گاؤں کی زندگی کو خوشحال زیست مانا جاتا ہے کیوں کہ وہاں آج بھی ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شرکت، جذبہ ایثار، ہمدردی، مہمان نوازی، حسنِ سلوک، مروت، اخلاقی تہذیب، سادگی جیسی روایات برقرار ہیں۔ وادیِ کشمیر کے حسین نظارے، قدرتی خوبصورتی، آبشاریں، سر سبز و شاداب پہاڑ، ہریالی، قدرتی چشمے، صاف ہوائیں، کشادہ ماحول، یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔
کشمیر کو غازیوں، شہیدوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ قدرت، انسان پر مہربان ہے۔ مسائل و مشکلات انسان کی اپنی ہی پیدا کردہ ہیں۔ پھر سہولیات میں عدم مساوات مسائل ہی نہیں بلکہ انسانی زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہیں۔ لوگ جوق در جوق دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہو رہے، جس سے شہروں میں بھی بے ہنگم ٹریفک، صحت، تعلیم و دیگر مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی آزاد کشمیر کے کئی گاؤں بنیادی سہولیات صحت، پانی، سکول، ہسپتال جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔
آج بھی متعدد گاؤں کا انحصار ایک ہی قدرتی چشمہ پر ہے۔ ہر سال موسم سرما میں بارش کے نہ ہونے کے باعث چشموں پر خواتین، بزرگوں، بچوں کا رش ہوتا۔ وہ پانی کے لئے رات گئے چشموں پر اپنی باری کا انتظار کرتے۔ سخت سردی میں وہ آسمان کی چھت تلے بے یارو مدد گار اس اذیت سے گزرتے ہیں۔ یہ باتیں ذکر تو کی جاتی ہیں اور ان کی مجبوری کا لطف تو اٹھایا جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جواب دہ بھی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "آگاہ رہو تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے یعنی جس کا نگہبان اور ذمہ دار ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا"۔
انسانی معاشرے کی فطری ترتیب ہی کچھ اس طرح ہے کہ ہر انسان جس سطح پر بھی ہو اس پر چند انسانوں کو اختیار ہوتا ہے اور خود اس انسان کو بھی چند اور انسانوں پر اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کو چند افراد پر اختیار حاصل رہتا ہے۔ اَب یہ انسان اپنے اختیارات کو ان لوگوں پر استعمال کرتا ہے۔ بحیثیت انسان ہونے کے اس کے اندر فطری جذبات اور خواہشات بھی ہیں۔ ان جذبات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بھی انسان یہ اختیارات استعمال کرتا ہے۔ بھارت جیسا ملک بھی چاند تک جا پہنچا، مگر ہماری خواتین آج بھی سرؤں پر پانی اٹھا کر میلوں چلتی ہیں۔
بنی نوع انسان کے ترقیاتی سفر میں دیہات یا گاؤں وہ پہلی کڑی ہے جس میں انسان نے گروہ میں رہنے کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان کے بندوبست کا ہنر سیکھا اور یہیں سے حقیقی معنوں میں معاشرتی زندگی کا آغاز ہواہے۔ دُنیا کے زیادہ تر لوگ آج بھی گاؤں میں آباد ہیں۔
گاؤں کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ گاؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، فضائی آلودگی کے وقت میں گاؤں کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ عدم توجہی سے دیہات میں 72 فیصد آبادی خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے دیہی علاقوں میں اب تک صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تو نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اس کی کئی مثالیں موجود "ایلون ٹوفلر کی کتاب موج سوم" میں مصنف نے بہترین عکاسی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: "انسان غاروں سے جنگلوں اور شہروں کی طرف کیسے آیا طویل جد و جہد کے سفر میں جو مشکلات آئیں کئی مراحل آئے مگر انسان کے حوصلے پست نہ ہوئے ارتقائی سفر جاری رکھا اور انسان بلندیوں کو چھوتا گیا اور نئی نئی راہیں نکالتا گیا انسان جب غاروں سے باہر نکلا تو اس نے شہر اور بستیاں آباد کیں محبت اور تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔
اس کی مثال یہ ہے کہ اولاد کی تربیت گھروں میں ہونے ہو لگی بچی ماں کے ساتھ سارا دن رہتی تھی اور وہ دیکھتی رہتی تھی کہ کس طرح اس کی ماں امور خانہ کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اورماں کا گھر کے اندر اور باہر حسن سلوک کیسا ہے اوروہ ساری چیزیں وقت سے پہلے سیکھ لیتی تھی، اسی طرح بچی کی پرورش کے ساتھ اس کی تربیت بھی ہو جاتی تھی اور اسی طرح بچہ بھی سارا دن والد کے ساتھ رہتاتھا، اور وہ دیکھتا رہتا تھا کہ گھر کا نظام چلانے کے لیے اس کا والد کسی طرح امور سر انجام دیتا ہے بچے کی بھی پرورش کے ساتھ اس کی تربیت بھی ہوجاتی تھی۔
پھر کارخانے اور فیکڑیاں وجود میں آگئیں اور اسی طرح ادارے بھی وجود میں آگئے بچوں کی تربیت گھر کی بجائے اداروں میں ہونے لگی رشتوں سے فاصلے بڑھتے گئے تہذیبیں دم توڑ تی گئیں دنیا انقلاب کا سفر کرتی گئی ہر جگہ ادارے بن گئے سڑکیں بن گئیں سفری مشکلات کم ہوگئیں گھوڑوں سے شروع ہونے والا سفرہوائی جہاز پر ہونے لگا آج انسان دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آجا سکتا ہے گھنٹوں میں پہلے یہ سفر دنوں، مہینوں اور سالوں میں ہوتا تھا۔
محدود وسائل والے لوگ ہیں جو شہروں میں رہ رہے ہوں یا دیہات میں گوناگوں مشکلات سے دو چار ہیں۔ دیہات خصوصاً دور دراز دیہات میں تو کسی قسم کا روزگار میسر ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے پیدا ہونے کا کوئی زیادہ امکان ہے یہی وجہ ہے کہ دیہات کے لوگ تیزی کے ساتھ شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں اور یہاں محنت مزدوری کرکے نہ صرف اپنی گزر اوقات کرتے ہیں، بلکہ دیہات میں مقیم اپنے خاندانوں کو بھی پال پوس رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات سے قریبی شہروں کی جانب نقل مکانی کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ دیہات میں صحت کی سہولتیں ہیں نہ تعلیم کی، ملازمتیں دستیاب ہیں نہ جدید دور کی بنیادی سہولتوں کا کوئی تصور، سہولتیں میسر ہوں تولوگ بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں۔
آج ٹیکنالوجی کا دور ہے دُنیا کوزے میں بند ہے اور ہر شخص جب چائیے دُنیا میں کسی سے بھی رابطہ کر سکتا ہے بایں ہمہ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لئے شاعر نے گاؤں کی زندگی کا یوں نقش کھنچا ہے۔
تیری نظروں میں تو دیہات ہیں فردوس مگر
میں نے دیہات میں اُجڑے ہوئے گھر دیکھے ہیں