محکمہ پولیس کے بارے ایک بڑا غلط تاثر قائم ہے کہ اس محکمہ کے ساتھ جڑے ہوئے افسران بیمار اجسام کے ساتھ ساتھ بیمار ازہان کے مالک ہوتے ہیں جن کی ذاتی زندگی پریشانیوں میں گھری ہوئی ہوتی ہے۔ شاید محکمہ پولیس میں ہماری پیدائش سے پہلے ایسے لوگ لازمی پائے جاتے ہوں گے لیکن اب محکمہ پولیس کا ہر افسر اس کوشش میں ہے کہ اس جماعت پولیس کو معاشرے کے سامنے حقیقی معنوں میں انسان دوست جماعت کے طور پر پیش کیا جائے اب وہ تاثر قدرے ختم ہو رہا ہے جب کسی حادثے والی جگہ پر پولیس کے آجانے پہ لوگ خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگتے تھے۔ محکمہ پولیس اب پڑھے لکھے باشعور انسان دوست کتاب دوست افسران پر مشتمل ایک منظم جماعت ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی تقریب رونمائی مزاح کبیرہ ہے۔ ڈی ایس پی ملک ناصر صاحب کی قہقہوں بھری کتاب مزاح کبیرہ کی تقریب رونمائی میں پاکستان کے بڑے بڑے مزاح نگار کالم نویس شاعر کارٹونسٹ اور پولیس افسران کا موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ پولیس کے افسران ادب کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ادب سے لگاؤ رکھنے والے پولیس افسران کو محکمہ میں بھی کافی ادب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب پولیس کے افسران کو داد دینے کے لیے سرکاری حکم کی نہیں بلکہ خوبصورت ادبی جملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اپنے دوست کے ساتھ ایک پرانی سی موٹر سائیکل پہ قذافی اسٹیڈیم پہنچا تو گرمی دھوئیں اور مٹی سے برا حال تھا مجھے اندازہ تھا کہ اس تقریب میں بہت بڑی بڑی شخصیات موجود ہوں گی اس لیے میں نے چاہا کہ دھول مٹی دھوئیں سے اٹا چہرہ دھو لیا جائے لیکن کوشش کے باوجود میں ایسا نہ کر سکا کیوں کہ ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے ہم پندرہ منٹ لیٹ تھے اور تقریب شروع ہوچکی تھی لہذا اسی طرح اڑے بالوں اور مرجھائے چہرے کے ساتھ ہم دونو ں دوست بھی ہال میں جاکر بیٹھ گئے۔ جب میں اس تقریب میں پہنچا تو گل نوخیز اختر صاحب، یاسر پیر زادہ صاحب، ناصر ملک صاحب، بڑے قاسمی صاحب، حسین شیرازی صاحب، کارٹونسٹ جاوید اقبال صاحب، سلمی اعوان صاحبہ، نیلمہ ناہید درانی صاحبہ، شائستہ عظیم صاحبہ، کرسیوں پربیٹھے ہال کی شان کو چار چاند لگا رہے تھے۔ مزے کی بات مجھے جو سیٹ ملی اس کے ساتھ مشہور کالم نگار احمد رضا صاحب تشریف فرما تھے۔ جو نہ صر ف اٹھ کر مجھے ملے بلکہ اپنے بیٹے کے ساتھ میرا تعارف بھی کروایا جو ان کا بڑا پن تھا۔ نعت ختم شریف ہوئی تو نوجوان اور خوبصورت کالمسٹ فرخ وڑائچ صاحب کو دعوت دی گئی وہ سٹیج پر آئے اور خوبصورت انداز میں بتانے لگے کہ ایک بار ملک ناصر صاحب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے جب پولیس والے نے روکا اور تعارف کے باوجود اس نے ملک صاحب کو ڈی ایس پی ماننے سے انکار کردیا اب کانسٹیبل بیچارہ کیا کرتا ہمارے پیارے ڈی ایس پی صاحب کسی زاویے سے پولیس افسر لگتے ہی نہیں اتنا دھیمہ اور خوبصورت انداز گفتگو بھلا کسی پولیس افسر کا کیسے ہو سکتا ہے۔ فرخ وڑائچ صاحب کے بعد گل نوخیر اختر صاحب نے اپنے مخصوص انداز گفتگو سے ہال میں بیٹھے مہمانوں پر قہقہوں بھرے خوبصورت الفاظ کی پتیاں بکھیرنا شروع کردیا اور ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونجنے لگا۔ گل نوخیز صاحب نے مہمانوں کا تعارف کرواتے ہوئے جب بندہ ناچیز کا بھی نام لیا تو مجھے حیرت ہوئی وجاہت مسعود صاحب عباس تابش صاحب جیسی قدآور شخصیات کے ساتھ میرا بھی نام وہ بھی گل نوخیز اختر صاحب کی زبان سے افف میرے اللہ میرے جیسے میلے کچیلے بندے کی اتنی عزت افزائی۔ بظاہر دنیا دار لوگ کتنے درویش صفت ہیں میرے دل سے گل نوخیز اختر صاحب کے لیے دعا نکلی جزاک اللہ سر۔
بے شک حسین شیرازی صاحب نے مزاح سے ہٹ کر گفتگو کی مگر ان کی گفتگو بھی کافی سبق آموز تھی یا یوں کہیے کہ ان کی گفتگو ایک سہمے ہوئے لطیفے جیسی تھی جسے سن کر سننے والا اسی شش پنج میں رہے کہ ہنسنا ہے یا بس سوچنا ہے کیوں کہ مزاح نگار کی گفتگو میں مزاح نہ ہونا بھی ایک لطیفہ ہے۔ نیلمہ درانی صاحبہ نے ملک ناصر صاحب سے وابستہ یو، این، او، امن مشن کی کچھ خوبصور ت یادیں تازہ کیں جہاں ناصر ملک صاحب اور نیلمہ درانی صاحبہ ایک ساتھ کام کرتے رہے تھے۔ یاسر پیرزادہ صاحب نے بھی لب کشائی کی ناصر ملک صاحب اور گل نوخیز اختر صاحب کی نونک جھونگ جاری رہی، دونوں ایک دوسرے کو صاحبہ ڈکلیر کرنے پر تلے ہوئے تھے وقتا فوقتا گل
نوخیز اختر صاحب کی تڑکے دار کوئی جگت ہال کے ماحول کو گرما دیتی۔ وجاہت مسعود صاحب کے الفاظ مختصر مگر جامع ہونے کے ساتھ ساتھ نصیحت آموز بھی تھے۔ بڑے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کے لیے اپنے ہاتھ سے لکھی ایک جامع نصیحت آموز تحریر پڑھ کر سنائی۔ مشتاق یوسفی صاحب کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد قاسمی صاحب مزاح نگاری کے پودے کو ناصر ملک صاحب کی صورت میں پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں اور مزاح کبیرہ پڑھ کر اس بات پہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ ناصر ملک صاحب سے جڑی قاسمی صاحب کی امید بالکل درست ہے ناصر ملک صاحب کی مزاح نگاری ان کی شخصیت کی نفاست سادگی اور عاجزی اس بات کا ثبوت ہے کہ ناصر ملک صاحب فن مزاح نگاری کے آسمان پہ روشن ہوتے درخشندہ ستارے ہیں۔ اپنی کتاب مزاح کبیرہ میں معاشرے کے درد محرومیوں غربت اور تکالیف کو مزاح کا تڑکہ لگا کر اس صورت پیش کیا گیا ہے کہ قاری فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اپنی ہنسی روکے یا پلکوں پہ امنڈ آنے والی نمی۔ پہلی بار دیکھا کہ مہمان خصوصی کے بعد بھی کوئی اپنے خیالات کا ا ظہار کرنے سٹیج پہ آتا ہے۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ قاسمی صاحب کی خواہش تھی کہ ملک ناصر صاحب کو ا پنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ان کے بعد سٹیج پہ مدعو کیا جائے۔ تالیوں کی گونج میں جناب ملک ناصر صاحب اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سٹیج پر تشریف لائے۔ ہمیشہ کی طرح وہ ہی بانکپن اور دلکش انداز کاٹن کے مائع لگے سوٹ پر سیاہ شیروانی۔ موجودہ دور کے کسی دلہا کی طرح بن سنور کر ہچکچاہٹ سے کوسوں دور ڈی ایس پی ملک ناصر صاحب اپنی سیٹ سے اٹھ کر ڈائس پر تشریف لائے۔ ملک ناصر صاحب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اپنے کچھ مزاح سے بھرپور واقعات سنائے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ جب تک گل نوخیر اختر صاحب سے ملے نہیں تھے وہ محترم گل نوخیز اختر صاحب کو محترمہ ہی سمجھتے رہے۔ جب وہ پہلی بار گل نوخیز صاحب سے ملنے گئے تو ایک محترمہ سے ملنے گئے مگر سامنے آکر یہ راز کھلا کہ گل کو صرف عورت سے ہی نہیں جوڑا جا سکتا کچھ مرد بھی پھولوں جیسے پیارے نرم اور خوشبودار شخصیت کے مالک ہوا کرتے ہیں۔ وقت کی کمی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا جس طرح یہ تحریر لکھتے ہوئے میں بھی الفاظ کی تعداد کم رکھنے کا قیدی ہوں اسی طرح انتظامیہ بھی گھڑی کی سوئیوں کی پابند تھی ورنہ کس ظالم کا دل کررہا تھا کہ اس سہانی شام کا اختتامی لمحہ آتا۔ چائے کا دور چلا تو مجھے وجاہت مسعود صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ملنے کا شرف حاصل ہوا وہ بھی اس شفقت اور اپنائیت سے مجھے ملے گویا برسوں کی شناسائی ہو۔ جب تک وہ میرے ساتھ رہے میرا ہاتھ پکڑے رکھا جیسے پولیس ملزم کو دبوچے رکھے۔ مجھے لگا انڈین فلم پی کے، کے عامر خان کی طرح میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ خاص علم میرے سینے میں منتقل کر رہے ہوں اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا جس کا مجھے بھرپور موقع ملا۔۔ جس انداز سے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا پوری ٹیم مبارک کی مستحق ہے اور آخر اس طرح ایک خوبصورت
کتاب مزاح کبیرہ کے زبردست تعارف کے بعد تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ چار کک مانے کے بعد ہماری موٹر سائیکل بھی سٹارٹ ہوچکی تھی۔