روزہ جہاں رضاء الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے، وہاں ہی کورونا اور دیگر خطرناک عالمی وباؤں، جان لیوا امراض کا بھی بہترین علاج ہے، اس حقیقت سےمسلمان ہی نہیں، غیر مسلم بھی بعدازتحقیق معترف ہیں۔ اِسلام نے روزہ کو مومن کے لئے شفاء قرار دیا، سائنس نے اس پر تحقیق کی تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے۔ حضور ﷺ نے سچ فرمایا ہے "روزہ رکھو صحت مند رہوگے۔ روزہ رکھا کرو اس لیے کہ روزہ جہنم کی آگ اور زمانے کی مصیبتوں کیلئے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزہ رکھا کرو کہ وہ رگوں پر داغنے کے طریقہ علاج کی طرح ہے اور اکڑ کو ختم کرتا ہے۔ روزہ رکھا کرو وہ خالص چیز ہے"۔
اسلام دین ِ فطرت ہے، ہر ایک عمل کے پیچھے حکمت کار فرماء ہے، وہ احکامات جو اسلام نے صدیوں پہلے بتائے، جدید ترین سائنس آج اُن کے ابتدائی فوائد کو جان سکی ہے، ایسے ہی روزہ کے متعلق چند جدید طبی فوائد، تحقیق کے نتائج قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نظر:بمطابق طبِ جدید روزہ دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل طور پر خاتمہ کرتا ہے، روزہ دار کو جسمانی کھچاؤ اور ذہنی ڈپریشن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، سکندر اعظم کہتا ہے: "میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے۔ جو آدمی صبح اور شام کھانے پر اکتفاء کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزارسکتا ہے، جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو، میں نے ہندوستانی سر زمین پر گرمی کے ایسے خطے پائے جہاں سبزہ جل گیا تھا لیکن وہیں میں نے صبح سے شام تک کچھ کھایا نہ پیا تو میں نے اپنے اندرایک تازگی اور توانائی محسوس کی۔"ارتھ شاستر"میں چندرگپت موریا "کے وزیر"چانکیہ "کا قول ہے:"میں نے بھوکا رہ کر جینا سیکھا اور بھوکا رہ کراڑنا سیکھا ہے میں نے دشمنوں کی تدبیروں کو بھوکے پیٹ سے الٹا کیا ہے"۔
آکسفورڈیونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ اکا کہنا ہے کہ "میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اورکوئی نعمت نہ ہوتی میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانو ں کے طرز پر رکھنا شروع کئے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ (Stomach Inflammation)میں مبتلا تھا کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی"۔
پوپ ایلف گال ہالینڈکے سب سے بڑے پادری گذرے ہیں روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کیے کہ "میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں۔ میں نے شوگر، دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے۔ شوگرکے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو گئی۔ دِل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے زیادہ افاقہ معدہ کے مریضوں کو ہوا۔
فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا(food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے۔
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤکو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤسے سامنا نہیں پڑتا۔ جرمنی، امریکہ، انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک، کان، گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دِن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دِل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے۔
امریکہ میں ڈاکٹر ہربرٹ ایم شلٹن کی کتاب س کا موضوع ہے"روزہ تمہاری زندگی کو نجات دے سکتا ہے"اس امریکی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روزوں کے ذریعے موٹاپے، میگرین، الرجی، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے دردوغیرہ نیز جلد کی بہت سی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں روزے کو ایسا آپریشن قرار دیا گیا ہے جو چیرنے پھاڑنے والے آلات استعمال کئے بغیر ہی کیا جاتا ہے۔
فرانس کے محقق اور فیزیالوجسٹ ڈاکٹر الکسیس کارل کا کہنا ہے کہ روزے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کے ذریعے بدن کے اعمال میں توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر الصقیر نے کہا کہ انسانی جسم کو کولاجین، بے رنگ پروٹین جس میں زیادہ تر گلائی سین، ہائیڈ راکسی پروٹین اور پرولین پائی جاتی ہے۔ جسم کی تمام اتصالی بافتوں یا Comnective Tissues میں خصوصاً جلد کری، ہڈی یا Cartilage اور جوڑ بندھن یعنی Tendons میں ہوتی ہے، اور الاسٹن کے پھیلاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ اس میں مدد دیتا ہے۔
یونیورسٹی آف ساوتھ کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے سے متعلق تازہ ترین تحقیق سے اُن افراد کو خاص طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے جن کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوچکا ہے۔ بالخصوص کینسر کے وہ مریض اِس تحقیق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں کیمو تھیراپی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر Razeen Mahrof:جو آکسفورڈمیں Anesthetistہیں، کہتے ہیں کہ غذا اور صحت کا تعلق بہت مضبوط ہے۔ گو کہ رمضان وزن کم کرنے والوں کے لئے ایک زبردست موقع ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے روحانی فائدے ہیں۔ بیک وقت ہم جسمانی اور روحانی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔
سویڈن کے ریسرچ اسکالرزکہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ایسے افراد کی جماعت جو تھوڑے فربہی مائل ہوں، کم ہونے لگتی ہیں، جب کہ جو افراد دبلے پتلے ہوں ان کی صحت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
یونیورسٹی آف ساوتھ کیلی فورنیا میں جیرونٹولوجی اور بایولوجیکل ریسرچ کے پروفیسر والٹر لونگو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے یعنی دِن بھر بھوکا رہتا ہے تو جسم میں اسٹیم سیلز اپنا کام شروع کرتے ہیں یعنی مدافعتی نظام کی بحالی شروع ہوجاتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن میں ریجنریٹیو میڈیسن کے پروفیسر کرس میسن کہتے ہیں: "محض تین دن کا روزہ رکھنے سے جسم کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچ سکتا، اِس مدت کے دوران جسم کو کینسر کے اثرات سے بہت حد تک دور کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ کم کھاکر یا بھوکا رہ کر یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقہ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور 82سے 92گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں ان کے لیے روزہ کبہترین علاج ہے، جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ زبان کے اندر taste budsہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رْونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔ روزہ ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ روزہ، کورونا، ہارٹ اٹیک اور دیگر موذی امراض سے نجات دلانے کا ایک ایسا آپریشن ہے جس کی کوئی بھی قیمت نہیں۔