حنا خراسانی رضوی سے میری ملاقات ان لفظوں سے ہوئی جو صفحوں پر چمک رہے تھے، یہ سادہ سے لفظ تھے اور یہی وہ کشش تھی کہ لفظ در لفظ میں ان میں اترتا گیا، سادہ لفظوں سے تشکیل شدہ جملے با معنی تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے کہانی بن رہے تھے، ایسی کہانیاں جنہیں جاسوسی کہانیاں کہا گیا ہے، اگر ایسا نہ بھی کہا جاتا تو پھر بھی یہ معاشرے کے ہر پہلو سے جڑی ہیں اور کرداروں کے سانس لیتے اجسام ثقافتی رنگ لیے سامنے آجاتے ہیں۔
یہ سب جاندار کردار ہیں جو کہانیوں کی برجستگی میں گہرے اثرانداز ہیں، لگتا ہے ہر کہانی ایک بہتا پانی ہے اور کردار مچھلیوں کی طرح بار بار منہ نکالتے ہیں، ورنہ تو وہ خوش ہیں کہ کہانی کی ترتیب انہیں خود میں محو رکھتی ہے، ہوسکتا ہے وہ خود بھی کہانی کار کی بنائی دنیا میں ان پوروں کے متلاشی ہوں جو انہیں لکھ رہی ہے، تبھی وہ بولتے ہیں، بات کرتے ہیں اور یوں کہانی کار کے ساتھ ساتھ ہراس پہلو میں ڈھل جاتے ہیں جہاں ان کی قسمت لکھی گئی ہے لیکن پھر بھی جاندار ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کہانی کار نے انہیں نادیدہ دھاگوں سے باندھ رکھا ہے اور یہ بھی کہ انہیں کب خاموش ہونا ہے کب بولنا ہے اور کب محسوس ہوتا ہے۔
کہانیاں اپنے اندر کچھ مختلف سی کیفیت رکھے ہوئے ہیں، ایسی کیفیات جنہیں پہلے برتا تو گیا ہے لیکن اس بار شکل و صورت پر پرچھائیوں کی طرح آتی جاتی کیفیات کو خوب مانجھا گیا ہے، اس خیال کے ساتھ کہ پڑھنے والا کسی افیونی ابہام کا شکار نہ ہو، بلکہ خود ہی اس کا حصہ بنتا جائے، میں خود بھی سودائے جنوں کا حصہ بنا رہا، ایسا مجھے لگا کہ جب یہ طویل کہانی میں نے ختم کی تو کافی دیر لگی کہ میں اپنے ارد گرد پھیلی فضا میں واپس آسکوں کہ ایک تجسس تھا جو کہانی کے جملوں میں چھپا ہمکلام تھا اور میں جو بہت جلدی اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہوں، ساتھ ساتھ رہا، مجھے لگا کہ کہانی کار آسان واضح جملوں میں جو کچھ لکھے جاتا تھا وہ اس کی مشاقی کا ثبوت تھا۔
یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ جاسوسی کہانیوں سے مجھے اگتھاکرسٹی، ابن صفی، ارتھر کونن ڈائیل یاد آئے تھے اور یوں ایک خیال سابن گیا تھا کہ یہ کہانیاں اسی فضا کی ہوں گی لیکن حنا خراسانی رضوی نے جو بقول فاطمہ حسن کہ وہ روحانیت پر اپنا مقالہ بھی لکھ چکی ہیں، کچھ ایسا منظر باندھا جو دور سے لاکھ سراب سا نظر آتا تھا لیکن قریب جانے سے ایسا کینویس لگا جس پر رنگوں نے قبضہ جما رکھا ہو اور یہ ان کے اپنے رنگ تھے، اپنا ہی سسپنس تھا جسے کسی اور سے رغبت نہ تھی کہ کئی بار ایسے موضوعات پر کسی بڑی لکھاری کا داغ لگ جاتا ہے، لیکن یہ بے داغ رنگ تھے جو لفظوں سے جھانکتے اپنے کلائمکس کو پہنچ گئے تھے کہ اس طرز کی کہانیوں کو بہرحال اپنے خاص کلائمکس کی لالچ درکار ہوتی ہے۔
کرداروں میں کرافٹ نہیں، کبھی کبھی یوں لگتا ہے ان سے ملاقات ہورہی ہے، وہ لاکھ قاری سے ہمکلام نہیں کہ اپنی عادتوں میں کھوئے ہیں، لیکن قاری ان سے رشتہ جوڑنے میں بہت آسانی محسوس کرتا ہے، ایسی آسانیاں جب ہی میسر آتی ہیں جب کہانی کار کہانی لکھنے کی آزمائش سے واقف ہو اور یہ واقفیت حناخراسانی رضوی کو بہرحال ہے، ایسی واقفیت کہانی اور کہانی کار کے درمیان نہ نظر آتی پراسرار سی، نادیدہ سی گرہ ہے، ایسا تبھی ہوتا ہے جب کہانی میں کرافٹ نہ ہو، تبھی میں نے پہلے کہا تھا، صفحوں کی بساط پر رکھی کہانیاں لاکھ جاسوسی کہانیاں ہوں ان میں معاشرتی، ثقافتی تسلسل ہے، ویسے بھی کہانیاں لکھنا خود سے ہمکلامی کے زمرے میں آتا ہے اور ایسی ہمکلامی اسی وقت ترتیب پاتی ہے جب کہانی کار کی نظر اندرون و بیرون ہوتے واقعات پر ٹھہری ہو اور تخلیق کے جوہر میں ڈھل جائے۔
تخلیق بہرحال تخلیق ہے اور اچھی تخلیق پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، خود میں بھی اس گرفت سے کہاں بچ سکا کہ ایک Creatve flow تھا اور ساتھ ساتھ کہے جاتا تھا، بھٹک جانے کا شائبہ تک نہیں تھا کہ کردار کہانی کے اثر میں گرفتار سیدھے سیدھے جملوں میں ہمکلام تھے اور یوں ایک بہت مختلف اور دیر تک اثرانداز رہنے والی کہانیاں لکھی گئی تھیں۔