مفہومِ حدیث ہے بے شک تمہارے عمال تم پر حاکم بنائے جاتے ہیں اور جیسے تم ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کئے جائیں گے۔
جب بھی کسی کرپٹ حکمران کی بات ہوتی ہے تو فوراَ یہی بات ہمارے ذہن میں جاتی ہے کہ بھئی جیسی عوام ہے ویسا ہی تو حکمران ہوگا لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ حکمران بھی تو ہم عوام میں سے ہی ہیں اور ہم نے خود ہی انکو منتخب کیا۔
یزید کے دور حکومت میں پوری کائنات میں واحد ایک امام حسینؑ کی ذات ایسی تھی جو رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ قریب رہنے والے شخص تھے اور جن کی تربیت رسول اللہﷺ نے خود کی تھی تو بھلا یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ایک ظالم اور جابر اور نہایت ہی بدکردار شخص کو امام حسینؑ اپنا حکمران تسلیم کر لیتے اور کیسے اپنے جدِ امجدﷺ اور اپنے اجداد کی محنت اور قربانیوں کو یوں ضایع ہوتا دیکھ سکتے تھے۔ امام حسینؑ کا یزید کے سامنے علم جہاد بلند کرنے کا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ امامؑ کو معلوم تھا کہ اگر یزید جیسا بدکردار حکمران ہو تو عوام پہ اس کا برا اثر پڑتا ہے اور رعایا بھی اپنے حکمران کی طرح بگڑ جائے گی اور پھر آہستہ آہستہ پورا اسلامی معاشرہ اخلاقی طورپہ تباہ ہوجائے گا۔
مرد اپنے گھر کی سلطنت کا بادشاہ ہوتا ہے اور اسکی بیوی وزیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اب اگرہر گھر کا سربراہ امامؑ کے اسی پیغام کو اپنی زندگی کی مشعل راہ بنالے اور پہلے خود کو ایک مثالی انسان بنانے کی کوشش کرے اور باکردار بنے تو کبھی بھی انکی اولاد بدکردار اور کرپٹ نہیں بن سکتی۔ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت ایسی کرنی چاہے کہ جوان ہوکر اپنے خاندان، معاشرہ اور ملک کے لئے باعث فخر بنے نا کہ بدنامی کی وجہ، اور اگر ہم سب اپنی یہ ذمہ دار بخوبی نبھاتے ہیں تو کبھی بھی ہم پہ بدکردار اور چور ڈاکو حکمران مسلط نہیں ہو پائیں گے۔