ایسا بتایا گیا ہے کہ میں پلکیں نہیں جھپک سکا تھا، یہ پہلا دیدار تھا، بعد کے آنے والے دنوں نے اس دیدار کی سہولت میں اضافہ کرنا تھا اور نشوونما پانی تھی، لیکن اس وقت جب پلکیں نہ جھپکنے کا معاملہ ہوا تھا، آسمان پر کچھ فیصلے ہوئے تھے یہ فیصلے میری گزاری گئی زندگی پر اتنے اثر انداز ہوئے کہ ہر دن جسے گزرنا تھا اور ہر شام جسے آنا تھا اس فیصلے کی مرہون منت تھے اور راتیں خواب آلود تھیں کہ خواب دیکھے گئے تھے۔
یہ ایک ایسے شخص کی کھوئی کھوئی جاذبیت کے خواب تھے، جس میں جذب نہ ہوجانا میرے بس میں نہیں تھا، ویسے بھی میرے بس میں کچھ نہیں، ہاں کچھ خواہشوں کا جال تھا، جنہیں پہلے سے ترتیب دیا گیا تھا، تبھی تو بے ترتیب گزاری گئی زندگی میں اگر کہیں کہیں ترتیب کی لکیر اچانک سے نظر پڑتی ہے تو اس کی وجہ اِس شخصیت کے خیال میں چلے جانے کا خیال ہے کہ بہرحال ہم دونوں کی زندگی گزرے جاتی ہے اور پانی کی خاصیت لیے نظر آتی ہے لیکن وہ خالص پانی کی طرح صاف دِکھتے ہیں لیکن اتراتے نہیں۔
دیکھتا ہوں پانی کی شفاف سطح کے اندر وہ صرف خود موجود ہیں اور کبھی میں نے کوشش بھی کہ ان کے اندرون میں اترسکوں تو پُرسکون شفاف پانی کی چمک نے مجھے ڈرادیا، یہ ڈر زنگ آلود نہیں تھا کچھ ایسا تھا جیسے ان کی مقدس آنکھوں کا احترام تھا کہ میں نے ان جیسا کوئی دیکھا نہیں تھا، ہاں ایک ہجوم تھا اور مجھے بھٹکاتا رہا تھا۔ لیکن بھٹکی ہوئی حالت میں بھی ان سے ملاقات کی خواہش ایسے ہوا کے جھونکے کی طرح تھی جیسے خوشبو میں بسے باغ کی تلاش ہو کہ کوئی بھی موسم ہو، کیسا بھی دن ہو، دیدار ہوجائے اور انہیں دیکھا جائے، ان ہاتھوں کو جنہوں نے لفظ تراشے ہیں اور اس جان لیوا سچائی کو، جس نے جال بچھایا ہے۔
ایسا مجھے لگتا ہے کہ بیرونی سطح پر جو خوبصورتی تیررہی ہے، اندرون کی مرہون منت ہے کہ وہ اندرون کا آدمی ہے جہاں ایک دل ہے جس کی اداسی طاقچے میں رکھے چراغ کی طرح جل رہی ہے۔ یہ طاقچا ان کی ذا ت ہے جس کی دنیا سے محض اتنی ہی رغبت ہے کہ یہ ان کے گرد موجود ہے اور وہ حیرت لیے واپس لوٹتے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ دنیا میں رہنے کا ڈھب اتنا ہی سیکھ سکے ہیں، جتنی ضرورت ہے، ہاں ایک لپک زندہ ہے جس کے اندر کا کائناتی حسن ان کے چہرے سے عیاں ہے، ان کا چہرہ اس لپک کے ساتھ اداس، دکھی، رنجیدہ اور دلفریب ہوجاتا ہے کہ یہ ڈاکٹر خورشید رضوی کا چہرہ ہے، جہاں پروقار ذہانت کا انبار لگا ہے لیکن سماجی چالاکی، جسے میں نے کئی اشکال سے منہ نکالے جھانکتے دیکھا اور دیکھتا رہتا ہوں، اس کا دور دور تک شائبہ نہیں۔
اصل میں وہ سماجیات کے آدمی نہیں ہیں، وہ تنہائی سے باتیں کرتے ہوئے سکوت میں پلے، ایسے نابغہ روزگار ہیں جنہیں شور دیکھنا پسند نہیں کہ اس آزار کے وہ عادی نہیں لیکن آزار تو بہرحال موجود ہے لیکن ان کی شاعری کی صورتحال اس آزار سے مختلف ہے، جس میں ڈھلتی جاتی شام کا عکس دیکھائی دیتا ہے جو ان کے عشق کے ساتھ ساتھ نمو پذیر ہے لوگوں سے بچھڑجانے کا دکھ اور وقت کا چہروں پر تبدیلی لانے عزم، انہیں مغموم رکھتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ بے نام ہوتی جاتی دنیا سے جڑے ہیں۔
شاید انہیں یہ خیال آجاتا ہو کہ دنیا میں بہت سے لوگ ان سے شدید محبت کرتے ہیں، تبھی وہ کتابوں اور صفحوں کی خوشی سے نکل کر اس تنہائی میں آنکلتے ہیں، جہاں لوگ ہوں میں نے انہیں اس وقت بھی دیکھا ہے جب وہ لوگوں میں موجود ہیں اور چہرے پر آتی مغموم خوشی موجود ہے، تبھی مجھے خیال آتا ہے، میں انہیں جانتا ہوں لیکن شاید نہیں کہ کچھ چھپا رکھا ہے کہ اگر وہ اسے عیاں کردیں تو وہ تماشہ ہی ختم ہوجائے جس کی بنیاد پر سارا طلسم ترتیب دیا گیاہے۔ ویسے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حقیقت سے کہیں کہیں جڑے ہیں، جسمانی طور پر، اور ان منظروں سے جو ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے جاتے ہیں لیکن خیال میں جو دنیا بسی ہے اس کی شناخت وہ لفظ ہیں۔ جنہیں لکھنے سے پہلے انہیں حقیقی دنیا میں سانس لینا پڑا ہے کہ بہرحال وہ اپنے پسندیدہ شہر کے مکین ہیں، جہاں کہ موسم ان پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں، گزرتے موسم ان کے چہرے کے خدوخال کو لاکھ بدلتے رہے ہوں لیکن چہرے کی مسلط جھریوں میں چھپے وہ ویسے ہی ہیں جب پلکیں جامد ہوگئی تھی۔
تبھی سے یاد کے کھیت دور دور تک لہلہاتے نظر آتے ہیں، گزرتے وقت کی ہوا انہیں تھکائے دیتی ہے تبھی دن پر دن رکھا ہے لیکن میں نے کچھ دنوں کو الگ سے بچا رکھا ہے جس میں ان سے ملاقاتیں رہی ہیں، ورنہ تو باقی بے معنی دن ایک ایک لمحے کی زندگی لیے مرتے رہے ہیں کہ ان کی قسمت میں مرجانا ہی تھا، ویسے بھی دیوار پر لگے خالی کینویس جیسے دن کو کون یاد رکھتا ہے، ہاں ان کے دیدار کے دن بہت سے رنگوں سے مزین ہیں، دیکھتا ہوں، وہ گفتگو کررہے ہیں اور رنگ نجانے کہا ںسے اڑ اڑ کر خالی کینویس پر جمع ہورہے ہیں، پھر ایک تصویر بن کر یاد کا حصہ بنتے گئے ہیں، ایک دفتر تیار ہوگیا ہے جسے سنبھال کر رکھا ہے کہ ڈرتا ہوں، تیز ہوا اسے بھی بکھرا کر نہ رکھ دے، لیکن ایک طلسم تو بہرحال ہے، تاریک راستوں میں دل لگائے رکھتا ہے۔
شخصیت کے طلسم سے نکلو تو صفحے رکھے ہیں جن پر وہ ویسے ہی موجود ہیں۔ جیسا میں انہیں سمجھ پایا ہوں کہ وہ زندگی کو بے وفا جانتے ہوئے بھی کسی رنج کا شکار نہیں۔ تبھی آسمان سے دوائے مرگ اترتی ہے جیسے وحی ہو کہ گھر رنج و الم سمیٹے اپنے مکینوں کے انتظار میں کھڑے ہیں، یہ مختلف گھر ہیں جن کی آب و ہوا تبدیل ہوتی رہی ہے، زیست کا آزار ختم ہوجانے کے درپے ہے، یہ اکیلے رہ جانے کے اثرات ہیں اور زمانے کے خالی پن کے، غور سے دیکھا جائے تو یہ معاشرتی خالی پن دور دور پھیلا ہے کہ پرندے واپس نہیں آئے کہ جب وہ گئے تھے نجانے کیا کیا چگ گئے تھے، ویسے بھی وقت ایک پرندے کی طرح محوِ پرواز ہے اور آشیانے خالی کرتا جاتا ہے اور نشیب میں پھول کھلاتا ہے، وقت کے گزرنے کی آواز اور دھیمے دھیمے پیروں والی موت کے اَن دیکھے احساس میں کہیں اَندر بارش ہوتی رہتی ہے، یہ دیر تک رونے کی عادت ہے جو بے آواز ہے کہ اچانک پھولوں کے کِھلنے کی سرگوشی، ہنسنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اِرد گرد پھیلی دُنیا میں رہنے کی مجبوری نے ایسے احساسات کو پامال کردیا ہے جو سجی ہوئی محفل میں رونق پذیر تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے ہاں احساسِ زیاں ہے، یہ زیاں ان جذبوں کا ہے جو خالی گزرگئے ان لوگوں کا ہے جن سے بات نہ ہوسکی، پھر بھی بھٹکنے کی خواہش ساتھ ساتھ چلتی ہے اور تھکن سے چور بے سہارا دل سینے میں بے پناہ دھڑکتا ہے، دیکھتا ہوں وہ ظاہری طور پر اصولوں سے لاکھ بندھے ہوں لیکن کبھی کبھی بھٹکنے کی خواہش انہیں شاعر بنائے دیتی ہے، کبھی ندی بہے جارہی ہے، کبھی دریا ہے جس کی روانی میں تیزی اور دھیمہ پن تیز نظر آتی دھوپ میں صاف چمکتے ہیں۔
خورشید رضوی کے ہاں حسن چاند سا ہے جو روز شکلیں بدلتا ہے اور پھر پوری پراسراریت سے چھا جاتا ہے ویسے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان کا حسن ان کے اپنے پاس ہے، اس کے لیے انہیں ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں، ہاں وہ بھی گزرتے وقت سا ابھی کونپل بنے چٹخا تھا اور ابھی زردی مائل سا ٹھہرا ہے پھر انہوں نے بھی حسن کے ساتھ وصال رکھا ہے۔ ویسے بھی ان کی شاعری حسن کے ہمراہ گزری زندگی ہے لیکن جب ان سے میری ملاقات ہوتی ہے، میں نے ہمیشہ ان کے فلسفہ حسن کی بابت پوچھنا چاہا لیکن پوچھ نہیں سکا کہ آخر وہ کس حسن کا شائبہ ہے جو ان کی شاعری سے بار بار جھانکتا ہے کہ میں نے نہ تو انہیں بکھرتے دیکھا نہ ہی کسی حسن کی بابت بات کرتے لیکن وہ پھول بنے شاخ سے پھوٹتے بھی رہے ہیں اور بکھرتے بھی، پھر ایک شکل ہے جو گردش ماہ و سال میں کہیں کھوگئی ہے وہ شکل کون سی ہے جس کی بابت ان کا حاشیہ خیال لبریز ہے کہیں وہ خود ہی تو نہیں لیکن دیکھتا ہوں وہ نرگیسیت کے احساس سے کوسوں دور ہیں، ہاں شاخِ دل پر ایک پھول کھلا ہے اور ذات کا معمہ تضادات کی زد میں کچھ ایسے طلسمات کے در کھولتا ہے جو ماضی کے دھندلکوں میں دور سے نظر پڑتے مکان ہیں جن کے مکین انہیں چھوڑ کے جاچکے ہیں اور دل میں نموپاتا داغ سنبھالے، ان کی صورت میں ایک ایسی مسکراہٹ جنم لیتی ہے جس کے پیچھے ایک تنہائی چھپی اسے خوبصورت بناتی ہے کہ رفتہ و آئندہ کے لوگ ان کی تنہائی میں صاف چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، ہاں اداسی رہ جاتی ہے، لاعلاج روگ کی طرح کبھی کبھی ان کی آنکھوں سے جھانکتی ہے۔
ڈاکٹر خورشیدرضوی تحقیق اور تخلیق کے آدمی ہیں لیکن ان کی شخصیت کی دلفریبی تخلیق کی ہی مرہون منت ہے، انہوں نے اپنی تخلیق کو تحقیق کے زنگ سے بچا کر رکھا ہے، ورنہ تحقیقی کام تو پیپرویٹی صبر سادھرا تھا، لیکن تخلیق نے ایسا ہونے نہیں دیا، یا کسی جادوئی عمل نے، کہ کچھ ہوا تو ہے کہ ایک ہی دریا کی بھرپور لہریں الگ الگ بہتی رہی ہیں، پھر جہاں تحقیق کا معاملہ ہے وہاں تخلیق کی پوریں دھری ہیں، یوں ان کی تحقیق بھی روایتی یا پھر یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ ٹھہرا ہوا پانی نہیں کہ تخلیق کا بہاؤ اُسے بھی ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے۔
ایسا مجھے لگتا ہے کہ ان سے کی گئی ملاقاتوں میں مجھے وہ محض شاعر ہی نظر آئے اور بار بار دیکھنے پر ان کی آنکھیں ایک شاعر کی آنکھیں نظر آئیں اور پوروں پر جو لفظ تھے شاعرانہ تھے، ہر بار جب ان سے ملنے کا وقت قریب آتا ہے، سوچتا ہوں بہت سے سوال کروں گا، لیکن ایسا نہیں کرپاتا، محض انہیں سنتا ہوں لگتا ہے ان کی شخصیت کے حصار نے مجھے ایسی چار دیواری میں قید کردیا ہے جہاں سے رہائی ناممکن ہے، میں رہا ہونا بھی نہیں چاہتا اور پلکیں وہ تو پہلے ہی دیدار سے جھپکنا بھول گئی تھیں اور آج تک اسی حالت میں ہیں کہ جانتی ہیں کہ وہ ذرا بھی جھپکی تو پھیلتی جاتی نوعمر شام رات کا حصہ بن جائے گی اور میں ایک سمندر سے جڑے شہر کا باسی پھر سے ہجوم کا حصہ بن جاؤں گا کہ جس شہر میں آن بسا ہوں، وہاں کے شور نے میرے اعصاب معطل کررکھے ہیں۔