دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ماں کے دو بیٹے شہید ہو جاتے ہیں جب ماں کو خراج تحسین کے لیے بلایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں تو ماں کہتی ہے کہ اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں انہیں بھی وطن پر قربان کر دیتی، بیوی کہتی ہیں مجھے ان کی شہادت پر فخر ہے، بیٹی کہتی ابو میرا غرور ہیں اور بیٹا کہتا ہے میں بھی ابو کی طرح وطن پر جان قربان کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ جہاں ایسی مائیں، بیویاں بیٹیاں اور بیٹے ہوں، ایسے خاندان ہوں وہاں ملک پر کوئی میلی آنکھ کیسے رکھ سکتا ہے اور اس کو کوئی نقصان کیسے پہچا جاسکتا ہے۔ جہاں ایسا حوصلہ، ایسا جذبہ ہو وہاں ملک کی طرف اٹھنے والے غیر مسلح ہاتھ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
6 ستمبر 1965 کا تاریخی دن بھی ایسی بے دریغ قربانیوں اور حوصلوں سے بھرپور ہے، جب دشمن نے ہماری قومی سلامتی پر حملہ کیا اور ہمیں نیست و نابود کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اور یہ دن سنہرے حروف کے ساتھ قلمبند کیا جاتا ہے جو اس کامیابی کا نتیجہ ہے جو اس دن حاصل کی گئی، آزادی کے بعد جہاں پاکستان کو مختلف چلنجز کا سامنا تھا وہیں دفاع کا مسئلہ بھی درپیش تھا کیونکہ دشمن کو پاکستان کا وجود کسی صورت گوارا نہیں تھا وہ ہر صورت اسے ہندوستان کا حصہ بنانا چاہتا تھا مگر پاکستان کو اپنے وجود کو برقرار رکھنا تھا جہاں یہ بہت مشکل تھا وہاں پاکستانی قوم نے حوصلے اور بھرپور جذبے کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا اور کامیابی حاصل کی۔ کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی۔ دفاع جتنا مضبوط ہو قوم بھی اتنی ہی شاندار اور مضبوط ہوتی ہے۔ 6 ستمبر 1965 کی جنگ پاکستانی قوم کیلئے ایک پر وقار اور لازوال استقلال کا استعارہ ہے، 1965 کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اس مقصد کیلئے بےدریغ جان و مال کے نذرانے پیش کیے اور آج جب پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان کے جانباز جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے باعث ان کا تشخص ایک غیور اور جرات مند قوم کا ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ملکی بجٹ کا 80% حصہ فوج کھا جاتی ہے اور یہ بات کچھ حد تک درست بھی ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی سطح پر بہت سے کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں اور اسی کی وجہ سے ملکی ترقی کی رفتار بھی سلو ہے مگر اس حقیقت سے بھی منہ نہیں پھیرا جا سکتا کہ دفاع پاکستان کا ابتدا سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسی لیے ملکی سرمایے کا بڑا حصہ اس کی نظر ہو جاتا ہے۔ جنگیں اور کئی آپریشنز ہوئے ہیں، جس سے لوگوں کی معیار زندگی متاثر ہو تا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے دفاعی میدان میں اب کافی ترقی کر لی ہے عالمی برادری نے بھی اسے سراہا ہے، پاکستان کی ایئر فورس کو بہترین فورس مانا جا رہا ہے۔ ۔ حال ہی میں پاکستان نے اپنا میزائل بحری جہاز اور لڑاکا طیارے متعارف کرائے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے حکومتی نظام میں ماضی میں فوج کی بڑی مداخلت بھی دیکھی گئی ہے، جس سے ملک میں جمہوریت صحیح طرح سے فروغ نہیں پا سکی، تین بار فوجی سربراہ کی حکومت رہی جس نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ اب حکومتی معاملات میں فوجی مداخلت کافی حد تک ختم ہوئی ہے۔ جس سلسلے میں کی گئی کوششیں رنگ لائی ہیں اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آرمی چیف بہت جمہوریت پسند معلوم ہوئے ہیں اور وہ اس کا بار بار اقرا کر چکے ہیں وہ جمہوریت کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں جو کہ ملکی سلامتی کے لئے بہت خوش آئین ہے اور اس بات کو نہ صرف ملکی بلکے عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔
پاکستانی فوج پاکستان کا دایاں بازو ہے جو ملکی سلامتی کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے جس کے جوانوں نے نہ صرف ملکی سلامتی کی حفاظت کی کوششیں کی ہیں بلکہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں اور یہ فوج ہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں اور ہمارے جوان باڈر پر ہماری حفاظت کررہے ہوتے ہیں۔ پاکستانیوں کو اپنی فوج سے بےحد پیار ہے اور انہیں ان کی قربانیوں کا بھی احساس ہے۔
ہر پاکستانی تہ دل سے افواج پاکستان کا شکر گزار ہے جو پاکستان کی اور ہماری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اس دہشت گردی کے دور میں جہاں اس قدر دہشت کا سما تھا، فوج نے جس بہادری اور ہمت سے ان حالات کو چلنج کیا اور دہشت گردوں کا مقابلہ جس جذبے سے کیا اسی کی وجہ سے آج ہم امن و امان سے ہیں اور جس قدر فوج کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں جو قابل فخر ہیں جس پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وطن کی ہوائیں تجھے سلام کہتی ہیں۔ سب سے بڑ ھ کر اس سال افواج پاکستان نے جس جذبے اور مش کے تحت شہداء پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے عقیدت کا نظرانہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے وہ قابل تحسین ہے کیونکہ یہ شہداء کا خون ہی ہے جس سے یہ ملک سلامت ہے، یہ قوم سلامت ہے انہی شہداء کی وجہ سے جنہوں نے اپنی جان، اپنا گھر بار سب کچھ خدا کے آسرے چھوڑ کر وطن کی حفاظت کو مقدم رکھا اور سب کچھ وطن کی نظر کر دیا۔ یہ وطن سلامت ہے تو ہم ہیں اسی سے ہماری آن ہے اور یہی ہماری شان ہے اور یہ پہچان ان ساتھیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اور زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں اور انہیں ہمیشہ نہ صرف دلوں میں بلکے تاریخ کے ہر باب میں زندہ رکھتی ہیں اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔
پاکستان کے لوگ بہت وطن پرست ہیں جنہوں نے ہر مشکل حکومت اور افواج کے ساتھ مل کر پاکستان کی خاطر اپنی تمام توانائیاں کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر کوششیں کیں اور ایسا ہی نظارہ ہم نے 6 ستمبر کے تاریخی دن بھی دیکھا تھا۔
آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے جہاں وطن عزیز کے ہر فرد کو یہ عہد کرنا ہے کہ وہ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو زندگی کی سب سے پہلی اور بڑی ترجیح بنا کر اس شعور کو اگلی نسلوں تک پہنچا ئیں گے اور وطن کی سلامتی اور ترقی کے لیے تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں گے اور اس کی بہتری کیلئے تمام تر نظریاتی تفرقات کو پس پشت ڈال کر کام کریں گے۔