مینارِ پاکستان کا دلخراش واقعہ جہاں افسوس ناک ہے وہاں ہی صنعف ِنازک کے لیے تشویش ناک بھی ہے، کیا غلط، کیاصحیح ہے اس سے قطع نظر، یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے معاشرہ میں طبقہ نسواں کو وہ حقوق، تحفظ حاصل نہیں جو اسلام نے انہیں دِیا ہے، یہ آج کی بات، واقعہ نہیں بلکہ یہ تاریخ کا ہمیشہ سے افسوس ناک پہلو رہا ہے، انہیں اپنے حق کے لیے جہدوجد کرنی پڑی، اس حوالہ سے بہت سے تحاریک چلائی گئی، جن میں سے ایک طبقہ نسواں کی معاشرتی زندگی اوران کے احوال سے متعلق تحریک کانام تانیثیت ہے یہ تحریک دراصل عورتوں کی آزادی اور اِن کے تمام طرح کے حقوق کی حمایت کرتی ہے۔ تانیثیت کی شروعات عورتوں کی ثانوی حیثیت، استحصال، حقوق، وراثت، ظلم وتشدد اور شخصی آزادی کی بنیاد پر ہوئی۔ دُنیا کی تمام قوموں نے جنسی طور پر مرد اورعورت کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ عورت ہرمقام پر احساسِ کمتری کا شکار ہوئی اورسماج کا دوسرا حصہ طاقتور ہوتاچلا گیا۔ عورتوں کے حقوق کی حق تلفی ہونے لگی۔ چاہے وہ معاشی طورپر ہو یا پھر سماجی اور سیاسی مقام پر، عورت کی وجہ سے خودکو بے بس وبے کس لاچار مجبور پاتی ہیں، اسی ذہنی رویے کی وجہ سے دُنیا بھرمیں ایک تحریک کی شکل میں نمودار ہوئی۔ اسی تحریک کا نام تانیثیت پڑا۔"تانیثیت"ایک اصطلاح ہے اور یہ اصطلاح ایک ایسی طرزِ فکر یا طرزِ احساس یا نقطہ نظر کے لیے استعمال کی گئی جس میں "عورت" کوبہ حیثیت انسان کے سمجھنے اورسماج کو سمجھانے کی کوشش مطلوب رہی ہے۔ اس طرزِ فکر کے تحت صدیوں سے چلی آرہی عورت کی زبوں حالی پر تحریری اورتقریری دائرہ کار رونما ہوئے۔
دانشورطبقہ بھی آگے آیا اوراس تحریک کو تقویت بخشی اسی طرح عورت میں خود اعتمادی پیدا ہونے لگی اورعورتوں میں خودکے حقوق کو لے کر ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجہ طبقہ نسواں اپنے حق ومساوات کے لئے آگے آیا۔ طاقتور مردسماج پر اس کا گہرا اثر ہوا اورآخرکار مرداساس معاشرہ عورت کو سیاسی، سماجی، اقصادی اورمعاشی سطح پر درجہ دینے پر مجبور ہوگیا۔ خواتین کو بھی زندگی کے ہرشعبہ حیات میں مساوی درجہ کاحق ملا اورتعلیمی ادارے عورتوں کی اصلاح کے لئے قائم کئے گئے جس سے نسوانی شعور میں بیداری اور تحریک پیدا ہونے لگی۔ جس کے نتیجہ میں بہت سی تحریکیں وجودمیں آئیں اورہندوستان کی تہذیب واَدب کے لئے معاون ثابت ہوئیں۔ یہ19ویں صدی کا وہ دورہے جب مغربی علوم وفنون کا اثرمشرقی زندگی پر اپنا رنگ ظاہر کرنے لگا تھا۔
ہندوستان میں حقوق نسواں کی شروعات انیسویں صدی کے سماجی حالات میں ہوئی کیوں کہ یہاں سماجی اورمذہبی حوالے سے بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں مذہب اورتہذیب کا گہرا اثررہا ہے جس کی وجہ سے کئی برائیاں مذہب کے نام پر عروج پرتھیں اور اس کا اثر خواتین پرزیادہ ہوا۔ یہ وہ صدی تھی جب ہندوستانی سماج مغربی سماج کے مقابلے بہت پسماندہ تھا۔ مذہبی روایات، غیرفطری سوچ اور فرسودہ رسومات، تعلیمی اعتبار سے پچھڑاپن، عدم مساوات کا بول بالا تھا جبکہ مغربی سماج ترقی کی راہ پر اپنے جوہر دکھارہاتھا اورہندوستانیوں کی سوچ وفکر اس بات سے بے خبر تھی۔ کیونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے دور تھے۔ جہاں علم وعمل کا رواج ہی نہ ہووہاں بھلا عورتوں کی تعلیم کس طرح ممکن سمجھا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہرمعیار پر عورتوں کی حالت ابتر ظاہر ہوئی۔ ہندوستان میں جو مذہبی، سماجی غیر ضروری رسومات فروغ پارہی تھیں ان کا درست کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ اصلاح معاشرہ کے نام پر کئی تحریکیں وجودمیں آئیں جس کا اثرہندوستانی سماج پر بہت گہرا ہوا۔ معاشرے کی اصلاح شروع ہونے لگی ان تحریکات کا پہلا مقصد خواتین کی تعلیم کوفروغ دَینا تھا۔ یہ سماجی اورذہنی انتشار کا زمانہ ہندوستان کے لئے بڑا سخت تھا جہاں تعلیم کا رواج نہیں تھا ایسے میں تعلیم نسواں کے خیال کو تسلیم کرنا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ مگران حالات میں انگریز حکمران معاون ثابت ہوئے جنہوں نے طبقہ نسواں کے لئے بھی تعلیمی ادارے قائم کرنے میں ہندوستانی مفکروں کی مددکی۔
انگریزوں اور ہندوستانی دانشوروں کی جدوجہد کی وجہ سے ہندوستانی سماج اور خواتین کے ذہنوں میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ جو مصلحین مغربی نظام سے فائدہ اٹھانے کے حق میں تھے اور ان کے معاشی نظام کو خوب جان گئے تھے وہ مغربی طرز ِ تعلیم کی طرف بھی متوجہ ہونے لگے۔ اوراس کے زیرِ اثر دانشوروں کی نئی نسل وجود میں آئی اورآگے چل کر یہی دانشور طبقہ ترقی پسند تحریک، سماجی تحریک، سیاسی تحریک، معاشی تحریک، حقوقِ نسواں، آزادی نسواں اورتانیثی تحریک کا علمبردار بنا۔ ان سبھی میں حقوقِ نسواں کا مقصد پیش رکھا گیا۔
ہندوستان میں مغربی حکومت کے دوران بہت سی سماجی برائیاں موجودتھیں۔ مثلاً دخترکشی، نوعمری شادیاں، تعلیم نسواں پر پابندی، ستی پرتھاوغیرہ اوران برائیوں کا اثر اتنا تھاکہ عورت کا جینا محال تھا۔ سماجی اصلاحی پیروکار مسلسل اس کوشش میں لگے تھے کہ ان برائیوں کا سدا کے لئے خاتمہ ہومفکر اور مصلحین نے پوری کوشش کے ساتھ ان برائیوں کو دورکرنے کا بیڑا اپنے سراٹھایا اوربرائیوں کے خلاف کھل کر مخالفت کرنے لگے۔ انگریز حکمران نے بھی دخترکشی اوررسمِ ستی جیسی برائیوں کو غیر انسانی قرار دیامگر پھر بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ راجارام موہن رائے نے چھوٹی عمر کی شادی کثیرازدواج اورستی کی رسم کی مخالفت کی اورخواتین کی تعلیم کی حمایت کی۔ اس ردعمل سے متاثر ہوکر انگریز حکمران نے اس پر قانون لاگو کرکے اسے غیرقانونی فعل قرار دیا۔ راجا رام موہن رائے نے برہمو سماج کی بنیاد رکھی اور بعدمیں سماجی اصلاحی تحریک کی شکل اختیارکی۔ انہوں نے بیوہ کی شادی کے لئے بھی مثبت اقدام اٹھائے اور سماج میں دیگر بڑھی برائیوں اوررسومات کی پرزور مخالفت کی۔ اسی طرزِ فکر میں ایک اورگروہ وجودمیں آیا جس کا نام آریہ سماج پڑا۔ آریہ سماج نے بھی لڑکیوں کی تعلیم، عدم مساوات کو جہد کا مقصد بنایا اور اس سلسلے میں اصلاحی ادارے او رکالج بھی قائم کئے تاکہ خواتین کی پست شکست خوردہ زندگی فروغ پاسکے، اپنے حقوق وفرائض کوپہچان سکے اور اپنی زندگی کے لئے بہترفیصلے لے سکیں۔
سماجی مفکرین نے سب سے زیادہ زو رتعلیم ِ نسواں پردیا ہے چاہے وہ حریت پسند ہوں یا اشتراک پسندہوں۔ راجہ رام موہن رائے ہوں یا آریہ سماج کے رہنماان سبھی کا ماننا تھا کہ خواتین ہی سماجی برائیوں کو ختم کرسکتی ہیں اس کے لئے بہت سے اسکول، کالج، مدرسہ وادارے قائم کئے گئے۔ تحریک نسواں ہو تانیثی تحریک اس کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ خواتین کو وراثت کا حق ملنا چاہیے اور اس ضمن میں انہوں نے ایک بڑا قدم اٹھایا چونکہ عورت کو شوہر کے مرنے کے بعد اس کی ملکیت کا کوئی حصہ نہیں دیا جاتاتھا اورتمام عمر اپنے عزیزواقارب کے رحم وکرم پر زندگی بسرکرنے پر مجبور تھی۔ راجہ رام موہن رائے نے پہل کرتے ہوئے خواتین کی یہ محرومی دورکی اورعورت شوہر کے بعد بھی خودکفیل بنی۔ اپنی اوربچوں کی پرورش کے لئے کسی اور کامرحون منت نہ ہونا پڑا۔ اسی کڑی سے سوامی وویکانند اوردیانند سرسوتی جیسے لوگ بھی جڑے تھے جو تانیثی فکر کے خواہاں تھے انہوں نے بھی کم سنی شادی اوربیواوں کے حق کی لڑائی لڑی، یتیم خانہ اور بیوہ خانہ تعمیر کروائے اور تانیثی فکروعمل کا پرزور استقبال کیا۔
اس دوڑمیں سرسیداحمد خاں بھی رواں دواں رہے اور ان کا خیال تھا کہ جب مسلم معاشرہ مردوں کی تعلیم سے آراستہ ہوگا توخواتین کی تعلیم کا راستہ بھی کھل جائے گا او ران کی سوچ صحیح ثابت ہوئی تحریکِ نسواں کو پروان چڑھانے کے لئے رسالے، جریدے، جلوس، جلسے وغیرہ کئے گئے، علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ طالب علموں نے اپنا پورا تعاون اس تحریک کو دیا اوراس کا وش کے چلتے کچھ وقت بعد ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ مسلم معاشرے میں عورتوں کی تعلیم کو لے کر ذہنی اعتبار سے تبدیلی آنے لگی اورمسلم معاشرہ بھی عورتوں کی تعلیم کو لے کر فکر مند ہوا۔ تعلیم نسواں کی اہمیت کا احساس کرانے کے لئے جلسہ اورتقریروں کا سہارا لیا گیا رسالے شائع کئے گئے اوراس کی پہل میں شیخ عبداللہ کانام سرفہرست ہے بعدمیں سرسید نے بھی رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ رسالوں نے خواتین کی ذہن سازی کا کام خوب انجام دیا۔ اس کام میں ان کی بیگم صاحبہ بھی برابرکی شریک تھیں شیخ عبداللہ نے بہت سے دانشوروں کا سہارا لیا تاکہ تحریک نسواں کو فروغ حاصل ہو۔ اس ضمن میں انہوں نے قدم بڑھاتے ہوئے "آل انڈیا مسلم لیڈیز" کے نام سے اجلاس کرتے ہوئے تانیثی پلیٹ فارم مہیا کرایا۔ جس سے ان میں بیداری پیدا ہواوراپنے فیصلے اوررائے قائم کرسکیں تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ تانیثیت کو فروغ دینے میں اُردو ادب کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تمام طرح کے رسالے، ناول، افسانے، کہانیاں وغیرہ اسی اندازمیں شائع ہوئیں جس کی ضرورت تانیثیت کوکامیاب بنانے کے لئے تھی۔ مثلاً سہیلی، النساء، تہذیب نسواں وغیرہ رسائل اُردو اَدب کی خدمت میں قابل ذکر ہیں اسی کے ساتھ ساتھ تانیثی آواز کو بلند کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئے۔ دراصل تانیثی تحریک کے وجود میں آنے کی وجہ سماج کی اصلاح اور حقوق نسواں تھی۔ خواتین کی اصلاح کے بغیرسماج کی اصلاح کا تصورہی بیکار تھا کیونکہ خواتین قید وبند میں تھی اور تعلیم سے کوئی سروکارنہ تھااسی لئے اصلاح کاروں نے خواتین کے حقوق کی بحالی کا مقصد پیش پیش رکھا اس طرح خود طبقہ نسواں میں بیداری ہو سکتی ہے۔ خواتین خودبھی عملی طورپر اس تحریک میں شامل ہوئیں۔ مفکرین اور مصلحین نے خواتین کی زندگی بہتربنانے کے لئے گھر سے لے کر سماج کی ہر سطح اور مذہبی تمام فرسودہ غیرانسانی سوچ کے خلاف آواز بلند کی اور تمام مسائل کو حل کرنے کی سعی کی گئی۔
19 ویں صدی میں سماجی تحریک کسی قدر بہترثابت ہوئی اوربہت برائیاں ختم ہوئیں خواتین کوتعلیم کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ کچھ خواتین انگریزی ز بان کی طرف بھی متوجہ ہونے لگیں۔ بلند حوصلہ سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے سیاسی میدان تک اپنے پرچم لہرائے۔ ہندوستان آزاد ہونے کے بعد خواتین کے حالات میں اور زیادہ سدھار آیا او رمرد اساس نظام میں انھیں بھی مساوی حقوق دیئے گئے۔ عدم مساوات پرقدغن لگایا اورتانیثی تحریک کی کامیابی کا ثبوت یہ ہوا کے عورتوں کوبھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا دیگر قوانین بھی عورتوں کی سہولیات کے لئے بنائے گئے تاکہ سماج اورخاص کر طبقہ نسواں مختلف بورڈ، اداروں سے فیضیاب ہوسکیں۔ سیاسی اصلاح کا روں نے صورت حال کو مدنظرہوئے قوم کی چھوٹی چھوٹی برائیوں پربھی غوروفکر کرتے ہوئے۔ جہیز کی مانگ، شراب نوشی، جنسی استحصال کے خلاف بھی اقدام اٹھائے جس کے تحت عصمت دری، بچہ مزدوری، جرائم کو فروغ دینے والے دوسرے تمام افعال کے خلاف احتجاج کیا۔ تانثیت کوفروغ ملاجس سے عورتوں کی خودمختاری وجودمیں آئی اورانہوں نے کچھ حدتک اپنی ذمہ داری کی کمان اپنے ہاتھ میں لینے کا عزم کیا اوراپنے تمام مسائل پرجدوجہد شروع کی۔ ہندوستان میں تانیثیت کے رویے نے سماجی سطح پر عوامی بیداری اورخوداعتمادی کو جنم دیا۔ حالانکہ تانیثی تحریک کومردوں نے شروع کیا اس کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ مذکورہ تحریکوں سے جو نتیجہ سامنے آیا وہ اعتماد پسند اور اطمینان پسند تھا جس نے خواتین کی محرومی اوران پر ہونے والے ظلم کو دورکرتے ہوئے خواتین کے کردار کو اجاگر کیا اور ملکی، غیرملکی سطح پر خواتین کو ایک نئی روشنی میں لاکرکھڑا کیا جہاں پروہ خودکو محفوظ اور پراعتماد محسوس کرے۔ ہمیں بالخصوص وہ پالیساں اختیار کرنا ہوں گی جو ہمیں اسلام نے بتائی ہیں، اسی میں فلاح ہے۔ جب تک انسان کے اندر خوفِ خدا، خودی احتسابی کا عمل پیدا نہیں ہوتا، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔