1947 ء میں وجود میں آنے کے صرف تین سال بعد پاکستان 11 جولائی 1950 ء میں آئی ایم ایف کا ممبر بنا۔ گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف جا چکا ہے۔ سنہ 1988 ء سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔ آسٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز، یعنی ایس اے پی وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔ گذشتہ 31 برسوں میں مشروط قرض کا یہ 12واں معاہدہ ہوگا۔ 1988 ء کے بعد ’سٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز` شروع ہو گئے۔ بلوم برگ کے مطابق پاکستان روپیہ ایشیاء کی کمزور ترین کرنسی قرار پایا۔ افغانستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گیا۔ بیرونی قرضوں میں 666 ارب کا اضافہ، زر مبادلہ ذخائر میں کمی، اسٹاک مارکیٹ کریش، 48 ہزار پوائنٹس سے 33 ہزار پر آگئی۔ دُنیا کی 140 ریاستوں میں پاکستانی کرنسی کمزور ترین 10 ویں نمبر پرآچکی۔ مئی 2018ء سے اب تک روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی ہوئی۔ اب تک آئی ایم ایف سے 18 بار مجموعی 53.4 ارب ڈالر کے قرضے لئے ہیں جس میں سے 7 غیر جمہوری دور حکومت اور 11 جمہوری دور حکومت میں حاصل کئے گئے۔ اس وقت پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے سب سے پہلا قرضہ 16مارچ1965ء میں 37ہزا ر 5سو ڈالر، 18مئی 1972ء میں 84ہزار ڈالر، 11اگست 1973ء 75ہزار ڈالر، 11نومبر 1974ء میں 75ہزار ڈالر، مارچ 1977میں کو 80ہزار ڈالر، 24نومبر 1980 ء میں 3لاکھ 49ہزار، 2دسمبر 1981ء میں 7لاکھ 30ہزار ڈالر، دسمبر 1988میں 19لاکھ 4ہزار 481ڈالر، دسمبر 1988ء میں 3لاکھ 82ہزار 410ڈالر، 16دسمبر 1993میں 88ہزار ڈالر، 22فروری 1994ء میں 123، 200ڈالر، پھر 172، 200ڈالر، 13دسمبر 1995ء 294، 690ڈالر، پھر 265، 370ڈالر، 20اکتوبر 1997ء میں 113، 740ڈالر، 29نومبر 2000ء میں 4لاکھ 45ہزار ڈالر، 6دسمبر 2001میں 861، 420ڈالر، 24نومبر 2008میں 4936035، جون 2016 کے اختتام پر کل (Gross) ملکی قرضہ 19.68 کھرب (Trillion) روپے تھااور خالص (Net)ملکی قرضہ17.83کھرب روپے تھا جس میں سے خالص مقامی قرضہ 11.78 کھرب روپے اور بیرونی قرضہ6.05کھرب روپے تھا۔ اس طرح خالص مقامی قرضہ خالص ملکی قرضے کا تقریباً 66 فیصد جب کہ باقی ماندہ 34فیصد بیرونی قرضہ تھا۔ جون2016کے اختتام پر درمیانی اور طویل مدت کے قرضے کی مالیت 8.6کھرب روپے تھی جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 13.7فیصد زیادہ ہے۔ قلیل مدتی قرضوں میں ایک سال کے دوران 8.4فیصد اضافہ ہوا۔ 4دسمبر 2013ء 320000ڈالر، 2013-17ء تک 39.3 ارب ڈالر کے 3 قرضے لئے۔ جون 2008کو پاکستان کا کل (Gross) سرکاری قرضہ6، 126ارب روپے تھا جب کہ خالص(Net) سرکاری قرضہ 5، 650ارب روپے تھا جس میں 2، 798ارب کا خالص (Net)مقامی اور 2، 852ارب روپے کا بیرونی قرضہ شامل تھا۔ مالی سال 2012-13کے اختتام تک کل (Gross)سرکاری قرضہ 14، 318ارب تک پہنچ چکا تھا جب کہ خالص(Net) سرکاری قرضہ13، 483ارب روپے تھا۔ (2008-13) میں 19فیصدسالانہ کی شرح سے 7، 833ارب روپے کاخالص(Net)قرضہ، 2013میں پہلامالی سال 14، 318ارب روپے کے کل (Gross)ملکی قرضے اور13، 483ارب روپے کے خالص (Net) ملکی قرضے سے شروع کیا۔ جس میں 48.1ارب ڈالر (4، 797ارب روپے) کا بیرونی اور 8، 686ارب روپے کا خالص(Net) مقامی قرضہ شامل تھا۔ جولائی 2013سے جون 2016کے درمیان کل (Gross)ملکی قرضہ19، 678ارب جب کہ خالص (Net)ملکی قرضہ 17، 825ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں سے 57.7ارب ڈالر (6، 051ارب روپے) بیرونی قرضہ جب کہ 11، 774ارب روپے خالص (Net)مقامی قرضہ ہے۔ اس طرح سرکاری قرضے میں 4، 342ارب روپے کا خالص (Net)اضافہ ہوا ہے جس میں 9.6ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ شامل ہے۔ جون 2008 میں خالص(Net) قرضے اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تناسب 53.1فیصد تھاجو جون 2013، 60.2فیصد تک پہنچا۔ جولائی 2013سے جون2016کے درمیان خالص(Net) قرضے اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا تناسب 60.2فیصدتھا۔
اور اب 2019ء میں 19656 ارب ڈالر کا قرضہ جو 3 سال میں دیا جائے گا ورلڈ بینک اور ایشیائی بینک سے بھی 2 سے 3 ارب ڈالر ملیں گے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈنے پاکستان کے قرضوں کے متعلق اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سنہ 2020 تک پاکستان پر قرضوں کا حجم 114 ارب ڈالر ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف سے صرف معاہدہ ہونے پر ڈالر 154 روپے کا ہوگیا۔ اور پھر پچھلے مالی سال کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 37.7 ارب ڈالر رہا ہے جو اُس سے پچھلے مالی سال سے 16 فیصد زیادہ تھا۔ 2008ء کے بعد تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا رجحان نظر آتا ہے جو گزشتہ کچھ سالوں سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ مثلاً 2014ء میں یہ خسارہ 20 ارب ڈالر، 2015ء میں 22.2 ارب ڈالر، 2016ء میں 23.9 ارب ڈالر، 2017ء میں 32.5 ارب ڈالر اور پھر 2018ء میں 37.7 ارب ڈالر ہوا۔ پاکستان میں صرف مارچ میں ہی اب افراطِ زر8.82فیصد سے 9.41فیصدتک پہنچ چکاہے، جو گزشتہ پانچ سالوں میں بلند ترین ہے۔ پٹرول اب 108روپے فی لیٹر اور ڈیزل 122.32فی لیٹر میں ملتاہے۔ پاکستان کو ابھی معاشی بجٹ 2019سے بھی نمٹنا ہے اور مزید ٹیکسز اور مہنگائی سے معیشت پر مزید بوجھ پڑیگاکیونکہ غیربراہِ راست اوربراہِ راست ٹیکس متوقع ہیں۔ عام آدمی کیلئے بجٹ کے بعد کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔ دُنیا کے جو ممالک اب ترقی کے سفر پر ہیں، ان کی کرنسیوں کی قدر مستحکم ہے۔ مثلاً 4.08 ملائشین رنگٹ کا ایک ڈالر، 3.62 اسرائیلی شیکل کا ایک ڈالر، 14.07جنوبی افریقن رینڈ کا ایک ڈالر، 3.64 قطری ریال کا ایک ڈالر، 6.77 چینی یوآن کا ایک ڈالر، 3.70 برازیلین ریال کا ایک ڈالر، 71بھارتی روپے کا ایک ڈالر، 66.29 روسی روبل کا ایک ڈالر، 38.53 ارجنٹائنی پیسو کا ایک ڈالر، اور 83.70 بنگلہ دیشی ٹکا ایک ڈالر کے برابر ہے۔
ہائپر انفلیشن ایک ایسی معاشی اصطلاح ہے جس میں مہنگائی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی کی قدر میں انتہائی تیزی سے کمی آتی ہے۔ ملک مزید مقروض ہوتا ہے، کرنسی کی قوت خرید گھٹ جاتی ہے، تجارتی توازن بے حد خراب ہوجاتا ہے۔ بہت سارے ممالک میں ہائپر انفلیشن ہوچکا ہے۔ مثلاً 1922 میں آسٹریا، 1795 میں فرانس، چین میں 1943-1945 تک، جرمنی میں 1920، شمالی کوریا میں 2009-2011 تک، سوویت یونین میں 1921-1922 میں؛ جبکہ اس کی تازہ مثالیں وینزویلا اور زمبابوے ہیں۔ وینزویلا میں ہائپر انفلیشن 2016 میں شروع ہوا۔ 2014 میں مہنگائی کی شرح 69 فیصد سالانہ تک پہنچ گئی، 2015 میں 181 فیصد، 2016 میں 800 فیصد، 2017 میں 4000 فیصد اور 2018 میں بڑھتے بڑھتے 1698488 فیصد تک پہنچ گئی۔ زمبابوے کی حالت بھی ایسی ہی ہوگئی تھی کہ لوگ ایک کلو سبزی خریدنے کیلیے پیسوں کی بوریاں بھر کر لے جاتے تھے۔ آخرکار انہوں نے ڈالر ہی کو اپنی کرنسی ڈیکلیئر کردیا۔ جیسے یکم جنوری 1986 کو اسرائیل نے پرانے ہائپر انفلیشن زدہ اسرائیلی شیکل کو 1000:1 کی نسبت سے بدل دیا تھا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مہنگائی قابو میں آگئی، ادائیگیوں میں توازن میں آگیا، 2010 میں کرنٹ اکاؤنٹ جی ڈی پی کے 3 فیصد سرپلس رہا اور 2000 سے 2010 تک اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ موجودہ کرنسی کی قدر کے ساتھ ہم اپنے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتے، کیونکہ باربار قرضوں کی شرائط پوری کرنے کی وجہ سے روپے کی قدر میں بے حد کمی ہوچکی ہے۔ مصنوعی کاغذی کرنسی کی قدر کو آئے دن گھٹا کر ہمارے جیسے ملکوں کو مزید غریب کرنا بدترین استحصال ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافہ کر کے اُسے موجودہ 10.75فیصد سے بڑھا کر 12فیصد تک کیا جائیگا، جس سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا۔ رواں مالی سال 2018-19میں ضمنی جی ڈی پی گروتھ گزشتہ 9سال کی کم ترین سطح 3.29فیصد یعنی 280ارب روپے پر پہنچ گئی ہے جبکہ 2017-18میں یہ 5.35فیصد یعنی 313ارب ڈالر تھی۔ رواں سال جی ڈی پی گروتھ میں 33ارب ڈالر کی کمی سے 40لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اور 10لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف 9ماہ میں 20فیصد کمی سے ڈالر کی قدر 123.16روپے سے 149.07پیسے تک پہنچ گئی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی زراعت، بڑے درجے کی صنعتوں اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں واضح ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج 53، 000انڈیکس کی حد سے گر کر 33166انڈیکس کی نچلی ترین سطح تک آگیا ہے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آنے والے بجٹ میں عملدرآمد کر کے صنعتکار، تاجر اور ایک عام آدمی بری طرح متاثر ہوگا، بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ، اضافی ٹیکسز سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور افراطِ زر ڈبل ڈیجیٹ میں پہنچ جائیگا۔ ’پاکستان اس مرتبہ مکمل طور پر آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے اور پاکستان کو سخت شرائط پوری کرنا پڑیں گی۔ `آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کا مختص کوٹہ 2031 ملین ایس ڈی آر ہے۔ ایس ڈی آر کرنسی کی وہ قسم ہے جو آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے لین دین کے لیے استعمال کرتے ہیں اور 10 مئی کو ایک ایس ڈی آر کی قدر 1.38 امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ ’آئی ایم ایف کا ڈیفالٹر ہونا خودکشی کے مترادف ہو گا۔ قرض واپس نہ کرنا پورے بین الاقوامی معاشی سسٹم سے الگ تھلگ ہونا ہو گا۔ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کسی ملک کی معیشت کو چلانے کے لیے آخری حربہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف میں مصر کو ایک پوسٹر چائلڈ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پہلے مصر میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے تھے اور آج یہ شرح 55 فیصد ہے۔ مصر میں اس طرح کے پروگرام کے ثمرات یہ ہیں کہ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مصر کی کرنسی کی قدر کم ہونے سے وہاں مہنگائی بہت تیزی سے بڑھی۔ ، پاکستان میں بھی یہی ہو گا، ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا، روپے کی قدر کم ہو گی، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی اور یہ سب پاکستانی عوام کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔
قرض سے پاکستان میں کسی طرح کا معاشی استحکام نہیں آئے گا کیونکہ یہ شرح نمو کو مزید گرا دے گا۔ ’آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے دو سے تین برس تک ہمیں اپنے جی ڈی پی کی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد رکھنا ہو گی۔ 1جس ملک میں 15 لاکھ نوجوان ہر برس روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اس ملک میں شرح نمو کم از کم سات سے آٹھ فیصد ہونا ضروری ہے۔ ، ’اگر قلیل مدتی اثرات کی بات کی جائے تو یہ قرضہ پاکستان کے لیے کسی حد تک معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو گا جبکہ معاشی پالیسیوں میں بہتری کا عنصر آئے گا۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بالواسطہ عوام متاثر ہوں گے اور مہنگائی بڑھے گی اور تمام درآمدی اشیا کی قیمت بڑھے گی۔ `ہمیں معاشی پالیسی کو دوائم دینا ہو گا۔ آخر ہمارا انحصار کب تک دوسروں پر رہے گا اور قرضے کی مے کب تلک؟