قبضہ مافیا کیا ہے۔ شاید مجھے بھی اس جملے کا مطلب نہیں پتہ تھا۔ میں بھی سمجھتا تھا یہ جو سرکاری زمین پر جھونپڑیاں چھپر بنا کر بیٹھے ہیں یہ ہی لوگ قبضہ مافیا اور گھس بیٹھیے ہیں۔ اور شاید حکومت پاکستان اور اسپیشلی حکومت پنجاب بھی اصل قبضہ گروپس کو پہچاننے میں غلط فہمی کا شکار ہے۔ حکومت پنجاب کا قبضہ مافیا سے وہ زمینیں پلاٹس اور تھڑے جو سالہا سال سے ان کے قبضے میں تھے واگزار کروانے کے فیصلے اور ناجائز تعمیر کیے گئے مکانات دکانیں گرانے کے حالیہ اقدام سے دائرہ اخلاق اور پاکستان کے قانون کے مطابق زندگی گزارنے واے ہر شریف النفس پاکستانی کی طرح میں بھی ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے بہت خوش تھا اور بغلیں بجا رہا تھا۔ میں خوش اس لیے تھا کہ اب ان زمینوں پلاٹس پر سکول کالج یونیورسٹیاں کھیل کے میدان ہسپتال سرکاری ملازمین کے لیے رہائشی کالونیاں دستکاری سکول اور دفاتر بنیں گے۔ تمام بازار کھلے ہوجائیں گے۔ شہر خوبصورت ہوجائیں گے لیکن میری تمام خوشی اس وقت دل دماغ سے نکل کر پلکوں پہ نمی کی شکل میں امڈ آئی جب میں ایک ایسی جگہ گیا جہاں حکومتی مشینری غریب لوگوں کے کچے اور گارے مٹی سے بنے مکانات گرانے میں مصروف تھی۔ ایک معمر خاتون ہاتھ میں اشٹام پیپر پکڑے وزیروں موقعہ پہ موجود پولیس والوں اور کرکٹ والے منڈے یعنی وزیر اعظم پاکستان کو بدعائیں دے رہی تھی۔ میں نے بڑے عاجزانہ اور ہمدردانہ لہجے میں کہا اماں جی یہ آپ کے مکانات ناجائز تھے۔ سرکاری زمین پہ آپ لوگ قابض ہیں۔ تو وہ معمر خاتون کہنے لگی کون قابض ہے؟ میرا بیٹا گدھا ریہڑی پہ سارا دن لوگوں کا بوجھ ڈھوتا ہے۔ میرا خاوند مدت ہوئی فوت ہو چکا ہے۔ تم مجھے بتاؤ سارا دن گدھا گاڑی پہ مزدوری کرنے والا سارے دن کا تھکا ہارا میرا بیٹا قبضہ کب کرے گا۔ میں بیوہ عورت قبضہ کروں گی؟ جس دن میرا بیٹا کام پہ نہیں جاتا ہمارے گھر چولہے میں آ گ نہیں جلتی۔ چار سال ہم نے کمیٹیاں ڈال کے یہ دس مرلے کا پلاٹ لیا تھا۔ جس کا یہ رقعہ (اشٹام پیپر) میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے اور میری بہونے گارے کی اینٹیں، دھب اور کانوں سے یہ دو جھونپڑیاں بنائی تھیں جنھیں آج ان ظالموں نے ایک پل میں گرا دیا ہے۔ ہماری سالوں کی محنت پہ ایک لمحے میں پانی پھیر دیا۔ ہمیں کیا پتہ قبضہ کیا ہوتا ہے۔ ہم نے تو یہ جگہ اپنے پیسوں سے خریدی تھی۔ میرے بیٹے کو تو پتہ ہی نہیں کہ ہمارا گھر گرا دیا گیا ہے۔ وہ تو قسمت کا مارا آج بھی اپنی گدھا گاڑی لے کے مزدوری پہ گیا ہوا ہے۔ چھت اور دیواریں گرنے سے ہماری چارپائیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ ہمارے بستر خراب ہوگئے ہیں۔ ہمیں تو کسی نے بتایا بھی نہیں کوئی اعلان تک نہیں کیا کسی نے کہ ان غریبوں پہ اس طرح کی قیامت برپا ہونے والی ہے۔ اچانک آج یہ لوگ مشینیں لگا کر ہمارا گھر گرا رہے ہیں۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی بیٹا ہم اب کہاں جائیں گے۔ ہمارا کیا ہوگا۔ بیٹا تم کچھ کر سکتے ہو تو خدا کے لیے ان ظالموں کو روکو۔ اب ہمارا کیا ہوگا۔ میری ماں عمر کی وہ بوڑھی عورت ایک چھوٹے سے بچے کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی اور میں بے بسی کی تصویر بنا یہ سوچ رہا تھا کہ کسی نے حکومت پنجاب کے سامنے قبضہ مافیا کی تشریح غلط کر دی ہے۔ ان بیچارے لوگوں کو پیشہ ور قبضہ گروپ سمجھ کر ان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا کہ یہ لوگ اپنا چھوٹا موٹا سامان بستر چارپائیاں کھانے کے برتن اپنا کل اثاثہ سنبھال لیتے۔ چند دنوں بعد موسم سرما شروع ہونے والا ہے۔ آخر یہ لوگ اب کدھر جائیں گے۔ حقیقی قبضہ مافیا تو وہ درندے ہیں جنھوں نے ان زمینوں پہ قبضہ کرنے کے بعد پلاٹس بنا کر غریب لوگوں کو فروخت کردیے۔ شہروں کے بازاروں میں بڑی بڑی دکانوں شاپنگ سنٹرز اور پلازوں کے سامنے ریہڑیاں ٹھیلے اور سبزی کے پھٹے لگانے والے قبضہ مافیا نہیں ہو سکتے۔ ان کا سامان اٹھا کر بلدیہ کی ٹرالیوں میں لادھ کر لیجانا یا توڑ پھوڑ کرنا سرا سر زیادتی ہے۔ قبضہ مافیا تو وہ مگر مچھ ہیں جنھوں نے ان سے لاکھوں روپے ایڈوانس کی مد میں لے رکھے ہیں۔ ہزاروں روپے ماہانہ کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ قبضہ مافیا کے باقائدہ منظم گروہ ہیں جو اس طرح کی کچی آبادیوں میں قبضہ کرکے سرکاری زمین بیچ کر یا شہر کے بازاروں میں تھڑے کرائے پر دے کر لاکھوں روپے کما کر خود ہاوسنگ کالونیوں اور مہنگی سوسائیٹیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ غریبوں سے لوٹی ہوئی دولت سے عیاشیاں کر رہے ہیں۔ میری رائے میں ان غریبوں سے سب اشٹام پیپر اکٹھے کر لیے جائیں اور ان سے لوٹی گئی دولت انھیں واپس کروائی جائے۔ ان لوگوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں جو ان کچی آبادیوں کے معرض وجود میں آنے کے صحیح معنوں میں ذمہ دار ہیں۔ بھٹو صاحب نے پانچ مرلہ سکیم کے تحت بے گھر لوگوں کو کچی آبادیوں میں آباد کیا سرکاری غیر آباد زمینوں کے مالکانہ حقوق دیے۔ بڑے بڑے زمینداروں وڈیروں بھٹہ مالکان کے چنگل سے بے گھر مزدوروں اور بے زمین کسانوں کو آزاد کروایا تاکہ ان کے بچے بھی آزاد فضاء میں سانس لے سکیں اور خودمختار زندگی گزار سکیں اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اور ایک خودار معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے۔ موجودہ حکومت کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے کہ سرکاری زمین کو ناجائز قابض مافیا سے آزاد کرایا جائے لیکن اس کے نقصانات کا تدارک کرنا بھی حکومت پاکستان کی ہی ذمہ داری ہے اس کاروائی سے متاثر ہونے والے بچے آپ کے بچے ہیں۔ بزرگ آپ کے بھی بزرگ ہیں۔ عورتیں اس پوری قوم کی مائیں بہنیں بیٹیاں ہیں۔ تمام افراد آپ کے پاکستانی بھائی ہیں۔ آپ تو افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت دینے کی بات کرتے ہیں۔ آپ غریبوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ محترمہ خاتون اول بیواؤں کی داد رسی کرنے کے دعوے کرتی ہیں۔ مگر آپ کا یہ غریبوں کے مکانات گرا دینا آپ کے تمام دعووں کے منافی عمل ہے۔ صرف یہ مکانات گرا دینا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اصل ذمہ داران کو پکڑنا سرکاری زمینیں فروخت کرکے انھوں نے جو جائدادیں بنائی ہیں انھیں ضبط کیا جانا یا فروخت کرکے غریبوں کا پیسہ واپس کیا جانا اشد ضروری ہے تاکہ یہ بے گھر غریب لوگ ان پیسوں سے پھر کہیں جگہ خرید کر چھوٹی موٹی جھونپڑیاں بنا کر ایک بار پھر سے آباد ہو سکیں ورنہ شہروں کے آس پاس آباد یہ غریب لوگ پھر بے گھر ہو کر دیہاتوں کا رخ کریں گے اور ایک بار پھر غلامی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ کرپشن بد عنوانی لوٹ مار کے ستائے لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔ اب ان کا اور ان کے ووٹ کا بھرم رکھنا ان کے حقوق کا تحفظ کرنا۔ ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنا آپ کی حکومت کی ذمہ داری اور اولین ترجیح ہونی چاہیے۔