ایف ایس سی کا زمانہ تھا۔۔۔ انتہائی دباؤ کی فضا۔۔۔ نمبروں کا پریشر، ڈاکٹر جو بننا تھا تب پتہ ہی نہیں تھا کہ زندگی میں میڈیکل اور انجینئر کے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔۔۔ فارغ وقت ہونا تو پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھ لینا یا کوئی ناول پڑھ لینا۔۔۔ مگر واصف علی واصف سے بھی تھوڑا اٹریکشن تھا وہ بھی اس طرح کہ نویں میں دوست اپنے بابا کی لائبریری سے ان کی ایک کتاب لائے۔۔ تھوڑی پڑھی تو ایسے لگا جیسے یہ میری بات کر رہے ہیں۔۔ بس پاس عید کا ہزار روپیہ تھا۔۔ اگلے دن دکان دار کو بولا اس میں واصف علی واصف کی جو جو کتاب آتی ہے دیے دیں۔۔۔۔ انہوں نے دو قطرہ قطرہ قلزم اور دل دریا سمندر تو دے دیں مگر دو بار پوچھا، خود پڑھو گی۔۔۔ لینے سے پہلے سوچ لو واپس نہیں ہو نگی۔۔۔ مگر میرے لیے تو وہ دنیا ہی الگ تھی۔۔۔ بلکل میری سوچ جیسی۔۔۔۔
خیر کیا بات کررہے تھے ہاں انٹری ٹیسٹ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ ناکام رہی۔۔۔۔ تب کوئی بھی دیکھتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو یہ تو ہے ہی فیل۔۔۔ کچھ نہیں کر سکتی زندگی میں۔۔۔ ڈپریشن کےلیے یہ کافی تھا۔۔۔۔۔ ہر کسی سے الجھنا اب معمول تھا۔۔۔ اماں ابا تو دشمن لگتے تھے کہ یہی ہیں جن کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔۔۔۔ پھر ان کا دوبارہ رپیٹ کرنے پر اصرار۔۔۔ تب لگتا تھا زندگی میں کچھ نہیں اب۔۔۔ قاسم علی شاہ سر کی ایک ویڈیو مالٹوں والی کسی نے شئیر تھی وہ دیکھی تو تھوڑی دلچسپی بڑھی۔۔ نیٹ پیکج تھا یوٹیوب کھولی اور مزید ایسی چیزیں سرچ کرنے لگی۔ ایک نئی دنیا میری منتظر تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے پھر دنیا جہاں کے ڈھیروں لیکچر سن ڈالے اور تب ان میں سے اہم پوائنٹ میں لکھا کرتی تھی۔ ابھی بھی وہ نوٹس میرے پاس ہیں۔۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میرا سوچنے کا نظریہ بدلا۔۔۔۔ اب میں پریشان ہونے پر رونے اور خود کو کمرے میں بند کرنے کی بجائے، کوئی راستہ ڈھونڈنے لگی۔۔۔ کچھ نیا سیکھنے لگی۔۔۔۔ خود کو ایسی چیزوں میں مصروف رکھنے لگی جس سے کوئی مثبت فائدہ بھی ملے۔۔۔۔۔۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔۔ مجھے پتہ چلا کہ مجھے تو دنیا کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔
نئی نئی ٹرم اور ٹرمینالوجی سے متعارف ہوئی۔۔۔۔ مجھے ایسی ایسی ہیرا کتابوں کے متعلق پتا چلا پھر pdf فارم پڑھنا اور سرچ کرنا سیکھا۔۔۔۔ ٹونی رابن اور رابن شرما کو کون جانتا تھا پہلے۔۔۔ Hero، The Secrets اور جان برجز کی EtiquettesSeries تک رسائی کہاں تھی اور پھر کہاں سے کہاں کا سفر طے کیا۔۔۔۔ اب ماسٹرز بھی مکمل ہونے والا۔۔ ٹکریں مار کر ایک کتاب آس بھی لکھ لی، کچھ اور چھوٹی موٹی کامیابیاں بھی حاصل کر لیں جو کبھی خواب تھیں۔۔۔ پھر میں نے سمجھا کہ ہم بس مختلف نظریہ سے سوچنے کی ضرورت ہے اور اس کےلیے کبھی ایک لائن اور کبھی چند جملے ہی بڑے کاری گر ثابت ہوتے ہیں۔ اور ہمیں بھی کوشش کرکے یہ جملے بانٹنے ہیں۔ دوسروں کی ہمت بڑھانی ہے۔ گرانے والے تو اکثر ہی مل جاتے ہیں مگر ہمیں اٹھانے والوں میں سے بننا ہے۔
سیانے کہتے ہیں نہ کہ برتن میں کچھ ہو گا تو کچھ دِکھے گا۔۔۔ باقی جستجو قائم رہنی چاہیے اور طلب ہونی چاہیے۔۔۔۔۔ اور اس طلب کو لیے میں نہ صرف ڈپریشن سے نکلی بلکہ میں نے زندگی میں نئی نئی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور سیکھنے لگ گئی اور اس کا نتیجہ بھی دکھنے لگا۔۔۔ کلاس میں خاموش بیٹھنے والی اب بولنے لگی۔۔۔۔ خود مایوسی کی بات کرنے والی اب دوسروں کو امید دینے لگی۔۔۔۔ پھر جب پریشانی میں سوچ آتی کہ آگے کیا ہوگا تو پھر سوچتی آج تک سب کون دیکھتا آیا ہے۔۔ اللہ نہ تو پھر اسے کیا مشکل ہے آگے سنبھالنا۔۔۔ آپ کا کام ہے کوشش کرنا اور اسے جاری رکھنا۔۔۔ نتیجے کی پروا وہ خود کر لے گا۔۔۔۔۔
اپنی چاردیواری میں، میں بہت دکھی تھا یعنی کہ جیسے ساری دنیا کے پہاڑ مجھ پر ہی گرے ہوں۔ بس کہ بغاوت پر اتر آیا۔ مگر جو چار دیواری سے نکل کر مخلوق کا حال پوچھا تو میرا دکھ تو کہیں ہوا ہو گیا۔۔۔
ہماری سوچ ہے کہ دنیا کیسے کیسے حالات میں جی رہی ہے اور پھر بھی شکر ادا کرتی ہے۔
جب حالات کی تلخی زیادہ تنگ کرے تو باہر نکلو، لوگوں سے بات چیت کرو ان کا حال پوچھو کسی ہسپتال کا دورہ کرو۔۔ سب سمجھ جاؤ گے۔ خودبخود شکر سیکھ جاو گے۔