دس اکتوبر کو دنیا بھر میں مینٹل ہیلتھ ڈے منایا جاتا ہے۔ ایک کوشش ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے مینٹل ہیلتھ کے متعلق آگاہ کیا جائے۔
پچھلے دنوں ایک دوست سے ملنا ہوا، ایسے ہی گفتگو گفتگو میں بات نکل پڑی کہ ہمارے معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے ذہنی امراض کے متعلق کھل کر بات چیت کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے معاشرے میں پہلے تو ذہنی امراض کے متعلق اتنی معلومات نہیں اور پھر لوگ قبول بھی نہیں کرتے اور ڈرتے ہیں کہ اگر لوگوں کو پتا چلا تو وہ کیا کہیں گے کہ فلاں پاگل ہے۔ ہر جگہ ہماری بدنامی ہو گی۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک فرد ذہنی امراض کا شکار ہے جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اس کے پیچھے بے شمار عوامل ہیں۔ آج کل کا ماحول اور پھر راہنمائی کا فقدان ہے۔ سننے اور سمجھانے والے کم ہیں، ڈرانے والے سب ہیں۔ پھر جب بچے جوانی کی طرف بڑھتے ہیں تو ان میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں جو انہیں ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی مکمل راہنمائی بھی نہیں دی جاتی ہے۔ جس وجہ سے بچے خود ہی اردگرد سے دیکھ کر سب سیکھ لیتے ہیں۔
جو صحیح، غلط دکھائی دیتا دماغ میں بٹھا لیتے ہیں۔ جو سنگین مسائل کو پیدا کرتا ہے۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی ہم بہت سے کام کرنے میں نہیں ہچکچاتے مگر ان پر بات کرنے میں کیوں شرم محسوس کرتے ہیں؟ اب حالات اور واقعات سب پچھلے زمانوں سے بہت مختلف ہیں۔ آج کل زندگی بھی کافی مشکل ہو گئی۔ پل میں بدلتی دنیا، بے شمار الجھنیں، کمپیٹیشن، پریشر، ذہنی دباؤ، سٹریس، انتہاپسندی، بے شمار چیزیں ہر وقت ہمیں پریشان کرتی رہتی ہیں۔ ہر طرف اندھیرا ہے، اور روشنی دکھتی نہیں۔
ایسے میں ہم یہ ضد نہیں باندھ سکتے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا ہوا ہی نہیں۔ بھئی آج کل ماحول، رہن سہن سب بدل گیا۔ زندگی کی عام ضرورت پورا کرنا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔ دوسری بیماریاں تو ہم بڑے فخر سے قبول کرتے ہیں کہ مجھے گردے کا مسئلہ، جگر خراب ہے۔ پھر ذہنی مسائل سے اتنی ہچکچاہٹ کیوں؟ انہیں قبول کرنے سے انکار کیوں؟ جسم کے دوسرے حصوں کی طرح ذہنی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس سے متعلقہ مسائل کو بھی قبول کریں اور ڈاکٹر سے راہنمائی لینے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں۔
اور یہ جو ہم خود ہی نیم حکیم خطرہ جان بن جاتے ہیں۔ اس سے پرہیز کریں۔ اور کسی حد تک ہمارے رویے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے تنقیدی رویے کو بھی درست کرنا ہے جو لوگوں کی زندگیاں خراب کر رہا ہے۔ خدارا اگر آپ کچھ اچھا بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو چپ رہا کیجیے۔ کوئی آپ سے بولنے کا نہیں کہے گا۔ وگرنہ یہ معاشرہ آگے ہی بہت گھٹا ہوا ہے مزید یہ نہ ہو کہ سانس بھی بند ہو جائے۔
پاکستان میں ایک اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی سنتا نہیں۔ ہم بمشکل ہی اپنے گھر والوں سے بات کرتے ہیں۔ بمشکل ہی ان سے شیئر کرتے ہیں جو ہم محسوس کرتے ہیں۔ نہ ہی ہمارے پاس وقت ہے، ایک دوسرے کو سننے کا۔ بمشکل ہی بیٹھک لگتی ہے جہاں سب ایک دوسرے سے اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔
جانتے ہو، یہ جو مائی بابے کاروبار چمکائے بیٹھے ہیں۔ قسمت بدلنے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ان کے پاس کہاں کوئی چراغ ہے۔ ہاں وہ ایک ہنر جانتے ہیں۔ جس لیے ان کے اردگرد لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ وہ آنے والے کی سنتے ہیں۔ لوگ اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو جج نہیں کرتے۔ انہیں بات بات پر اوقات نہیں یاد دلاتے۔ انہیں ہر وقت عذاب کی نویدیں نہیں سناتے۔ اور یہاں ہم بات بعد میں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو جج پہلے کرتے ہیں۔ اگر ہم بھی ایک دوسرے کو تھوڑا سا سننا اور برداشت کرنا شروع کر دیں تو شاید یہ مسائل بھی کافی کم ہو جائیں۔
ہمارا المیہ پتا ہے کیا ہے، ہم اگر کسی کے لیے کچھ اچھا بھی کرتے ہیں نہ تو امید رکھتے ہیں کہ وہ فیور کبھی نہ کبھی ہمیں ریٹرن کی جائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا نہ ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم hurt ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہماری خوشی اور غم منسلک ہوتے ہیں۔ ہم کہتے تو ہیں کہ انسان کمزور ہے، مجبوریوں کا مارا ہے مگر اگر ہم یہ Accept بھی کرنا شروع کر دیں تو ہمارے سینے سے کافی بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور ہم اپنی خوشی اور غم کی ذمہ داری بھی خود قبول کرنے لگیں گے۔ شاید انسانوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے لگیں۔
اشفاق احمد اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ میں نے بابا جی کے سامنے مسئلہ رکھا کہ آج کل کیوں سڑیس اور پریشانی بڑھ گئی ہے؟ تو وہ کہنے لگے دن میں ایک آدھ دفعہ "بونگیاں" مار لیا کرو۔ یعنی ایسی بات کر لیا کر جس کا مطلب اور معنی کچھ نہ ہو۔ دراصل گزرتے وقت کے ساتھ ہم کو زمانے نے اس قدر سخت اور سنجیدہ کر دیا ہے کہ ہم بونگیاں مارنے سے بھی قاصر ہیں۔
باقی امور تو دور کی بات ہے آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت نہیں ملے گا۔ جب آپ نے بونگی مارنی کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے۔ جبکہ بونگی کسی بھی وقت ماری جا سکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے مگر انتہائی خوبصورت ہے۔
امریکن یونیورسٹی کی پروفیسر سینٹوس نے خوش رہنے کے پانچ ایسے طریقے بتائے جو وہ اپنے بچوں کو سکھاتی ہیں۔
1۔ اپنی تھینکیو ڈائری بنائیے۔
پورے ایک ہفتے تک ہر رات دس ان چیزوں کو یہ کہتے ہوئے لکھیں کہ آپ ان کے شکر گزار ہیں۔ اس سے آپ کی نظر ان چیزوں پر جائے گی جو آپ کے پاس ہیں بجائے اسکے کہ جو آپ کے پاس نہیں۔ پروفیسر صاحبہ نے دیکھا کہ جو طلبہ پابندی سے اس کی مشق کرتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
2۔ مکمل نیند لیں۔
کیا آپ روزانہ آٹھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں؟
پروفیسر صاحبہ کا کہنا ہے کہ زیادہ اور اچھی نیند لینے سے ڈپریشن اور سٹریس میں جانے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں اور آپ کی ذات میں مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔
3۔ میڈیٹیشن (مراقبہ)۔
پروفیسر صاحبہ کہتی ہیں کہ ہر شخص کے لیے دن میں کم از کم دس منٹ کے لیے میڈیٹیشن کرنا بہت ضروری ہے۔
4۔ کچھ وقت ضرور اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ گزاریں۔
پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ کچھ وقت ضرور اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ گزارنے سے آپ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جتنی مرضی ترقی کر لے مگر اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتے۔
5۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی بجائے اصل رابطے بڑھائیں۔
پروفیسر سینٹوس کا کہنا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی بجائے اصل رابطے بڑھائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کے زیادہ استعمال سے لوگ کم خوش رہتے ہیں۔ اور سب سے ضروری دن بھر میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے ذہن کو خالی کر دیجیے، فون سے دور رہیے اور زیادہ نیند لیجیے۔