قدرتی آفات کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں انسانی بداعمالیاں، نظام قدرت جیسی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ یہ آفات اچانک بھی نہیں آتی زمین انسان کو بہت پہلے سے آگاہی دیتی ہے۔ ہماری عدم ِ توجہ سے نہ صرف مالی نقصان بلکہ لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کا بدترین شکار ہونے والے دس ممالک کی فہرست میں پاکستان دو دہائیوں سے موجود ہے۔ موسمیاتی تبدیلی قدرتی آفات کو بڑھا دیتی ہے اور سیلاب، کم دورانیے کی تیز بارشیں، برفانی اور سمندری طوفان اور خشک سالی پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کی معیشت پر بدترین اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں وہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو پہلے ہی غربت کے ہاتھوں بدحال ہوتے ہیں۔
میپل کرافٹ کے مطابق مسلسل جنگیں اور فسادات سے معاشرے کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے پھر ان ممالک میں کرپشن، بد عنوانی کی وجہ سے قدرتی حادثات سے لڑنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنے محلِ وقوع کے مطابق اس فہرست میں بالترتیب بھارت، بنگلا دیش، انڈونیشیا، فلپائن، امریکا، جاپان، نائیجیریا، برازیل اور پاکستان شامل ہیں کیونکہ اپنے قدرتی ماحول اور محلِ وقوع کے لحاظ سے یہاں بار بار قدرتی آفات آتی رہتی ہیں جب کہ پاکستان اور بھارت میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان، تائیوان اور ہانگ کانگ میں 85 فیصد آبادی کم ازکم ایک قسم کی قدرتی آفات کے سامنے ظاہری حالت میں موجود ہے۔
میپل کرافٹ کی یہ رپورٹ قدرتی آفات کے بین الاقوامی ڈیٹا سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں دُنیا میں لینڈ سلائیڈ، سیلاب، طوفان، وبا اور دیگرآفات کا مکمل ڈیٹا بیس شامل ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ 1900 سے لے کر اب تک قدرتی آفات کا گراف پہلے نمبر پر بھارت اور دوسرے نمبر پر پاکستان میں بلند ہوا ہے۔ صرف 1991 سے 2015 تک کے 22 برسوں میں پاکستان میں قدرتی آفات کے 40 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 2010 کا ہولناک سیلاب اور 2005 کا زلزلہ شامل ہے۔ جولائی 2010 میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 ملین یعنی 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریباً دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010 کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
2010کے سیلاب سے بڑے پیمانے پر سڑکیں تباہ ہوئیں، 10,000 کے قریب ٹرانسمیشن لائنیں اور ٹرانسفارمرز متاثر ہوئے، جبکہ 150 پاور ہاؤسز زیرآب آئے۔ جس کے باعث 3.135 گیگا واٹ توانائی کا شارٹ فال ہوا۔
نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 29 ستمبر تک تقریباً 2,523,681 لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 360 افراد جاں بحق، 646 لوگ زخمی، اور 56,644 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ علاوہ ازیں 4065 سے زائد دیہات بھی متاثر ہوئے، جبکہ 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ، 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملکی تاریخ میں 14 سال قبل آنے والاشدید ترین زلزلہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جس کے نتیجے میں ملک بھر کے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار بیٹھے، وادی کشمیر میں لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ متعدد علاقوں میں لاکھوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، متعدد سکول کالجز، یونیورسٹی کے اساتذہ، طالب علم، اور عام شہری منوں مٹی تلے دب گئے۔ زلزلے نے مالی و جانی نقصانات کے علاوہ زندہ بچ جانے والے متاثرین اور پوری قوم پر شدید نوعیت کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب کیے۔ انسان زمانہ قدیم سے قدرتی آفات کا سامنا کرتا آرہا ہے اور آج کے دورِ جدید میں بھی انسان تمام تر ترقی کے باوجود قدرت کی بھیجی ہوئی آفات کے آگے بے بس نظر آتا ہے، زلزلہ سے ہم نے سبق نہیں سیکھا آج بھی کئی عمارتیں رنگ روغن کر کے استعمال کی جارہی ہیں جو کسی بھی وقت بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایسی رہائش گائیں موت سے پہلے موت کا پیغام ہیں۔ اور پھر فالٹ لائن کے اوپر آباد کاری ہے اور کی بھی جا رہی، حالانکہ اس حوالہ سے با ر ہا مرتبہ بتایا جا چکا کہ فالٹ لائن اور اس کے گرد کسی بھی وقت ارتعاش پیدا ہو سکتا جو خطرناک بھی ہو سکتا۔
جدید سائنس نے اس راز پر سے تو پردہ اُٹھا دیاہے کہ زمین کی اندرونی سطح گہرائیوں میں مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے جن کے ہلنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں زمین کے اوپر زلزلہ محسوس ہوتا ہے لیکن کس وقت کہاں پر کتنی گہرائی میں کونسی پلیٹیں آپس میں رگڑ کھا رہی ہیں یا مستقبل میں کھا سکتی ہیں، اس کا کھوج لگانے سے انسانی دماغ تاحال قاصر ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس کی بنا پر ہر ذی شعور انسان خدا کے وجود اور عظمت کا قائل ہوجاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک قدرتی آفات کا شکار ہوتے ہیں وہیں امریکہ جیسی سپرپاور بھی مہلک طوفانوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ مستقبل میں قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، جاپان، فلپائن، میکسیکو، سوڈان، افغانستان اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں، اس رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ قدرتی آفات سے پاکستان کی ستر فیصد آبادی، بھارت کی بیاسی فیصد اور بنگلہ دیش کی سو فیصد آبادی متاثر ہوسکتی ہے، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگرخطرے کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو بے شمار شہر بڑے طوفانوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بننے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے 1989ء سے پاکستان کو سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے باعث خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں شامل کررکھا ہے، اسی طرح کراچی کے حوالے سے مختلف موسمیاتی ماہرین کے بیانات گاہے بگاہے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ اگلے پانچ عشروں کے اندرملک کا سب سے بڑا تجارتی شہر کراچی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بحیرہ عرب میں غرق ہوسکتا ہے لیکن ایسے خدشات دُنیا کی دیگر بندرگاہوں کے کنارے قائم شہروں کے بارے میں بھی کیے جاتے ہیں۔
آفات دُنیا کے تمام ممالک میں آتے ہیں آزادی کے فقط ایک سال بعد 1950ء میں پندرہ بڑے دریاوں پرڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور بیس سال کے عرصے میں ملک بھر میں سینکڑوں ڈیمز اور نہروں کا جال بچھا دیا، ورلڈ کمیشن آن ڈیمز کی 2000ء رپورٹ کے مطابق چین میں بائیس ہزار سے زائد ڈیم موجود ہیں اور بے شمار زیرِتعمیر ہیں، چین میں آج بھی شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن ڈیمز کی بدولت سیلاب کی تباہ کاریوں میں کئی سو گنا کمی لائی جاچکی ہے، دوسری طرف ہر سال سیلابی پانی کو ذخیرہ کرکے کاشت کاری اور بجلی پیدا کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ خوبصورت ڈیمز کے پرفضا مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب ہیں۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک اور کامیاب مثال جاپان کی ہے، تین ہزار سے زائد مختلف جزیروں پر مشتمل سرزمین ِجاپان زمانہ قدیم سے زلزلوں کا سامنا کرتی آرہی ہے، رواں صدی کے آغاز 2004ء میں بحرہند میں زیر آب زلزلے کے باعث سونامی اپنی تباہ کاریوں کی بنا پر تاریخ کی ایک ہولناک قدرتی آفت سمجھا جاتا ہے جب بلامبالغہ ہزاروں افراد آناً فاناً موت کے منہ میں چلے گئے، آج جاپان دُنیا بھر میں زلزلہ پروف عمارات کی تعمیر میں مستند مانا جاتا ہے، جاپانی ماہرین نہ صرف اپنے ملک کی عمارات کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے قابل ہوچکے ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی تکنیکی معاونت فراہم کررہے ہیں۔ جاپان میں قدرتی آفات کے موقع پر مدد فراہم کرنے کیلئے خودکار روبوٹ بھی تیار کئے جارہے ہیں۔ ہماری زمین خداوند تعالیٰ نے بنائی ہے تب سے ہی قدرتی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی زمین کے متعدد خشک حصے زیرآب آجاتے ہیں تو کبھی نئے جزیرے سطحِ سمندر کے اوپر ابھر کر سامنے آجاتے ہیں، حقیقت پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ انسان قدرت کے کاموں میں مداخلت کے قابل تو نہیں لیکن قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصانات کی شدت کم ضرور کرسکتا ہے۔ درحقیقت قدرت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی کاہم خود کیسے سامنا کرتے ہیں اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پردوسرے متاثرین کی کیسے مدد کرتے ہیں، ہمیں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کیلئے عالمی برادری کے اشتراک سے مختصر المدتی اور طویل المدتی دونوں طرح کی حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے، اسی طرح قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ کاری کے بعد چندے اور امداد کی اپیل کی بجائے ہمیں پانی کے عظیم ذخیرے کو محفوظ کرکے قومی ترقی کیلئے استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہمیں ان قدرتی آفات میں پوشیدہ قدرت کے اس پیغام کو سمجھنا چاہئے کہ زلزلے اور سیلاب سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا کسی ملک کے بس کی بات نہیں لیکن انسانی تاریخ میں سرخرو وہی ممالک قرار پاتے ہیں جو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے درپیش مشکلات سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مستقبل میں اپنے عوام کے بچاوکیلئے لائحہ عمل ٹھوس بنیادوں پر استوار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کیونکہ قدرتی آفات سے پہلے انتظامات پر جہاں ایک ڈالر خرچ آتا ہے، وہاں آفات کے بعد سات ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبل از آفات انتظامات نہ کرنے سے خرچ 6 گنا بڑھ جاتا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہوتا ہے۔
تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پاس پیشنگوئی کے باوجود کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ تباہ کاریوں کے بعد، بجائے اس کے کہ کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جانی چاہیے۔
جب تک ہمارے ملک میں قوانین سنجیدگی سے نہیں بنیں گے، اور ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا، ہم ہردفعہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے، اور عوام کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ساتھ ساتھ معیشیت بھی ڈوبتی چلی جائے گی۔
پاکستان میں سیلابوں اور خشک سالی کے حوالے سے پیشگوئی اور ہنگامی منصوبہ بندی کا ایک سائنسی نظام فوری طور پر وضع کرنے کی ضرورت ہے۔