1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اسماء طارق/
  4. ناممکن سے ممکن تک کا سفر

ناممکن سے ممکن تک کا سفر

مانیہ سکوڈوسکا ایک شرملی لڑکی جسے دنیا مادام کیوری کے نام سے جانتی ہے کی کہانی جو حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے اور جینے کا ہنر سکھاتی ہے ۔ دنیا کی نامور ترین خاتون سائنس دان جس کو کسی زمانے میں سردی سے بچنے کیلئے رات کو اپنے اوپر کتابوں کا ڈھیر رکھنا پڑتا۔

میں کتاب پڑھ رہی تھی کہ اچانک میرے دھیان کاغذ پر لکھے ایک نام پر گیا جس نے میرے ذہن کو اپنے حصار میں لے لیا اور مجھے تخیل کی دنیا میں کئی سال پیچھے لے گیا۔ جہاں مادام کیوری جس کا شمار دنیا کی ان چند خواتین میں ہوتا ہے جو تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئیں، پہلی مرتبہ جسے سائنس میں خدمات کے عوض دو مرتبہ نوبل پرائز دیا گیا ایک مرتبہ 1903 میں فزکس میں نمایاں کام سرانجام دینے پر اور پھر 1911 میں کیمسٹری میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر۔

خقیقتا اگر جوانی میں پولینڈ کا خوشحال گھرانا اس کی بےعزتی نہ کرتا تو وہ نہ سائنس دان بنتی اور نہ ہی ریڈیم دریافت کر سکتی . واقعہ دراصل یہ ہے کہ وہ جب انیس سال کی تھی تو ایک امیر گهرانے میں ملازمت کرتی تھی مگر اس گھر کے لڑکے کو وہ پسند آ جاتی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اس کے گھر والے کیوری کو انتہائی بےعزت کرکے گهر سے نکال دیتے ہیں کہ جس لڑکی کا کوئی مقام نہ ہو وہ اس سے کیسے اپنے بیٹے کی شادی کر سکتے ہیں۔

بےعزتی کا ٹهپڑ کها کر مادام کیوری حیرانگی کے عالم میں ایسے غرق ہوئی وہ ہر چیز بھول گئ اب اس پر صرف کچھ کرگزرنے کی دھن سوار تھی۔ وہ 1891 میں پیرس چلی گئی اور وہاں یونیورسٹی میں سائنس میں داخلہ لے لیا، وہ تعلیم میں اتنی غرق تھی کہ کسی کو اپنا دوست نہ بناسکی، جن دنوں وہ فزکس اور ریاضی کے مطالعے میں مصروف تهی تو وہ افلاس کی شدید شکار تهی وہ اکثر بھوک کے مارے باہوش ہوجایا کرتی تھی اور سردی سے بچاؤ کے لیے وہ اپنے اوپر کتابوں کا ڈھیر رکھتی تهی وہ تین شلنگ روزانہ کے حساب سے خرچ کرتی تهی .لیکن ہمیں اس طالبہ کے حالات پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی طالبہ جسے دس سال بعد جسے دس سال بعد دنیا کی مشہور ترین عورت کہلوانا تھا اپنے مطالعہ میں از مستغرق رہنے کے باعث وہ بھوک کے خیال سے آزاد رہتی تھی کیونکہ بھوک اس کی داخلی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں یکسر ناکام تهی اور نہ ہی اسے ارادے و عزم سے متزلزل کر سکتی تهی۔

تین سال بعد اس نے پیرس میں ایک شخص سے شادی کرلی جو اس کی طرح سائنس کا دیوانہ تها اسکا نا م پاٹری کیوری تها جو اس پینتیس سال کا ہونے کے باوجود سائنس کی دنیا میں بےحد مشہور تها۔ جس زور انہوں نے شادی کی تھی ان پاس صرف دو بائیسکل تهے جس پر وہ دیہات کی طرف ہنی مون منانے چلے گئے وہ ڈبل روٹی پنیر اور پھل کهاتے اور رات کو ایسی سراؤں پر سوتے جہاں موم بتیوں کی روشنی سے دیواروں پر عجیب و غریب سائے رینگتے معلوم ہوتے۔

تین سال بعد مادام کیوری ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی تیاری کررہی تھی تو اس نے اس راز کو پرکھنے کا فیصلہ کر لیا کہ یورینیم دھات سے روشنی کیوں نکلتی ہے۔ یہ کیمیا کے سربستہ عظیم زاروں میں سے ایک سربستہ راز کا سفر عظیم تها۔

سینکڑوں دھاتوں پر تجربات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ شعاعیں کوئی بے نام عنصر فضا میں بکھیرتی ہیں اور اس نئے عنصر کو دریافت کرنے کے لیے اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ تجربات میں شامل ہو گیا۔

کئی ماہ کے تجربات کے بعد انہوں نے ایک ایسا عنصر دریافت کیا جسکی روشنی یورینیم سے بیس گنا زیادہ تهی ایک دھات جسکی شعاعوں کو صرف سکہ ہی روک سکتا تھا انہوں نے اسے "ریڈیم"کا نام دیا، جیسا کہ سائنسدانوں نے اس سے پہلے ایسی دھات کی موجودگی کو نہیں مانتے تھے انہوں نے پختہ ثبوت مانگے، اگلے چار سال 1898سے 1902 تک وہ اس کی موجودگی کے ثبوت تلاش کرتے رہے، انہوں نے آٹه ٹن لوہے کو ابال کر اسے عمل تقطیر کے ذریعے سے حاصل کیا وہ انتہائی بوسیدہ احاطہ میں انتہائی خستہ حالی میں کام کرتے تھے اور یہی بھٹی سے نکلنے والا دهواں مادام کیوری کی آنکھوں اور حلق کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ اس دریافت کے بعد وہ وہ روئے زمین کی نامور خاتون بن گئی۔

1902 میں مادام کیوری اور اس کے شوہر نے دولت ترک کر کے سائنس کی بے لوث خدمت کا فیصلہ کیا اس وقت یہ بات دریافت ہوچکی تھی کہ ریڈیم کینسر کے علاج میں مفید ثابت ہوئی ہے اور وہ کسی بھی تجارتی کمپنی اسکا فارمولہ بھیج کر مالامال ہوسکتی تھی مگر اس سے اس کے عوض ایک پائی بھی وصول نہ کی اور کہ ریڈیم ایک مہلک بیماری کے علاج کے لئے ثابت ہوئی ہے اور مجھے اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے کیونکہ یہ سائنس کے اصولوں کے خلاف ہے۔

اگرچہ مادام کیوری اب موجودہ مگر ان کے خدمات نے انہیں ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر امر کردیا، صدیاں بیت جائیں زمانے گزر جائیں مگر ان کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں موجود رہے گا ، یہی وہ لوگ جنہیں زندگی نے جو مقصد دیا، وہ اسے حاصل کر گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سنہرے حروف میں لپٹی داستان چھوڑ گئے۔

اسماء طارق

Asma Tariq

اسماء طارق کا تعلق شہیدوں کی سرزمین گجرات سے ہے۔ کیمیا کی بند لیب میں خود کو جابر بن حیان کے خاندان سے ثابت کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان کے نیچے لفظوں سے کھیلنے کا شوق ہے۔ شوشل اور ڈولپمنٹ اشوز پر  کئی ویب سائٹ اور نیوز پیپر کے لیے  لکھتی   ہیں اور مزید بہتری کےلئے کوشاں    ہیں۔