کس اذیت کا نام ہے پردیس، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو اس کرب سے نبردآزما ہے، ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کے بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلاپن محسوس ہوناعجیب سزا، مگر حالات اور انسانی ضروریات کی وجہ سے غریب یہ سزا قبول کرتا ہے، اپنا گھر بار، وطن چھوڑ کر دیارِ غیر میں مقیم ہونا آسان تو نہیں، لیکن بے روزگاری، مہنگائی کی مجبوری، سب پے بھاری۔
ہوش روبا مہنگائی، بے روزگاری، ہمارے معاشرے کی فرسودہ رسمیں، زندگی میں ایسے موڑ پیدا کردیتے ہیں کہ اکثر نا چاہتے ہوئے بھی انسان اپنے لئے اس راہ کو منتخب کرلیتا ہے۔
پردیس جانامشکل نہیں، لیکن کچھ ریال، دینار، ڈالر کمانے کے لئے اپنے معصوم بچوں، بوڑھے والدین، عزیز اقارب، رشتوں سے جدائی قبول کرنا، اُن کی زندگی کے وہ دن جو پلٹ کرنہیں آتے وہ کھو دَینا، اُن کی ہنسی، اُن کی ضرورت کے وقت اُن کے پاس ہونے کی طلب، خوشی، غمی میں شرکت، حتی کہ بسااوقات جنازے کی شرکت سے بھی محرومی، خون کے آنسو روتی یادیں، اُن لمحات کے عوض کچھ دینار و ریال، تاکہ کامیاب زندگی کے لئے بندوبست کیاجاسکے۔
پھر پردیسی زیست میں کبھی چھٹی نہ ملنا، کبھی مالی مسائل، کبھی بیماری، کمرے کی گھٹی فضا، فٹ پاتھوں پر سونا، بھوک کاٹنا، سگریٹ کا دھواں اور بدبو، بکھری چیزیں، میلاکمبل، پھٹا ہوا پردہ، بکھری سوچیں، یہی بندہ جب وقت کی مار کھا کرجوانی کی رعنائیاں اختتام پذیر کر کے واپس لوٹتا ہے، تو حقیقت میں کچھ بھی اس کا نہیں ہوتا، وقت دیمک کی طرح لمحے سب چاٹ چکا ہوتا ہے، معاشرے میں ان فِٹ کردار، سنکی کھانستا ہوا بوڑھاوجود؛یہ ہے پردیس کی کہانی۔
دیار ِغیر میں پاکستانی، اپنا خون پسینہ جلا کر وطن کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے، لیکن جو ان کی محنت کا حق ہے وہ نہیں ملتا، اپنے حالات کو سنوارنے جانے والے کس کرب سے دوچار ہیں، شاھد ہمیں علم نہیں۔
پاکستان سے روزگارکے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2سالوں میں 8لاکھ 84 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان وطن چھوڑ گئے، اعداد و شمار کے مطابق 2019ء کے پہلے 10 ماہ میں 2 لاکھ 58 ہزار 215 افراد تلاشِ رزق کے لیے سعودی عرب گئے، جبکہ اسی عرصے میں ایک لاکھ 76 ہزار 947 افراد متحدہ عرب امارات گئے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کے انہی مہینوں میں 84 ہزار تھی اور یہ ریکارڈ 207 فی صد اضافہ ہے۔ صرف ایک ماہ میں وزارت اوورسیز پاکستا نیز نے ماہ اکتوبر 2019ء میں مختلف ملازمتوں کے سلسلے میں 61,789 افراد کو بیرون ممالک بھجوایا۔
2018ء کی نسبت 45 فی صد زیادہ پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، بے روزگاری، مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے انسانی اسمگلرز اپنا کام کرتے اور لوگوں کو موت، مشکلات کے منہ میں دھکیلتے ہیں۔
پہلے تو خود ساختہ ایجنٹ، پھر راہبروں کا لبادھ اوڑھے راہزوں کے جال، کئی گھرانے زندگی کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بمطابق رپورٹ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد ایک کروڑ نو لاکھ سے متجاوز ہو چکی، 2018ء میں 3 لاکھ 82 ہزار، جبکہ 2019ء میں 5لاکھ نوجوانوں نے بیرون ملک رخت ِ سفر باندھا، ان میں لیبر کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں، جن کی تفصیل یوں ہے؛29 ہزار 312اعلیٰ تعلیم یافتہ، جبکہ 17 ہزار 609 اعلیٰ تربیت یافتہ، 3 لاکھ 69 ہزار اسکلڈلیبر شام ہونے کے ساتھ، 10 ہزار انجیئرز، 3500 ڈاکٹرز، 9500 اکاونٹنٹ غم ِروزگار میں بیرون ملک گئے، علاوہ ازیں 25 ہزار الیکٹریشن، 2500فارماسسٹ، 500 نرسز، زراعت میں مہارت یافتہ 13ہزار، 3000اساتذہ نے بیرون ملک سروسز کو ترجیح دی۔
بیرون ممالک مقیم 96 لاکھ پاکستانیوں میں سے 10 ہزار 289 پاکستانی، بیرون ممالک جیلوں میں تاحال قید، بھارت کی جیلوں میں 572 پاکستانی مختلف کیسز میں قید ہیں، امارات میں 2ہزار 25، برطانیہ میں 300 پاکستانی جیلوں میں، آسٹریلیا میں 250، چین 268 اور یونان میں 617 پاکستانی قیدہیں، امریکامیں 109 پاکستانی دہشت گردی اور فراڈ کے کیسز میں قید ہیں، ایران میں غیرقانونی داخلے اور منشیات کے کیسز میں 134 پاکستانی جیلوں میں ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 11 ہزار پاکستانی، جن میں 3 ہزار 309 سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں، غیر سرکاری تنظیم جے پی پی کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 11 ہزار پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں تکلیف کا سامنا کررہے ہیں۔
اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 24 ماہ سے ’غیر قانونی تارکین وطن سے پاک مملکت، کے نام سے جاری اس مہم میں اب تک 10 لاکھ 14 ہزار 220 افراد کو گرفتار کیے جانے کے بعد ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔ مئی 2019ء میں ویزہ کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے ملائشیاء میں قید 320 پاکستانیوں جبکہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے 572 پاکستانی قیدی رہا کیے گئے۔ بایں اہمہ اوورسیز پاکستانیوں کی ملکی معاشی استحکام میں کردارمثالی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق افرادی قوت کی ایکسپورٹ میں 42 فی صداضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں ماہ اکتوبر میں 43,752 افراد کو بیرون ممالک ملازمتوں کے سلسلے میں بھجوایا گیاتھا، سمندر پار پاکستانیوں کی یہ تعدادملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہر دم کوشاں ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مالی سال 2019-20 کے لیے گزشتہ پانچ ماہ میں 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات بھیجیں گئیں، جبکہ 2018ء کے عرصے کے دوران 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔ 2019ء بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات میں اضافہ ہوا، نومبر 2019 میں سمندر پارپاکستانیوں کی ترسیلات زر کی مالیت 1 ارب 81 کروڑ 96 لاکھ ڈالر رہی، جواکتوبر 2019ء کے مقابلے میں 9.05 فی صد کم، جبکہ نومبر 2018ء کے مقابلے میں 9.35 فی صدزیادہ تھی۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد وشمارکیمطابق نومبرمیں ترسیلات زرکاحجم ایک ارب اکیاسی کروڑڈالررہا، جو 2018ء نومبرمیں ایک ارب چھیاسٹھ کروڑڈالرتھا، اعداد وشمار کے مطابق؛ نومبرمیں سب سے زیادہ ترسیلات زر میں پہلا نمبر سعودی عرب، دوسرے نمبر پر یو اے ای اور تیسرے نمبر امریکا کا ہے۔
2018ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں ترسیلات میں اضافہ ہو ا؛ سعودی عرب سے 2.97 فی صد بڑھ کر 5 ارب ڈالر رہی، امریکا سے بھی آمدنی میں واضح اضافہ ہوا، 20.15 فی صدتک بڑھ کر 3 ارب 40 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہی۔ ، برطانیہ سے بھی ترسیلات زر میں 17.9 فی صدتک اضافہ ہوا اور بیرون ملک پاکستانیوں نے 3 ارب 44 کروڑ روپے ملک میں بھیجے۔
ما لی سال 2019-20 میں متحدہ عرب امارات سے ترسیلات زر مالی سال 2018-19 کے 0.7 فی صدکے مقابلے میں 5.98 فی صد تک اضافہ ہوااور کُل 4 ارب 61 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملک میں بھیجے گئے، مالی سال 2018-19کے 7 فی صد کے مقابلے میں یہ 1.8 فی صد رہی اور کُل 2 ارب 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں۔ اس کے باوجود ملائیشیا کوترسیلات زر کے حوالے سے اہم مقام حاصل رہا اور مالی سال 2019-20 میں یہاں سے آنے والی آمدنی 35 فی صد تک بڑھ کر ایک ارب 55 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی، تاہم ماہانہ بنیادوں پر جون میں ترسیلات زر 28 فی صدکم ہوئی، یہ مئی کی 2 ارب 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب 65 کروڑ ڈالر رہی۔
اوورسیز پاکستانی ہمارا قیمتی سرمایہ، ہمیں ان کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کرنے چاہیے تاکہ دیار ِ غیر مقیم پاکستانی مسائل کی دلدل سے نکل کر ملکی ترقی، معاشی استحکام میں مزید بہتر کردار ادا کر سکیں۔