خاوند۔ السلام وعلیکم
بیوی۔ و علیکم السلام آج صبح صبح فون خیریت ڈیوٹی نہیں جانا؟
خاوند۔ ڈیوٹی جانا ہے۔ جب مس کال کرو گی تو کال کے لیے وقت تو نکالنا پڑے گا۔ مس کال کیوں کی؟
بیوی۔ میں نے مس کا ل کی؟ نہیں نہیں سر، میں تو کچن میں ہو ں۔
خاوند۔ یار اس وقت ڈیوٹی جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ شام کو تفصیل سے بات کر لیا کرو۔
بیو ی۔ جناب میں کچن میں ناشتہ بنا رہی ہوں موبائل ٹی وی ٹرالی پر پڑ ا تھا۔ میں دیکھتی ہوں۔ فادی نے مس کال کی ہوگی۔ آپ کیا کررہے ہیں۔
خاوند۔ بس آفس جانے کی تیاری شوز پالش کیے اب شیو کر رہا تھا جب مس کل آئی۔
بیوی۔ لیں جی آپ کا چور حاضر ہے۔ آپ کے نمونے نے مس کال کی ہے۔
خاوند۔ اچھا اچھا بات کرواؤ۔
(چھ سال کا فادی اپنی امی سے موبائل پکڑ کر)
فادی۔ ہیلو پاپا جی یہ دھماکہ کیا ہوتا ہے۔
پاپا۔ بیٹا پہلے کہتے ہیں السلام و علیکم پاپا جی۔
فادی۔ اچھا ٹھیک ہے پاپا جی۔ یہ دھماکہ کیا ہوتا۔
پاپا۔ (بات کو ٹالتے ہوئے) بیٹا دھماکہ کچھ نہیں ہوتا۔ آپ نے سکول کی تیاری کی یا نہیں؟
فادی۔ کر لیتا ہوں تیاری بھی، ابھی ماما ناشتہ بنا رہی ہیں۔ آپ بتائیں دھماکہ کیا ہوتا ہے؟
پاپا۔ بیٹا دھماکہ کچھ نہیں ہوتا۔ آپ نے شب برات پہ جو پٹاخے چلائے تھے تو جو آواز آتی ہے اسے دھماکہ کہتے ہیں۔
فادی۔ اچھا تو پھر لوگ کیسے مر جاتے ہیں دھماکے سے؟ میرے پٹاخوں سے تو کوئی بھی نہیں مرا تھا۔
پاپا۔ نہیں بیٹا کوئی لوگ نہیں مرتے۔ کچھ نہیں ہوتا دھماکے سے۔
فادی۔ لیکن یہ خبروں والے تو بتا رہے ہیں لاہور میں ایلیٹ کی گاڑی پہ دھماکہ ہوا اور چار لوگ شہید ہوگئے۔ شہید مر جانے والے کو کہتے ہیں نا؟ پاپا جی شہید کیا ہوتا ہے؟
پاپا۔ اچھا چھوڑ و لاہور والے دھماکے کو دیکھو ماما نے ناشتہ بنا لیا ہوگا۔
فادی۔ جب ماما ناشتہ بنا لیں گی تو مجھے آواز دیں گی میں چلا جاؤں گا۔ پاپا جی آپ بھی ایلیٹ میں ہیں نا؟ میں نے آپ کی تصویر دیکھی تھی، آپ نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا پیچھے پاکستان کا جھنڈا تھا۔ ساتھ لکھا تھا ایلیٹ فورس۔
پاپا۔ جی بیٹا میں بھی ایلیٹ میں ہوں۔ آپ نے یونیفارم تو پہن لیا ہے نا؟
فادی۔ یونیفارم ماما پہنائیں گی۔ پاپا جی وہ گاڑی آپ کی تھی جس پہ دھماکہ ہوا؟
پاپا۔ جی بیٹا وہ گاڑی ہماری ہی تھی، لیکن میں وہاں نہیں تھا۔
فادی۔ اچھا آپ وہاں سے کتنی دور تھے؟ آپ وہاں ہوتے تو آپ بھی شہید ہو جاتے نا؟
پاپا۔ بیٹا میں وہاں سے کافی دور تھا۔ شہادت بہت نصیب والوں کو ملا کرتی ہے فادی بیٹا۔
فادی۔ پاپا جی یہ دھماکہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
پاپا۔ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی مذہب، دین، کوئی اللہ نہیں ہوتا۔
فادی۔ پاپا جی اللہ تو دھماکہ کرنے سے منع کرتا ہے نا؟
پاپا۔ جی بیٹا اللہ تو جانوروں پر بھی رحم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے مذہب کی تعلیمات میں تو یہاں تک فرمایا اور سکھایا گیا ہے کہ راستے میں پڑا غیر ضروری پتھر بھی ہٹانے سے ثواب ملتا ہے۔
فادی۔ پاپا جی جو ایلیٹ والے شہید ہوئے اب ان کے بچوں کو کھلونے تو کوئی بھی نہیں لے کر دے گا نا؟ اب ان کے ساتھ پارک کون جائے گا۔
پاپا۔ (نم آنکھوں سے) بیٹا ہم سب، ہمارا محکمہ، ہماری حکومت سب ان کا خیال رکھے گی۔ ان کو بہت کھلونے ملیں گے۔
فادی۔ اور پاپا تو نہیں ملیں گے نا؟
پاپا۔ آنسو صاف کرتے ہوئے۔ بیٹا ان بچوں کے پاپا تو بہت بہادر تھے اور مجھے پورا یقین ہے وہ بچے بھی بہت بہادر ہوں گے میرے فادی کی طرح َ۔
فادی۔ جی پاپا میں بھی بہت بہادر ہوں میں بھی بڑا ہوکر ایلیٹ میں ہی جاؤں گا اور آپ کی طرح ان دھماکے کرنے والوں کو پکڑوں گا۔
پاپا۔ نہیں بیٹا جب تک آپ ایلیٹ میں یا فوج میں جاؤ گے آپ کے پاپا اور آپ کے پاپا کے ساتھی سب دھماکے کرنے والوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیں گے۔ انشاءاللہ۔
فادی۔ پاپا جی لوگوں کی جان بچانا تو اچھا کام ہے نا؟
پاپا۔ جی بیٹا صرف انسانوں کی ہی نہیں ہر جاندار کی جان بچانا بہت اچھا کام ہے۔
فادی۔ پاپا جی انکل آصف، انکل راشد، انکل ندیم سب کی ڈیوٹی پولیس میں ہی ہے نا؟
پاپا۔ جی بیٹا سب کی ڈیوٹی پولیس میں ہی ہے اور سب ٹھیک ہیں۔
فادی۔ پاپا جی میں آج سکول سے چھٹی کرلوں؟
پاپا۔ کیوں بیٹا سکول چھٹی کرنے کی وجہ سکول نہیں جاؤ گے تو بڑے ہوکر ایلیٹ کیسے بنوگے؟
فادی۔ میں نے دیکھنا تھا دھماکہ کرنے والے کون ہیں خبروں میں لازمی دکھائیں گے۔
پاپا۔ آپ دیکھ کر کیا کرو گے؟
فادی۔ میں بڑا ہوکر انھیں پکڑوں گا۔
پاپا۔ میرے بیٹے ابھی آپ کے پاپا آپ کے انکل سبھی ہیں نا، ان کو پکڑنے کے لیے تو پھر آپ فکر کیوں کرتے ہو، جاؤ شاباش سکول جاؤ۔ میرا شیر بیٹا۔
فادی۔ اچھا ٹھیک ہے یہ لیں ماما جی سے بات کریں۔
بیوی۔ جی جناب صبح صبح ہمارے لیے تو آپ کے پاس ٹائم نہیں ہوتا۔ اور اپنے بیٹے سے تو باتیں ختم ہی نہیں ہو رہیں جناب کی۔
خاوند۔ آپ نے ٹی وی دیکھا؟
بیوی۔ نہیں کیوں؟
خاوند۔ کتنی بار کہا ہے بچوں کو خبروں والے چینلز سے دور رکھا کرو۔
بیوی۔ ہوا کیا؟
خاوند۔ لاہور میں ایلیٹ کی گاڑی پہ خودکش دھماکہ کیا گیا ہے۔ اور تمھارے لاڈلے نے وہ خبر سن لی ہے۔
بیوی۔ اوہو۔ پتہ نہیں یہ دھماکے کب اس ملک و قوم کی جان چھوڑیں گے؟ اور میرا قصور نہیں جناب کا بیٹا ہر وقت خبریں ہی دیکھتا ہے۔ کہتا ہے خبروں میں پاپا کی پولیس نظر آتی ہے۔
خاوند۔ اچھا اب اسے تیار کرو اور سکول بھیجو۔ میں بھی لیٹ ہوگیا ہوں۔ ابھی وردی پہننی ہے۔
بیوی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔
خاوند۔ بیگم یہ وردی کفن ہے اور کفن پہننے والے لوگ اپنا نہیں اپنے ملک وقوم کا خیال رکھتے ہیں۔
بیوی۔ جی جناب ہمیں پتا ہے۔ ہمیں پاکستانی قوم سمجھ کر ہی ہماری خاطر اپنا خیال رکھیے گا جناب۔
خاوند۔ اچھا پاکستانیو! اجازت دو تو ڈیوٹی جاؤں؟
بیوی جی جناب رب راکھا۔ میں بھی فادی کو سکول بھیج لوں۔ اللہ حافظ
خاوند۔ جی اللہ حافظ۔