں کو تشدد اور مار دھاڑ کے ہنر سکھاتی ہے۔ ایک 19 سالہ لڑکے نے اپنے ہی گھر والوں پر آزمایا اور اپنے ماں باپ اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ لڑکا ویڈیو گیم پب جی کا عادی ہوگیا تھا۔ یہ گیم منشیات کی لت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اس سے نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ پب جی کے استعمال سے سڑک حادثات کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔بغیر کسی روک ٹوک کے چلنے والے انٹرنیٹ نے نسل ِنو کو تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
دور حاضر میں نوجوان نسل ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہے کہ جس کا ہم اگر ازالہ کرنا چاہیں تو کئی برس لگ سکتے ہیں، اگر ختم کرنا چاہیں تو ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی کیونکہ ہماری آنے والی نسلوں کو فحاشی اور تباہی سے بچانا مشکل نہیں ناممکن ہو چکا ہے۔آجکل کا ہرانسان ہو، نوجوان چاہے وہ مدرسے میں ہو ،کالج میں یاسکول میں، یا چاہے وہ کسی اور دوسرے شعبے میں جاب کررہا ہو، تو ہر نوجوان اک عجیب سی مصروفیات میں مبتلا ہے اور وہ مصروفیت صرف انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔
انٹرنیٹ ایک اچھی چیز ہے اگر اسے اچھی سوچ، اچھی ترتیب، اچھے طریقے سے چلایا جائے۔ اس کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو ایک وصیت، ایک بڑھتی ہوئی فحاشی ،بڑھتے ہوئے مسائل اور بڑھتے ہوئے واقعات کی۔ جب تہہ تک پہنچا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب انٹرنیٹ، موبائل، دوستی اور فیس بک کا کمال ہے۔ہمارا معاشرہ اخلاقی اغطاط کی آخری حدود کو چھو رہا ہے، تو بے جانہ ہوگا۔ انٹرنیٹ محض ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے، اس اطلاعاتی نظام سے آپ زندگی کے مثبت مقاصد میں استعمال کرکے انقلاب بھی لاسکتے ہیں۔
بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی نئی چیز ہمارے ملک معاشرے میں آتی ہے، تو سب سے پہلے ہم اس کا منفی استعمال شروع کرتے ہیں، اس کے مثبت استعمالات بعد میں آتے ہیں۔ اگر اس کے مثبت استعمال کو دیکھا جائے، تو اس کی مدد سے تبلیغ اسلام کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ اسلامی لٹریچر کی آن لائن اشاعت نے مغربی دُنیا کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ، وہ افواہوں پر کان دھرنے کی بجائے براہ راست اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرکے اسلام کو سمجھ سکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں قبول ِاسلام تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کا نتیجہ ہے۔
اگر موبائل کو صرف ضروری اور اہم رابطوں تک محدود رکھا جائے، اور کمپیوٹر کے استعمال کو صرف تعلیمی اور کاروباری مقاصد تک محدود رکھا جائے ،تو یہ دونوں آلات انسانی زندگی کو آرام دہ اور پر سکون بنانے کے ساتھ، تعلیمی و کاروباری معاملات کو چار چاند لگانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جبکہ آج ہماری نوجوان نسل دس میں سے تین فیصد مثبت استعمال کررہی ہے۔اس معاشرتی بگاڑ میں جہاں مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی کا ہاتھ ہے، وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے گھرانوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت دینے کا رواج تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
اکثر گھرانوں میں والدین کے سامنے انکی نوجوان بیٹی یا بیٹا گھنٹوں موبائل پر بات کرتے، نیٹ پر چیٹنگ یا میلز کرنے میں مگن ہوتے ہیں ۔لیکن والدین انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرتے، جسکا نتیجہ آگے چل کر نوجوان بچوں اور بچیوں کو تباہی پر ہوتا ہے۔ والدین، اساتذہ اور خود نوجوان نسل ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موبائل فون کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو استعمال کرینگے،تو یہ چیزیں آپ کی زندگی میں واقعی آسانیاں اور سہولیات لانے کا باعث بنیں گی۔ بصورت دیگر مستقبل میں سب سے زیادہ یہی آلات ہماری روحانی اور جسمانی تباہی کا باعث بنیں گے۔
موبائل اورانٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے اربابِ اختیار اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری نبتی ہے، کہ جس طرح موبائل کنکشنز کی بائیومیٹرک تصدیق سے اس ضمن میں اہم پیشرفت ہوئی ۔اس طرح ایسی بھی قانون سازی ضروری ہے کہ، سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر جعلی اکاونٹس بنانے کی راہ بھی بند کی جاسکے۔ اس وقت حالات یہ ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر فحاشی سے بھرپور فحرب الاخلاق ویڈیو، پوسٹس کے علاوہ اسلام پاکستان اور ملک کے اربابِ اقتدارکے خلاف تحریروں کی بھرمار ہے۔
جس کا جو جی چاہتا ہے اپ لوڈ کرتا چلاجارہا ہے، اپنی غلط حرکتوں کے سبب سوشل میڈیا کا بہترین مصرف بھی بری طرح گناکر رکھ دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ موبائل فون کی طرح سوشل میڈیا پر اکاونٹ کھولنے سے لےکر ،بائیومیٹرک تصدیق کی پالیسی شروع کرے ۔بلکہ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ، ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک فیس بک اکاونٹ یا ٹویٹر اکاونٹ کھولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اگر ان جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے حوالے سے کسی نے بھی غلط روش، سستی اورغفلت کا ارتکاب کیا ،تو ہمارے پورے معاشرے کو موبائل اور انٹرنیٹ اور اب پب جی گیم جیسے ایک خطرے کے ہاتھوں ان دیکھی موت کے منہ میں جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
کیونکہ یہ موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال ہی ہے ،جسکی وجہ سے کئی والدین بدنامی کی وجہ سے خودکشی کرچکے ہیں۔ کتنے گھر اجڑ چکے ہیں۔ کتنی لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر والدین کو زندہ درگور کرچکی ہیں۔ پس ہے کوئی جو اس پر غور و فکر کرے!پب جی اور دیگر ایسی آن لائن گیموں کو فوری طور پر بند کیا جائے، ورنہ تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہے۔