ایسے یا اس جیسے جملے بار بار کہے جاتے ہیں۔ کسی خواہش کا اظہار، جو اندر کہیں چپھی سانس لیتی رہی ہو۔ شاید یہ جملہ بھی، جو محض چند لفظوں سے مل کر بیان کیا گیا تھا، کسی ایسی خواہش کو بیان کرنے کی کوشش ہو جو اندر چپھی ہو، کافی دنوں سے، جس کا اظہار اس وقت کیا ہو جب ایک پرندے کو دیکھا گیا ہو اور اس کی آزادی کو محسوس کیا گیا ہو۔ اس علاقے میں پرندے بھی تو بہت ہیں۔ الگ الگ پنکھوں کو لیئے اڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ آزادی کی خواہش لیئے جملہ بہت نازک سی، شاخ سے بھی دبلی، لڑکی سے کہا گیا تھا جو جملہ کہنے والے کی محبت کے بنائے گئے پنجرے میں کافی دنوں سے قید تھی۔ یہ قید بھی لفظوں سے بنائی گیئی تھی۔ قید ہونے سے پہلے کہا جا سکتا ہے وہ آزاد ہو یا ایسا سمجھتی ہو تبھی وہ خود کو ایک پرندہ ہی تصور کرتی تھی جسکے پروں کی برف جیسی رنگت ہو۔ ایسے پرندے، وہ سمندر کی لہروں پر اڑتے دیکھتی رہی تھی اور خود کو ویسا ہی تصور کیا تھا۔
وہ دونوں ساتھ رہنے لگے تھے اور وہ اسکی باتیں سنا کرتی ایک دن جو اتنا سرد نہیں تھا اس نے کہا تھا، پرندے آزاد لگتے ہیں۔ اپنے پروں کے سہارے وہ کہاں کہاں گھوم آتے ہیں۔ کمرے کی فضا میں دو انسانوں کے سانس لینے کی باس پھیلی تھی۔ ایک خاص سی جسمانی بو لیئے وہ سامنے کھڑا پھر کچھ کہہ رہا تھا، انسان آذاد نہیں۔ قید ہو جانے کی ازلی خواہش اسے بھٹکا دیتی ہے میں بھی بھٹک گیا تھا۔ اس دن جب تمہیں کھڑکی سے جھانکھتے دیکھا۔ تمہاری گلابی جلد نے مجھ سے میری آزادی چھین لی۔ مجھے آزاد کرو، کچھ ایسے ہی جملے کہے گئے تھے۔ وہ سنتی رہی تھی۔ اس کے چہرے کی متناسبت سے کچھ زیادہ پھیلی آنکھوں میں لگے کاجل میں پانی سا لہرایا تھا پھر سب کچھ دھندلا گیا تھا۔ یہ نہ نظر آتا منظر، محض جملوں کے زہر میں بجھا ایک جال تھا۔ جیسے موت سے پہلے کا لمحہ جب بیماری حسیات کترنے لگے۔۔
راقم اس بارے خاموش ہے لیکن کہا جا سکتا کہ جسمانی خواہشات کے ہاتھوں وہ دونوں ہی قید ہوئے تھے۔ شاید دل بھی دھڑکے ہوں جو الگ الگ بناوٹ لیئے سینوں میں بند تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مختلف اعضاء کو اپنایا تھا۔ وہ جو ایک دھیرے دھیرے بہتی ندی تھی، گویا کوئی پتھر سا گرا تھا جسنے لہروں کی سطح پر دائرے بنائے تھے۔ یہ دائرے اس کے بدن کو تبدیل کر رہے تھے۔ اسکی شاخ سے بدن پر گویا پھول کھلتے جاتے تھے۔ وہ اداس سا تھا۔ سنولائی جلد میں چپھا، کہیں اندر ابلتے گرم پانی، میں جلا ہوا، جو اسے بے چین کیئے دیتا تھا۔
پہلی ملاقات میں در کھلے اور بند ہوئے تھے۔ در کھولتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
"ایسا ہو جاتا ہے۔ میں نے خود محسوس کیا جب آذاد رہنا میرے لیئے ناممکن سا ہوا۔ لگا تم نے مجھے قید کر لیا۔ تمہارے جسم کے در، مجھے ایسی بے رحم قید کی دعوت دیتے ہیں جو سانس لینے کے مترادف ہے" اسنے کہا تھا۔
وہ دونوں کسی انجان سی بیماری، سے مشابہہ خواہش کے سہارے سانس ہی تو لے رہے تھے۔ نازک سی لڑکی کو نجانے کیوں بے انتہا بھاری ملبوس کا بوجھ اٹھانا پسند تھا جو اسے تھکا ڈالے دیتا کہ سانس رکنے لگتا۔ اسے ہمیشہ ہی بھاری لباس میں دیکھا گیا۔ اردگرد کے لوگ اسے ایسے لباس میں دیکھ کر اسے، کوئی روائتی سی لڑکی سمجھتے جسے محض ایک مخصوص سے کینوس سے سروکار ہو جہاں تصویریں جنم لیا کرتیں ہیں۔ اجنبی، جو اب اس کے جسم سے بھی قریب تر تھا، بھاری لباس میں چھپی گلابی جلد کا نشہ کیے گہری نیند سی کیفیت میں جاگا رہتا۔ ساری ساری رات، یہاں تک کے آسمان تبدیل ہو جاتا۔۔
ملبوس سے یاد آیا وہ بھاری مگر خوشنما رنگ تھے جو اسکے بدن کو ڈھانپے، سردیوں کی کسی خوشنما دوپہر میں راستہ بھول گئے تھے۔ راستے بھی تو اس قدر ہیں بہت سے موڑ لیئے بھٹکاتے ہیں۔ یوں جیسے کسی پرسرار سے نظر آتے پیڑ کی شاخیں جن پر پرند بیٹھنے سے ڈرتے ہوں۔ اس دن بھی جب سردیوں کی دھندلی دوپہر میں راستہ سجائی نہ دیا تو اجنبی راستے دور تک پھیلے تھے جیسے وسوسے جسم کی سطح پر آنکھ مچولی کھیلتے ہوں۔
وہ نازک سا بدن کسی کی تلاش میں تھا۔ کوئی راستہ اسے بھٹکاتا یہاں لے آیا تھا جو کسی موڑ کی مرہون منت بل کھاتا ان مکانوں کی طرف اترتا تھا جہاں کچھ اداس شکلوں کے جانور خاموشی سے بیٹھے ایکدوسرے کو دیکھتے تھے۔ وہ نازک بدن وہاں تک آیا اور بند در لیئے گھروں کو دیکھنے لگا جسکی بالکونیاں کچھ زیادہ ہی خالی خالی نظر آتیں تھیں ہاں، ہوا تھی جو پردوں کو ہلاتی تھی۔ نازک بدن کو سب سے پہلے ایک بھاری ہوئی جاتی عورت نے دیکھا جس کے بال ممکنہ طور پر ٹوٹے ہوئے پروں سے مشابہت رکھتے دیکھائی دیتے تھے پھر کچھ ایسا ہوا کہ سوگوار سی نظر آتی گلی میں دو عورتوں کی آوازوں نے کچھ کہنا شروع کیا۔
یہ مختلف آوازیں تھیں۔ باریک اور بھاری۔ بہت نازک بدن سی لڑکی، اس بھاری عورت سے کچھ پوچھ رہی تھی۔ بھاری عورت نہ جانتے ہوئے بھی بولے جا رہی تھی شاید اسے بولنے کی عادت تھی۔ نازک لڑکی کو کسی کی تلاش تھی جو ایسے ہی کسی موڑ پر گم ہوگیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کسی اداس سے چہرے کی بابت، جیسا وہ دکھتا تھا اور یہ بھی کہ چوڑے شانے صاف محسوس ہوتے ہیں۔ بھاری نظر آتی عورت نے اداس شکلوں کے جانوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، کہیں ایسا چہرہ تو نہیں تھا، جواب میں نفی کی گئی تھی۔
بھاری نظر آتی عورت کے چہرے پر بیگانگی سی آگئی اور کہا، وہ یہاں کیوں آنے لگا، پھر گویا ہوئی، یہاں مردہ چہروں کے لوگ رہتے ہیں، پھر اسنے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جسکے مایوس چہرے کو مردنی ڈس رہی تھی جیسے گدلے پانی میں کچھ گھل رہا ہو۔ پیچھے کھڑا مکان، پرانی کھڑکیاں سجائے کھڑا تھا ان آنکھوں کی طرح جو دیکھنا بھول گیئی ہوں۔ وہ نازک بدن اس مردہ ہوئے جاتے علاقے سے واپس لوٹی کہ اسے لگا وہ غلط جگہ پر آگئی ہے۔
ضرور کوئی اور موڑ ہوگا یا کوئی اور جگہ جہاں چہروں پر اداسی لیئے لوگ رہتے ہوں گے اور وہ وہیں بس گیا ہوگا۔ واپسی کے راستے پر اسے ادھیڑ عمر شخص ملا جو جلدی مرض میں مبتلا چہرا لیئے اسے دیکھ رہا تھا۔ چہرے کی رنگت اس موسم سی تھی جو بس گزر ہی رہا ہو۔ آنکھوں کے گرد کسی سڑے ہوئے موسمی پھل کی پلپلاہٹ تھی، ایسے جلدی امراض پیچھے لگ جاتے ہیں، اس نے سوچا پھر محسوس کیا کوئی ڈر اس سے باتیں کرتا ہے لیکن اس نے موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
کیا کسی اداس سے چہرے والے شخص کو دیکھا ہے، پوچھ ہی لیا اور پھر ایک اور شناخت کو شامل کرتے ہوئے بولی، بہت سیاہ آنکھیں اور گہری بھنویں چہرے پر صاف رکھی محسوس ہو تی ہیں۔
وہ شخص بات تو سنتا رہا لیکن شاید گونگا تھا کچھ نہ بول سکا تبھی تنہائی اور بڑھ گئی اور وہ ڈر کر پھر اسی کے بارے سوچنے لگی۔
جاتے ہوئے اس نے آزادی کا زکر کیا تھا لیکن سر پر مسلط آسمان ہوتے ہوئے کوئی کیسے آزاد ہو سکتا ہے؟ کوئی کیسے آذاد ہوسکتا ہے جب تک کسی کو کسی کی ضرورت ہے؟ ایسا وہ بھی کہا کرتا تھا۔ ایک بار سنسان سی سڑک سے گزرتے ہوئے اس نے کہا تھا، سارا مسئلہ ہی ضرورت کا ہے۔ معاشرتی ضرورت، جنسی ضرورت، مروجہ معاشی ضرورت، خواہشات کا انبار، یہ ہمیں موت کی طرف دھکیلتے ہیں گویا الگ الگ بیماریاں ہمارے جسموں کو کھا جاتی ہیں، اس دن وہ خوب بولا تھا پھر کسی گہری چپ سی کھائی میں اتر گیا تھا بالکل ویسا ہی جیسا پہلے دن نظر آیا تھا۔
ایک دن کہنے لگا اسے تمام منظر برے لگنے لگے۔ وہ بارش کی بوندوں سے گیلی ہوئی جاتی رات بھی دکھ لیئے کھڑی تھی جب اسنے برہنہ نازک کمان سے، بدن کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی تھی اور استعمال کے بعد منہ موڑ کر لیٹ گیا تھا۔ تھوڑی دیر اسکے سانس بولے تھے پھر لگا وہ سیڑھیاں اتر گیا ہے۔ وہ کھڑکی کی طرف ہی دیکھتی رہی تھی جہاں نظر آتے اشجار تھے، سردی کی شدت سے جھکے پڑے تھے۔ اس نکلتے دن نے اسے خوب رلایا تھا۔ گالوں پر نمکین نمکین احساس جمتا رہا تھا۔۔
نازک سے بدن کو وہ وقت یاد آیا جب وہ سیڑھیاں چڑھ آیا تھا اور بے انتہا بولا تھا جیسے اس سے بات کرنے والا کوئی نہ ہو تبھی اداسی نے اس کی آنکھوں کے گرد ایسے رنگوں کے پھول کھلا رکھے تھے جو عام طور پر ڈھلوان کی طرف اترتے راستوں پر نظر آتے ہیں۔ وہ انہیں راستوں سے آیا تھا۔ انہی راستوں سے، جنہیں نیچے اترتے نازک بدن نے کئی بار دیکھا تھا۔ جہاں بہت نیچے کوئی وادی تھی جو کسی ترتیب سے بنائی گئی تصویر کی طرح خاموش محسوس ہوتی تھی۔ گہرے، نیلے رنگ کی دیواریں اور ایک سی، تنہآئی اوڑھے چھتیں جو دور نیچے چوٹ کھائے جسم کا حصہ لگا کرتیں جن کے ارد گرد کھرنڈ کی رنگت کے درخت ایک دوسرے سے مایوسی کی حد تک خاموش محسوس ہوتے۔ کہا جا سکتا ہے وہ وہیں کا تھا۔ نظر پڑتے منظر کی طرح وہ بھی بہت اداس اور خاموش سا تھا۔ لیکن نازک سے سراپے کو دیکھ کر بولنے لگا تھا۔۔
بہت نازک نظر آتی لڑکی اسے دیکھ کر کھل سی گئی تھی یہ جانے بغیر کے کہ وہ دکھ دینے آیا ہے اور یہ دکھ اسوقت سامنے آیا جب اس نے تھکن کا زکر کیا پھر آزادی کا، جسکی خاطر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ شاید وہ ڈھلوان کی طرف اتر گیا ہو جہاں سے آیا تھا جہاں کے منظروں نے اسے اپنا لیا ہو۔ وادی میں بنے کسی گھر میں جا چپھا ہو۔ اسے، اسکی عجیب سی باتیں یاد آیئں۔ ایکبار ناف کے قریب مٹتے جاتے تل کو دیکھ کر اسنے ندیدے پن سے کہا تھا، یہ سب سے دلکش منظر ہے اور تم اس منظر کو چپھائے پھرتی ہو، تم بہت دلکش ہو کسی سمندر پر اڑتے پرند سی۔ وہ خود کو کہاں دیکھ سکی تھی۔ اسے کبھی خیال تک نہ آیا تھا۔ اسے تو یہ بھی خیال کبھی نہ آیا کہ وہ اس قدر خوبصورت ہے ہاں اسکی لکھی نظموں سے اسے، اپنے بارے میں علم ہوا جو خون آلود رنگوں سے سفید کاغذوں پر لکھی گئی تھیں۔
نظمیں اسقدر باتونی تھیں کہ ہر وقت اس سے ھم کلام رہتیں۔ کینویس پر چپکی، لفظوں کا فریب اوڑھے اسے بے قرار رکھتیں۔ وہ تصویریں بنانا بھول سی گئی تھی بس کچھ سوچتی رہتی۔ اسے لگتا وہ کائنات کی سب سے حسین لڑکی ہے۔ وہ رات کے کسی پہر آتا جب اندھیرہ باہر کی ہر شے کو ڈھانپ لیتا تبھی کمرے کی روشنی میں وہ کتنا واضح نظر آتا جیسے کوئی اچھی نسل کا بیل ڈکارنے کو تیار ہو۔ وہ محسوس کرتی، وہ منہ پھٹ، جنگلی، اوراپنے کھردرے جسم سے اسے بے حال کئے دیتا ہے یہاں تک کے آسمان سے روپہلی کرنیں، زمین کی کوکھ بھر دینے پہنچ جاتیں۔
وہ سوچتے سوچتے بڑی سڑک پر آگئی تھی جہاں ٹریفک کا شور تھا تو زیادہ نہ سوچ سکی بس دیکھ سکی کہ دوسری طرف جو راستہ جاتا تھا وہ دھیان میں آئے کسی خیال سا تھا۔ ویسے بھی وہ کافی دیر سے اس کے خیالوں میں تھی اور بھول گئی تھی کہ کافی تھک چکی ہے۔ آسمان سے شام کا سا شائبہ اترتا ہے۔ سامنے نظر آتی گلی میں کچھ چہروں پر شام آ جانے کی سراسیمگی پھیلی ہے۔ وہ چہرے کسی نہ معلوم سے ڈر میں پور پور اترے ہیں جیسے سورج مکھی کے پھول جو اسکے کمرے کی کھڑکی سے روز ہی نظر آتے ہیں پھر تازگی سے مرجھا جانے کے جان لیوا عمل سے گزرتے ہیں۔
پھولوں کا خیال آتے ہی وہ واپس مڑی تب اسے لگا وہ واپسی کا راستہ بھول گئی ہے کہ بہت سے جادو گر راستے آنکھوں کو بھٹکاتے ہیں۔ راستوں کی ہمیشہ کی عادت ہے وہ اجنبی لوگوں کو دیکھ کر، ان کی یاداشت کا امتحان لینے میں مزا لیتے ہیں اور آنکھیں کسی کی تلاش کا جبر لیئے، بہت بے صبری نظر آتی ہیں۔ وہ ائنہ دیکھے بغیر بھی جانتی تھی کہ چہرے کے باقی نقوش جلد کو سنبھالتی ہڈیاں کھا چکی ہیں۔۔