یہ ایک ایسی خبر تھی جسے صبح سویرے سنا گیا، جو رات میں نے گزاری تھی وہ رتجگے سے بھری تھی، جس میں کچھ بے شکل سے اندیشے تھے جسے میں معمول کی عادت سجھا تھا لیکن صبح، جو تمہاری موت کی خبر کے بوجھ کے ساتھ آئی تھی اس میں چپھے زہر نے مجھے بھی مار ہی ڈالا تھا۔
میں جو تمہاری دلفریب مسکراتی آنکھوں کا اسیر تھا، سوچتا تھا کہ موت نے سب سے پہلے تمہاری مسکراہٹ پر حملہ کیا ہوگا اور تمہارے سنولائے جاتے، زرد چہرے پر، جہاں کہیں کہیں زندگی کے آثار رہ گئے تھے۔ تمہاری مٹی ہونے سے کچھ دنوں پہلے کی تصویروں میں تم انتہائی لاغر نظر آئے تھے کہ جان لیوا بیماری تمہیں ندیدوں کی طرح کھا رہی تھی لیکن اپنی مخصوص محبوب مسکراہٹ سے تم اسے شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھے شاید تمہیں وہم ہو کہ جیت جاٶ گے اور پہلے کی طرح حسین اور دلربا نظر آٶ گے۔
جب تم مختلف جگہوں پر موجود ہوا کرتے تھے اور تمہاری شاعری کا جادو مسحور کیئے دیتا تھا ایسے جیسے شاعری چمکتی اٹھلاتی کسی نوخیز کی طرح تم پر فدا ہو اور تم اسے زندہ رکھنے کے لیئے، اپنا سارا لہو نچھاور کیئے دیتے ہو اور وہ ہے کہ تمہاری پوروں سے خون چوسے جاتی ہے۔
ویسے تم سے میری آخری ملاقات سمندری کنارے پر ہوئی تھی اور تم اسی مستی کا شکار تھے جو آسمانوں سے بطور خاص تمہارے لیئے اتری تھی وہ دن یادداشت میں پھو ل کی طرح کھلا ہے۔ چاند کی طرح چمکتا ہے اور ایسی شام کی طرح یاد رہتا ہے جو اب کھی نہیں آئے گی کہ تم نہیں ہو کہ مٹی ہو گئے ہو کہ تمہیں مکمل کرنے موت آئی تھی اور رات کے کسی زہر آلود لمحے میں تم نے زندگی کی افراتفری کو خیرباد کہا تھا۔ شور کے آزارسے منہ موڑ لیا تھا، بیماری کے لالچی پن کو، جس نے تمہیں بے حال کر دیا تھا، محسوس کرنا چھوڑ دیا تھا۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میرے من موہنے شاعر کو کسی کی نظر کھا گئی یا وہ خود اوب گیا کچھ ضرور ہوا، کچھ ایسا جو نیا نہیں تھا ہاں موت آئی تھی اور تمہیں لے گئی تھی۔
موت کی عادت ہے وہ سیلاب سی آتی ہے، سب بہا لے جاتی ہے۔ سوائے یادوں کے جو زندہ ذہنوں پر ثبت رہتی ہیں۔ تمہاری یادوں کا انبار لگا ہے۔ تمہارے چہرے کے نقوش، تمہاری گفتگو اور والہانہ آوارگی یاد کے دریچوں سے جھانکتی ہے۔ ایک ایک منظر صاف شفاف سا ابھی بھی موجود ہے۔
یونیوسٹی کی آرٹس لابی کی ایک دیوار کے ساتھ تم ٹیک لگائے کھڑے، آسمان دیکھ رہے ہو، اجمل سراج، میں تمہیں پکارتا ہوں لیکن تم مڑ کر نہیں دیکھتے کہ تم اپنی محبوبہ سے محو گفتگو ہو یہ وہی محبوبہ ہے جس کی خاطر تم نے سانس لینا سیکھا تھا آب جب تمہیں مٹی کے سپرد کرکے سب واپس آئے ہوں گے وہ وہیں رہ گئی ہوگی کہ اس کا خالق اسے چھوڑ کر موت سے ھمکنار ہو چکا ہے۔ کاش یہ سانحہ نہ ہوا ہوتا لیکن سانحے تو ہونے کے لیئے ترتیب دیئئے گئے ہیں اور جسم مرنے کے لیئے، بس یادیں رہ جاتی ہیں۔۔
میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے
بس اسی بوجھ سے دوہری ہوئی جاتی ہے کمر
زندگی کا جو یہ احسان اٹھایا ہوا ہے