1. ہوم/
  2. مختصر/
  3. امجد عباس/
  4. خواتین کے حقوق

خواتین کے حقوق

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو اُنہیں ملنا چاہیے تھا۔ انسان ہونے کے ناتے اُنہیں برابر کے حقوق میسر ہیں۔ عملی حوالے سے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے اور بعض انتظامی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے کچھ حقوق و فرائض میں اختلاف ہے لیکن اُس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو برابری سے محروم رکھا جائے۔ میراث اور گواہی میں عورت کو نصف شمار کیا جانا وقتی انتظامی نوعیت کے فیصلے ہیں، جنہیں دائمی جاننا مشکل ہے۔

عورتوں کا مکمل احترام، اُن کی رائے کا احترام، اُنہیں میراث میں حصہ دینا، اُنہیں جنگ کے دوران بھی تحفظ دینا جیسی اسلامی تعلیمات دائمی ہیں۔ مسلمان فقہاء کی اکثریت مردوں پر مشتمل رہی ہے چنانچہ اُنھوں نے عورتوں کے حقوق و فرائض کے متعلق محدود معاملات کی حد تک ہی بات کی ہے۔ اُن کا بنیادی ہدف مردانہ برتری کا اثبات ہی رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ مرد اگر گھر کا سرپرست ہوتو بطور سربراہ اُسے بہت سے انتظامی اختیارات حاصل ہیں، لیکن اگر عورت گھر کی سربراہ ہوتو اُسے بھی یہ حقوق میسر ہوں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ سکول اور کالج میں پرنسپل صاحبان کو انتظامی امور میں بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اِن میں عورت اور مرد کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ مسلمان فقہاء کی عائلی فقہ میں مردانہ غلبے کے آثار غالب ہیں، جیسے بیوی کا شوہر کے مکمل تابع ہونے کے انتظامی نوعیت کے معاملے کو خالص مذہبی فریضہ قرار دینا وغیرہ۔ اگر عورتیں بھی فقہ کی تدوین کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔ بطور انسان اور مسلمان، ہمیں عورتوں کے حقوق و فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اب عورت ماں ہو یا بہن، بیٹی ہو یا بیوی یا ہماری طرح معاشرے کا ایک فرد، انسان ہونے کے ناتے وہ مردوں کے برابر ہے۔

معاشرتی سطح پر طے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے کی بنا پر بعض حقوق و فرائض میں اختلاف ہے جو انتظامی نوعیت کا معاملہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کم تر سمجھنے جیسی خرافات کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے۔