1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. ایک نمبر منجن

ایک نمبر منجن

وقت کے ساتھ ساتھ منجن کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔ اس غرض سے اب ہر فیلڈ میں منجن بیچا جا رہا ہے۔ جو جتنا اچھا منجن بیچنا جانتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ اور یہی آپکی کامیابی کی ضمانت ہے۔

آپ سیاست کو لے لیجئیے، جو جتنا اچھے سے عوام کو خوشحالی کے خواب دکھاتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے اور جسے یہ منجن بیچنا نہیں آتا وہ مذہب اور حب الوطنی کا سہارا لے لیتا ہے، بس بیچنا آنا چاہیے۔

عوام بھی ماشاء اللہ یہ منجن شوق سے خریدتی ہے۔ اور اپنے عہدے داران کےلیے آپس میں لڑتی مرتی ہے۔ بس ایک ہی تو غلطی ہے اس عوام کی، یہ اپنے سربراہان کےلیے تو بڑا لڑے مرے گی بس کبھی اپنے لیے نہیں لڑی۔ اپنے حق کےلیے کبھی اس عوام نے آواز نہیں اٹھائی۔ اسی لیے پچھلے ستر سال سے یہ عوام لاوارث ہی رہی ہے۔

سیاست کے علاوہ باقی فیلڈز میں بھی یہی عالم ہے۔ آپ پڑھائی کو لے لیجیے۔ ایک تو پہلے ہی ہمارا تعلیمی نظام بابائے آدم کے زمانے کا ہے۔ جہاں آج بھی اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے طلباء نوٹس سے رٹا لگاتے ہیں اور پیر چھاپتے ہیں۔ سکول اور کالجز کے علاوہ یونیورسٹیوں میں بھی یہی حال ہے۔ گویا دماغ کا استعمال یہی سے ہی ممنوع کر دیا جاتا ہے اور پھر ساری زندگی ہم دماغ کو تکلیف نہیں دیتے۔

آج کل ایک نئی ہی جنگ چل رہی کہ تعلیم ضروری ہے یا ہنر۔ دو گروپ بنے ہوئے جو آپس میں لڑ رہے ہیں۔ پہلے خواب دکھائے جاتے تھے کہ ڈگری لیتے ہی تم دنیا فتح کر لو گے۔ انجینئرنگ یا میڈیکل کر لیا تو زندگی سنور جائے گی۔ پھر یوں ہوا کہ ساری دنیا نے اوکھے سوکھے ہو کر انجینئرنگ اور میڈیکل میں دھڑا دھڑ ایڈمیشن لینا شروع کر دیا۔ جسکے نتیجے میں انجنیئر اور ڈاکٹر سڑکوں پر رلنے لگے۔

آجکل کا منجن ہے کہ ڈگری چھوڑو، ہنر سیکھو۔۔ اور کام دھندا کرو۔۔ انٹر پرینورشپ سیکھو۔۔ جلد از جلد لاکھ پتی بنو۔۔ سٹوڈنٹس کو موٹیویٹ کرنے کےلیے ہم کچھ مشہور گورے کروڑ پتی نوجوانوں کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔

پھر آن لائن کماؤ، ایک بہترین منجن بے۔ جہاں آج ہی آپ گھر بیٹھے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے سچ میں کمال برپا کیا ہے۔ لوگوں کو پیروں پر کھڑا کیا ہے۔ انٹر پرینورشب بھی بہترین چیز ہے نوجوانوں روایتی دھندے سے ہٹ کر کچھ کر رہے ہیں اور مسائل کا حل بھی تلاش کر رہے ہیں۔ سب ایک نمبر ہے۔

مگر یہاں کچھ زمینی حقائق ہیں جن پر تھوڑا توجہ دینا ضروری ہے۔

پہلی چیز ہاں ساری چیزیں کام کر رہی ہیں مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنے اوپر کام کیے بنا سب کچھ لٹا کر بنا تحقیق کے کسی چیز میں کود پڑتے ہیں۔ جیسے آجکل سٹارٹ اپ کا بڑا رواج ہے۔ یوتھ فیشن کے طور پر بھی اسے اپنانے لگی ہے۔ امیروں کےلیے تو یہ بہترین مشغلہ ہے مگر اصل مسئلہ ہوتا ہے مڈل کلاس بچے کو جس کے ابا نے پہلے ہی لون لے کر اسکی پڑھائی کا خرچہ اٹھایا ہو اور وہ اسے پھر یوں ہی درمیان میں چھوڑ دے۔

بچے جوش جوش میں ڈگریوں پر لعنت بھیج کر سٹارٹ اپ کرنا چاہتے مگر جب آپ مارکیٹ میں گھستے ہو تو آنکھیں کھلتی کہ یہاں تو ایسا کچھ نہیں جیسا باہر سے دکھایا گیا تھا۔ سب دکھاوے کا مال تھا۔ چند ایک جنہیں فنڈنگ مل گئی ان کا چلو کچھ ہو گیا مگر زیادہ تر انتظار کی سولی پر لٹک جاتے۔ سسٹم انہیں سپورٹ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نے شوقیہ تو کوئی انقلابی چیز شروع کر لی مگر آپ کو مارکیٹ اور ماحول کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ کہنے میں بہت فیسینٹنگ لگتا ہے کہ آپ کو کچھ ایسا کرنا چاہیے جو پہلے کبھی نہیں ہوا اور آپ تباہی مچا دو مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس تباہی کو برپا ہونے میں تمہاری عمر لگے گی۔ تمہیں اپنی جان لگانا پڑے گی۔

اردگرد والوں کی سننی بھی پڑے گی۔ اگر تم میں اتنا حوصلہ ہے تو آجاؤ میدان میں۔ ہم نے خود بہت سی غلطیاں کی ہیں اور سچ بتاؤں اگر تو آپ غلطیاں کرنا افورڈ کر سکتے ہو تو کرو ایکسپلور۔ یہ زندگی کا بہترین تجربہ ہے اگر تو اسے پاس کر گئے کچھ بڑا کر جاؤ گے۔

مگر اچھے نتائج کےلیے بیگ گراؤنڈ ورک کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر مڈل کلاس بچے، تیاری بھرپور کرنی پڑے گی۔ اور یہاں سب کو یہ بھی سمجھنا ہے کہ ہر چیز ہر ایک کےلیے نہیں ہوتی۔ آپ سب نے ایک ہی چیز کے ساتھ چپک نہیں جانا کہ جو دنیا کر رہی میرے کو بھی وہی کرنا۔ منجن بیچنے والوں کے سنہرے سپنوں پر یقین کرنے سے پہلے تھوڑی چھان بین بھی کر لیجیے۔ جیسے آن لائن ورک کو سمجھنا ہو گا۔ ایک دن میں لاکھ پتی تھوڑی بن جاتے۔ بن بھی سکتے اگر آپ کا تکہ چل گیا۔ مگر کام کرتے رہنا ہو گا۔ یہ ضروری ہے کہ آپ خود پر کام کریں۔۔ اچھی خاصی محنت کریں۔۔ کوئی سکلز سیکھیں۔۔ اپنی پرسنیلٹی پر کام کرنا پڑے گا۔ جو سب دھیرے دھیرے ہو گا۔۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔

اچھا یہ جو منجن بیجا جاتا ہے نہ کہ فلاں کام میں تو عیش ہی عیش۔ آرام ہی آرام۔۔ آپ کسی بھی وقت کام کریں۔۔ یہ سہولتیں آپ کو شاید مل جائے مگر یہ بھی آپ کو پہلے کمانی پڑتی ہیں۔ مگر یہ جان لیں کہ کام کام ہوتا ہے اور آپ کو اسکے پروٹوکول فالو کرنے پڑتے ہیں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ آپ کےلیے کیا بہترین ہے یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ آپ کی زندگی میں کس چیز سے سکون آئے گا یہ آپ ہی طے کر سکتے۔

سوشل میڈیا پر موجودہ کہانیوں سے اتنا ایمپریس مت ہوں۔ کسی کو اندھا دھند فالو مت کریں، اندر کی حقیقت جانے بغیر۔ ہاں انسپائریشن کا ضرور بندوبست کریں۔۔ آپ اپنے حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم اٹھائیں۔ دوسروں سے ضرور سیکھیں مگر پھر خود سمجھیں اور آگے بڑھیں۔ ایک جگہ بات نہیں بنتی، دوسری پھر تیسری جگہ ٹرائی کریں، ایکسپلور کرنا پڑے گا۔

ڈگری، انٹر پرینورشب، آن لائن ورک کچھ بھی غلط نہیں، بس کس کےلیے کیا کام کرے گا یہ طے آپ کو خود کرنا پڑے گا۔ سبھی آن لائن ورک سے کروڑ پتی نہیں بن سکتے، کچھ کو روایتی کاروبار بھی کرنا پڑے گا، کچھ کو ڈگری بھی لینی پڑے گی، کچھ کو نئے نئے عجائب دریافت کرنا ہونگے۔

جہاں پیٹ پالنے کےلیے ہنر ضروری ہے وہیں تہذیب کے ساتھ زندگی گزارنے کےلیے تعلیم۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم اصل مقصد کی بجائے اپنا منجن بیچنے پر زیادہ فوکس کرتے ہیں اور معصوم لوگ ہمارے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ اور پھر سب بنا سوچے سمجھے ایک ہی طرف کا رخ کر لیتے اور آجکل یہی ہو رہا۔ سکھانے سے زیادہ منجن بیچنے پر فوکس ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا ہے کیونکہ بنیادی شعور ہمارے نظام میں ابھی بھی مِسنگ ہے اور لوگوں کو خود جانچنا پرکھنا نہیں آتا۔۔

نتیجہ یہ کہ سکھانے والے زیادہ ہیں اور سیکھنے والے کم۔

انفارمیشن کی دنیا ہے، ہر طرف ڈیٹا کا بہاؤ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیکھیں کہ کیسے اس انفارمیشن کو فلٹر کرنا ہے اور صرف وہی انفارمیشن پروسس کرنی جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔